Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ ایمان لائے وہ ہوں یا یہود و نصاریٰ اور صابی ہوں ، جو کوئی بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان و عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا ، اس کیلئے نہ تو کوئی کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی ہو گی
ایمان کا دعویٰ کرنے والے : 131: وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا آخری رسول اور قرآن کریم کو اللہ کی آخری کتاب تسلیم کرتے ہیں اور توحید پر ایمان ، رسالت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ فرشتوں پر ایمان ، کتابوں پر ایمان اور آخرت پر ایمان لانے والے ہیں۔ جو من حیث القوم ایک قوم ہیں لیکن ایک نسل ہونا ان کا ضروری نہیں ہے۔ گروہ یہود میں داخل لوگ : 132: یعنی وہ لوگ جو دین یہود کے پیروکار ہیں خواہ پہلے سے یہودی چلے آ رہے ہیں نسلاً یہودہوں یا پہلے مشرک وغیرہ یا کچھ اور ہوں اور اب یہود کا عقیدہ اختیار کرچکے ہوں۔ اب تک ذکربنی اسرائیل نام ایک خاص نسل و خاندان کا چلا آرہا تھا اور ان کی تاریخ کے اہم ترین منظر سامنے لائے جا رہے تھے اب ذکر ان کے مسلک و مشرب اور عقیدوں کا شروع ہوتا ہے کیونکہ یہاں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ یہ ہے : وَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا اور اس سے پہلے خطاب تھا ، یا بنی اسرائیل کے لفظ سے ۔ بنی اسرائیل ایک نسلی نام تھا ایک کنبہ ، قبیلہ یا قوم کا نام ہے جسے اپنی عالی نسبی کا بہت فخر تھا وہ ہمیشہ اپنے آباء و اجداد کی مقبولیت پر نازاں تھے اس لئے تاریخ کو دہراتے وقت ضروری تھا کہ اس کا نسلی نام لیا جائے اب بیان ایک دینی مسلک کا ، ایک اعتقادی نظام کا شروع ہو رہا ہے یعنی ہر اسرائیلی یہودی ہے لیکن ہر یہودی کا اسرائیلی ہونا ضروری نہیں۔ قرآن کریم کا ایک یہ بھی اعجاز ہے کہ جب وہ ایک ہی بیان کے لئے مختلف لفظ لاتا ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی خاص رمزیا دقیق باہمی فرق کا ضرور لحاظ رکھتا ہے ۔ مذہب یہود ایک نسلی مذہب ہے تبلیغی مذہب نہیں۔ اگرچہ انہوں نے (یعنی یہود نے) کسی کو یہود بنانے کی دعوت نہ دی ہو لیکن کچھ ان کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے متاثر ہو کر اپنی ضرورت کے لئے یہودی ہوگئے تھے وہ بیشک پیدائشی یہودی نہ تھے بلکہ عرب یا بنی اسماعیل تھے لیکن ان سے مرعوب ہو کر انہوں نے یہودیت اختیار کرلی تھی اسلئے رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت معاصرین یہود کی حیثیت صرف مذہبی اور دینی فرقہ کی رہ گئی تھی۔ اس لئے اس جگہ ان کو گروہ یہود میں داخل ہونے کے ناطے سے بلایا جا رہا ہے۔ نصاریٰ کہلانے والی پارٹی : 133: نصاریٰ جمع ہے نصرانی کی۔ ملک شام موجودہ علاقہ فلسطین میں ایک ناصرہ نام کا ایک قصبہ ہے جو بیت المقدس سے تقریباً ستّر میل کے فاصلہ پر ہے اور بیت المقدس سے شمال میں اور بحیرہ روم سے مشرق میں بیس میل کے فاصلہ پر آباد ہے جس کی آبادی اس وقت آٹھ نو ہزار کے قریب تھی۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا آبائی وطنی یہی قصبہ ہے ، اور مسیح (علیہ السلام) کو اسی نسبت سے ناصری کہا جاتا ہے۔ بعض نے اسکو عربی لفظ فرض کر کے نصرت سے مشتق سمجھا ہے لیکن صحیح قول اول ہی ہے اس جگہ قرآن کریم ذکر مسیحوں کا نہیں بلکہ نصاریٰ کا کر رہا ہے ، قرآن کریم کا ہر لفظ پُر حکمت ہے مسیحی وہ ہیں جو اناجیل اربعہ پر ایمان رکھتے ہیں ، مسیح کو اللہ کا نبی نہیں بلکہ بیٹا مانتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ اللہ ان میں حلول کر آیا تھا۔ آخرت میں نجات دینے والا مسیح ” ابن اللہ “ کو یقین کرتے ہیں اور خدا کو تین اقنوم میں تقسیم کر کے ایک ناقابل فہم فلسفہ بیان کرتے ہیں کہ ہر اقنوم بجائے خود بھی خدا ہے اور تینوں اقنوم مل کر بھی ایک ہی خدا بنتے ہیں۔ ان کھلے مشرکوں کا ہرگز ہرگز یہاں ذکر نہیں کیا گیا۔ اسلئے انکا نام بھی جو مشہور تھا اور پیچھے چلا آرہا ہے اسکو چھوڑ کر نصاریٰ لایا گیا نصاریٰ یعنی مسیح کے سچے پیرو اسکی نبوت کو ماننے والے۔ یہ لوگ توحید کے قائل تھے اور بجائے اناجیل اربعہ کے صرف انجیل متی کو مانتے تھے لیکن جب مشرکانہ عقائد کا زور بندھا اور اصل مسیحیت حلولیت اور تثلیث ہی قرار پاگئی تو قدرۃً نصرانیت کا ستارہ بھی گردش میں آیا اور نصرانی ونصرانیت کے الفاظ بجائے عزت و تکریم کے حقیر موقع اور ذم کے محل میں استعمال ہونے لگے۔ یہ وضاحت اسلئے کرنا پڑی تاکہ نصرانیت اور مسیحیت کا فرق معلوم ہوجائے قرآن کریم کے نزول کے وقت یہ فرق نالکل عام تھا قرآن کریم نے جب مدح کی تو نصاریٰ کا نام لیا اور جب بھی کوئی موقع ذم کا آیا تو نصاریٰ کا لفظ استعمال نہیں کیا صرف اہل کتاب یا مسیحیت کا ذکر کیا۔ صابی کون لوگ تھے ؟ 134: صابی کے لفظ معنی تو ” اپنے دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں چلے جانے کے ہیں۔ “ یا اپنے مذہب سے بیزار ہو کر دوسرے کی طرف مائل ہونے کے ۔ (راغب) لیکن اصطلاح میں صابیوں کے نام کا ایک مذہبی فرقہ تھا۔ جو عرب کے شمال مشرق میں شام و عراق کی سرحد پر آباد تھا۔ یہ لوگ دین توحید اور عقیدہ رسالت کے قائل تھے اس لئے اصلاً اہل کتاب ہی تھے۔ یہ لوگ اپنے کو ” نصاریٰ یحییٰ “ کہتے تھے گویا یہ لوگ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی امت تھے۔ سیدنا عمر فاروق ؓ جیسے مبصر و نکتہ رس خلیفہ راشد اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ جیسے محقق صحابی نے صابیوں کو اہل کتاب میں شمار کیا ہے اور ان کا ذبیحہ بھی حال مانا ہے اور تابعین میں سے بھی ایک جماعت اکابرین کی اہل کتاب اور موحد ہی مانتی ہے یہاں تک کہ کہاں گیا ہے کہ وہ اہل قبلہ تھے۔ نماز ادا کرتے تھے اور امام ابوحنیفہ (رح) چونکہ خود عراقی تھے اس لئے ان سے براہ راست واقفیت رکھتے تھے ان کا فتویٰ ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں ان کا ذبیحہ حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح درست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عراق میں اسی نام سے یہ لوگ اب بھی موجود ہیں لیکن عراقی لوگ ان کو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی امت کہتے ہیں۔ ایمان باللہ کا تعلق کسی گروہ بندی سے نہیں : 135: یہ ان چار گروہوں کا تعارف تھا جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت اس قسم کے لوگ موجود تھے جو اپنے سچے دین پر قائم اور راہ راست پر گامزن تھے مگر ان کے کان آپ ﷺ کی دعوت سے نا آشنا رہا تاآنکہ وہ مرگئے۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ان کے حق میں کیا فیصلہ ہوگا ؟ اسی سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی چناچہ حسب ذیل روایت اس کی تائید کرتی ہے۔ ” ابن جریر نے مجاہد سے سلمان کا بہت بڑا قِصّہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلمان نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ ان نصاریٰ کا کیا حال ہوگا جن کو ہم نے دیکھا تھا کہ وہ لوگ نہایت ہی زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اسلام پر تو نہیں مرے۔ سلمان کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی مجھ پر دنیا تاریک ہوگئی میں نے ان لوگوں کے ورع وتقویٰ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی یعنی زیر نظر آیت : اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے آخر آیت تک۔ رسول اللہ ﷺ نے سلمان کو طلب فرمایا اور کہا کہ تمہارے دوستوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے پھر فرمایا کہ جو شخص دین عیسیٰ پر مرگیا اور میری اطلاع اسے نہیں ہوئی تو وہ حالت اسلام میں مرا اور جس کے پاس میری نبوت کی خبر پہنچ گئی اور پھر بھی وہ ایمان نہ لایا تو وہ یقیناً ہلاک ہوگیا۔ “ (ابن جریر جلد اول) اس شان نزول نے بتادیا کہ اس آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو آپ ﷺ کے وقت بعثت تک موجود تھے اور حق و صداقت کو کھو نہیں بیٹھے تھے قرآن کریم کی دوسری آیات بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” اور ایمان والوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں ہم نصاریٰ ہیں اس لئے کہ ان میں پادری اور رہبان ہیں اور اس لئے ان میں گھمنڈ اور خود پرستی نہیں ہے اور جب یہ لوگ وہ کلام سنتے ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ پر نازل ہوا تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھیں جوش گریہ سے بہنے لگتی ہیں کیونکہ انہوں نے اس کلام کی سچائی پہچان لی ہے وہ بےاختیار بول اٹھتے ہیں۔ اے اللہ ! ہم اس کلام پر ایمان لائے پس ہمیں بھی انہیں میں سے لکھ لے جو تیری سچائی کی گواہی دینے والے ہیں اور وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کے کلام پر جو سچائی کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے ایمان نہ لائیں اور اللہ سے اس کی توقع نہ رکھیں کہ وہ ہمیں نیک کردار انسانوں کے گروہ میں داخل کر دے ؟ “ (المائدہ 5 : 83 ، 84) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” یقیناً اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ان پر نازل ہوچکا ہے سب کے لئے ان کے دل میں یقین ہے نیز ان کے دل اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے کہ اللہ کریم کی آیتیں دنیا کے لیے بضاعت مال کے بدلے میں فروخت کردیں۔ بلاشبہ ایسے لوگوں کے لئے کوئی کھٹکا نہیں ، ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر محفوظ ہے۔ یقیناً اللہ کا قانون مکافات اعمال کے حساب میں بالکل سست رفتار نہیں ہے۔ “ پس معلوم ہوگیا کہ اس آیت میں وہی لوگ مراد ہیں جو آپ ﷺ کی بعثت کے وقت موجود تھے پھر جو ایمان لائے وہ دنیا و آخرت میں فائز المرام ہوگئے اور جو خاتم المرسلین ﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لائے گویا انہوں نے جس نبی کی تصدیق کی تھی اس پر ایمان نہ لائے اور وہ اپنے اس دعویٰ ایمان میں سچے نہ نکلے کیونکہ ہر نبی کی تعلیم میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا تھا کہ جب اس کی بعثت ہو اس کی تصدیق لوازم ایمان میں سے ہے۔ پھر یہاں تک تو اعتقاد صحیح یا صالح کی بات تھی یعنی ایمان باللہ کے اس حصہ کا ذکر تھا جس کا تعلق اعتقاد صالح سے ہے اور جو عمل صالح سے تعلق رکھتا ہے وہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہی اعتقاد صالح ، پھر جس طرح اعتقاد صالح کا تعلق وحی الٰہی سے ہے بالکل اسی طرح عمل صالح کا انحصار بھی وحی الٰہی ہی پر ہے اور ظاہر ہے کہ وحیٰ الٰہی ہر شخص پر تو نازل نہیں ہوتی لہٰذا اعتقاد صالح اور عمل صالح دونوں ہی کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہے۔ جو عقیدہ آپ کے بتائے ہوئے عقائد کے مطابق ہوگا وہ یقیناً صحیح ہوگا اور جو عمل آپ کی ہدایت کے مطابق ہوگا وہی صحیح کہلائے گا۔ یہاں ان عقائد اور اعمال کی بات ہو رہی ہے جن کا تعلق عقیدہ اور عمل کی ظاہری صورت کے لحاظ سے اس کا تعلق خالصتاً آخرت کے ساتھ وابستہ ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دنیا میں اس کا نتیجہ ظاہر ہی نہیں ہوگا یا ظاہر نہیں ہوسکتا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک اچھے عمل و اعتقاد کا نتیجہ ہر حال میں اچھا ہوگا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور یہ کہ اچھاعمل یا اچھا اعتقاد صرف دنیا ہی کے لئے نہیں ہوگا بلکہ دنیا کے لئے بھی اور آخرت کے لئے بھی کیونکہلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ0062 کے الفاظ اس کی تشریح میں بالکل صاف اور واضح ہیں کہ یہ وہ حالت اور مرتبہ ہے جو روحانی زندگی کی آخری غایت ہے۔ ازالہ وہم : سورة بقرہ کی اسی آیت یعنی آیت نمبر 62 کا مفہوم ایک لحاظ سے مکمل ہوگیا لیکن یہ آیت ان آیات کریمات سے ہے جن کی تفسیر میں اہل اسلام کے ہاں بھی بہت غلو ہوا ہے۔ کسی کا نام لئے بغیر اس نوٹ کا اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ قارئین ” عروہ “ کسی ایسی غلطی کا شکار نہ ہوں۔ یوں تو قرآن مجید کی آیات میں معنوی تحریف کرنے کی ہر زمانے میں کوششیں کی گئیں ہیں اور ہر دور میں کج نظر لوگوں کا یہی شیوہ رہا ہے کہ کتاب الٰہی کے واضح ارشادات کو توڑ موڑ کر اپنے نفس کی خواہشات یا اپنے دوستوں کے رجحانات و مطالبات کے مطابق ڈھالتے رہیں۔ لیکن زمانہ حال میں جو معنوی تحریف زیر نظر آیت میں کی گئی ہے ، اس سے بڑھ کر گمراہ کن تحریف شاید ہی کبھی کی گئی ہو۔ دوسری تحریفات تو زیادہ تر احکام کی قطع و برید پر مشتمل ہیں ، یا تعلیمات اسلامی کے اجزاء میں سے کسی جزء پر ضرب لگاتی ہیں ، مگر یہ تحریف سرے سے اس نبی اد ہی کو اکھاڑ پھینکتی ہے جس پر قرآن مجید تمام عالم کو ایک صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر اس کی زد اس قاعدہ کلیہ پر براہ راست پڑتی ہے جو نوع انسانی کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور جس کے تحت ابتدائے آفرنیش سے بعثت محمدی ﷺ تک تنزیل کتب اور ارسال رسل کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ حقیقت میں اس تحریف نے روح ضلالت کی وہ خدمت انجام دی ہے جس سے ائمہ کفر و ضلال بھی عاجز رہ گئے تھے۔ یہ ایک طرف تو غیر مسلموں کو قرآن کی دعوت حق قبول نہ کرنے کے لئے خود قرآن ہی سے دلیل بہم پہنچاتی ہے ، دوسری طرف مسلمانوں کی جماعت میں جو منافقین اسلام کی گرفت سے آزاد ہونے کے لئے بےچین ہیں ان کو یہ کفر و اسلام کا امتیاز اٹھا دینے کی اجازت خود اسلام کی گرفت سے آزاد ہونے کے لئے بےچین ہیں ان کو یہ کفر و اسلام کے امتیاز اٹھا دینے کی اجازت خود اسلام ہی کی زبان سے دلواتی ہے ، اور تیسری طرف جو اچھے خاصے صاحب ایمان لوگ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی پیروی پر قائم ہیں ، ان کے ایمان کو بھی متزلزل کردیتی ہے ، حتیٰ کہ وہ بیچارے اس شک میں پڑجاتے ہیں کہ جب قرآن اور رسالت محمدی ﷺ سے انکار کر کے بھی انسان نجات پاسکتا ہے اور جب نجات کے لئے سرے سے کتاب اور رسالت پر ایمان لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے تو پھر اسلام کی پابندی محض بےمعنی ہے ، اور ہمارا مسلمان ہونا یا ہندو ، عیسائی ، پارسی ، یہودی وغیرہ ہونا یکساں ہے۔ غرض یہ ایک شاہ ضرب (master stroke) ہے جو ہر طرف سے ، اندر سے بھی اور باہر سے بھی ، اسلام کو نشانہ بناتی ہے۔ داد دینی چاہیے اس ذہانت کی جس نے کتاب ہدایت سے ضلالت کا یہ ہتھیار نکالا ! شاید قرآن پر اس سے بڑا بہتان کبھی نہیں لگایا گیا۔ مجھے بکثرت مجلسوں میں اس تحریف کے کرشمے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور خصوصیت کے ساتھ میں نے دیکھا کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات بری طرح اس کے شکار ہو رہے ہیں۔ اس فتنے کو دیکھ کر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا صحیح مفہوم قرآن مجید سے متعین کیا جائے ، اور جو معنی اس کو پہنائے گئے ہیں ان کی تردید خود قرآن ہی سے کردی جائے۔ کیونکہ جب قائل خود اپنے قول کی تشریح کر دے تو کسی شخص کو اپنے طور پر اس کے قول کو کچھ دوسرے معنی پہنانے کا حق ہی نہیں رہتا۔ سب سے پہلے آیت کے اصل الفاظ ملاحظہ کرلیجئے : اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِـِٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ 1۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ 0062 (البقرۃ 2 : 62) ” بیشک جو لوگ ایمان لائے (یعنی مسلمان) اور جو یہود ہوئے اور نصاریٰ اور صابی ، ان میں سے جو کوئی بھی اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لایا اور جس نے بھی نیک عمل کیے ان سب کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں اجر ہے اور ان کے لئے خوف اور رنج کی کوئی بات نہیں ہے۔ “ اسی مضمون کا اعادہ سورة مائدہ کے دسویں رکوع میں بھی تھوڑے سے تغیر لفظی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دونوں آیتوں کا مفہوم متعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان کا تجزیہ کر کے ایک ایک لفظ کا مفہوم متعین کیا جائے اور اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو بات ان آیتوں میں مختصراً بیان کی گئی ہے ، اس کی تفصیل خود قرآن میں دوسرے مقامات پر کس طرح کی گئی ہے۔ 1: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اس کا لفظی ترجمہ صرف اس قدر ہے کہ ” بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔ “ مگر اس مبتدا کی خبرمنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ (جو بھی اللہ پر ایمان لایا اور یوم آخر پر) میں دوبارہ ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایمان لانے والے کا ایمان لانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ الَّذِیْنَ سے اگر وہی لوگ مراد ہوں جو خدا اور آخرت پر ایمان لائے ہیں تو ان کے لئے دوبارہ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ کہنا فضول ہوگا۔ لہٰذا یہ ماننا لازم آتا ہے کہ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مراد محض گروہ اہل اسلام ہے ، اور اس کے مقابلہ میں مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ سے وہ شخص مراد ہے جو درحقیقت ایمان کامل کا حامل ہو ، بلا لحاظ اس کے کہ وہ کس گروہ سے انتساب رکھتا ہے۔ نزول قرآن کے عہد میں گروہ بندی کے جو تخلیات دماغوں پر مسلط تھے وہی آج بھی مسلط ہیں اور ان کو پیش نظر رکھ کر یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ قرآن مجید یہاں دراصل فرق کر رہا ہے ان لوگوں کے درمیان جو اہل ایمان کے گروہ سے انتساب رکھتے ہوں اور ان کے درمیان جو فی الواقع حقیقت ایمان کے حامل ہوں۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا فرقہ بندی کے نقطہ نظر سے ہی اشخاص میں تمیز کرتی ہے۔ ایک شخص کو مؤمن یا مسلم کہا جاتا ہے ، صرف اس لئے کہ جماعتوں کی تقسیم کے اعتبار سے وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ درحقیقت بھی ” مسلم ہے یا نہیں “ اسی طرح ایک عیسائی ، ایک یہودی ، ایک بدھی کو بھی اس کے ظاہری انتساب کا لحاظ کرتے ہوئے عیسائی ، یہودی وغیرہ کہا جاتا ہے قطع نظر اس سے کہ حقیقت میں وہ اپنے گروہ کے ایمانیات پر اعتقاد رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اسی قسم کی صورتحال نزول قرآن کے عہد میں بھی تھی کہ حقیقت سے قطع نظر کر کے نوع انسانی کو ظاہر کے اعتبار سے گروہوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ لوگ اس لحاظ سے اشخاص اور جماعتوں کے درمیان امتیاز کرتے تھے کہ فلاں شخص محمد ﷺ کی جماعت کا آدمی ہے ، اور فلاں یہودیوں کے گروہ سے ہے ، اور فلاں نصرانیوں کے فرقہ والا ہے۔ چناچہ اسی جماعتی تقسیم کے لحاظ سے منافقین بھی گروہ اہل ایمان ” الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا 1ۚ “ میں شمار کئے جاتے تھے ، حالانکہ فی الواقع وہ ایمان نہ رکھتے تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ اسی نقطہ نظر کی غلطی واضح کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے وہ حقیقت نفس الامری کو بیان کرنے سے پہلے گروہوں کا ذکر ان کے جدا جدا ناموں سے کر رہا ہے ، اور ابتداء اس نے مسلمانوں کے گروہ سے کی ہے۔ 2: وَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا لفظی ترجمہ : ” وہ لوگ جو یہودی ہوئے۔ “ مقصود یہاں بھی وہی ہے جس کی تصریح اوپر کی گئی ہے۔ ” یہودی ہوئے “ سے مراد یہ نہیں کہ جنہوں نے حقیقت میں یہودیوں کا عقیدہ اور مسلک اختیار کیا ہے ان کے لئے وہ حکم ہے جو آگے چل کر بیان ہونے والا ہے ۔ بلکہ دراصل گروہ اہل یہود میں شمار ہونے والوں کو وَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 3: وَ النَّصٰرٰى : سلسلہ کلام کے تحت یہاں نصاریٰ سے مراد بھی ” اعتقادی عیسائی “ نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو عیسائیوں کی قوم میں شمار ہوتے ہیں۔ 4: وَ الصّٰبِـِٕیْنَ : یہ لفظ اہل عرب کی زبان میں عراق والجزیرہ وغیرہ علاقوں کے اس گروہ کے لئے بولا جاتا تھا جس میں انبیائے متقدمین کی تعلیمات کے ساتھ کو اکب پرستی اور ملائک پرستی کے عقائد غلط ملط ہوگئے تھے۔ یہاں بھی صابئین سے مراد محض اسی گروہ کے لوگ ہیں ، نہ کہ صابیت پر اعتقاد رکھنے والے۔ 5: مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ 1۪ۚ لفظی ترجمہ یہ ہے ” جو کوئی بھی ایمان لایا اللہ پر اور روز آخرت پر اور جس نے بھی نیک عمل کئے ایسے لوگوں کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف ہے اور نہ رنج۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ نے دراصل اس خیال کی تردید کی ہے جو عام طور پر پھیلا ہوا ہے کہ انسانوں کی تقسیم نام و نسب اور ظاہری انتسابات کے اعتبار سے جو مختلف قوموں اور گروہوں میں ہوگئی ہے اسی کے مطابق انکا حشر بھی ہوگا۔ یہودی یہ سمجھتا ہے کہ جو یہودیوں کے گروہ میں شامل ہے وہی نجات پانے والا ہے ، اس گروہ کے باہر کسی کیلئے نجات نہیں ہے۔ نصرانی یہ گمان کرتا ہے کہ نصرانیوں کے گروہ میں شامل ہوجانا گویا اہل حق میں شامل ہوجانا ہے اور اس گروہ سے باہر سب اہل باطل ہیں۔ مسلمان بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ محض گروہ اہل اسلام میں نام اور خاندان اور چند ظاہری اشکال و مراسم کے اعتبار سے شامل ہوجا نا ہی ” مسلمان “ ہونا ہے اور اس لحاظ سے جو لوگ اس گروہ میں شامل ہیں وہ ان لوگوں پر شرف رکھتے ہیں جو اسی لحاظ سے ان میں شامل نہیں ہے۔ ان غلط خیالات کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان اور انسان میں حقیقی فرق و امتیاز ظاہری گروہ بندی سے نہیں ہوتا ، بلکہ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے۔ جو مؤمن کہلاتا ہے مگر حقیقت میں ایمان اور عمل صالح سے بہرہ ور نہیں وہ حقیقت میں مؤمن نہیں ہے اور اسکا انجام وہ نہیں ہو سکتا جو مؤمنین کیلئے مخصوص ہے۔ اسی طرح جو یہودی یا نصرانی یا صابی گروہوں کی طرف منسوب ہے ، اگر وہ ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف ہوجائے تو وہ حقیقت میں یہودی یا صابی نہیں بلکہ مؤمن ہے اور اسکا حشر وہ ہوگا جو مؤمنین و صالحین کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن اگر وہ ان صفات سے عاری ہو تو جس طرح مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہونا کسی شخص کے لئے نافع نہیں ہے اسی طرح یہودی یا نصرانی یا صابی گروہوں میں شامل ہونا بھی کسی کے لئے نافع نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر یہود و نصاریٰ کی اس گروہ پرستی کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور اس کی تردید کی گئی ہے۔ مثلاً فرمایا : وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى1ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ 1ؕ قُلْ ہَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 00111 بَلٰى 1ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ 1۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (رح) 00112 (البقرہ : 111 ، 112) ” انہوں نے کہا کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا تاوقتیکہ وہ یہودی نہ ہو یا نصرانی نہ ہو۔ یہ محض ان کے من سمجھوتے ہیں۔ اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لاؤ ۔ ہاں جو بھی خدا کے آگے سر تسلیم خم کر دے گا اور نیکو کار ہوگا اس کے لئے اپنے پروردگار کے ہاں اجر ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے کوئی خوف اور رنج نہیں ہے۔ “ وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ 1ؕ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ 1ؕ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ 1ؕ (المائدہ 5 : 18) ” یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں اے پیغمبر اسلام ! ان سے پوچھو کہ پھر اللہ تمہارے گناہوں کی تم کو سزا کیوں دیتا ہے ؟ دراصل تم بھی ویسے وہی انسان ہو جیسے خدا نے اور انسان پیدا کئے ہیں۔ “ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ 1۪ وَ غَرَّهُمْ فِیْ دِیْنِهِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ 0024 فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ 1۫ وَ وُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ 0025 (آل عمران 3 : 24 ، 25) ” انہوں نے کہا کہ ہم کو آگ ہرگز نہ چھوئے گی اور اگر چھو بھی گئی تو زیادہ سے زیادہ چند روز۔ جو باتیں انہوں نے خود گھڑ لی ہیں انہی نے ان کو اپنے دین کے بارے میں دھوکہ دے رکھا ہے۔ پھر اس وقت کیسی کچھ گزرے گی جب ہم ان کو اس دن جمع کریں گے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور ہر شخص کو اپنے کئے کا بدلہ ملے گا اور لوگوں کے ساتھ ظلم نہ ہوگا بلکہ وہی کیا جائے گا جس کے وہ حقیقت میں مستحق ہوں گے۔ “ قُلْ اِنْ کَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 0094 (البقرہ : 94) ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ہاں آخرت کا گھر بس تمہارے ہی لئے ہے اور دوسرے لوگ اس میں حصہ دار نہیں ہیں ، تب تو تمہیں موت کی تمنا کرنی چاہئے اگر تم سچے ہو۔ “ ان تمام آیات میں یہی حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اللہ کا کسی گروہ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ نہ نجات پر کسی قوم کا اجارہ ہے تم اس بنا پر کسی خاص برتاؤ کا حق نہیں رکھتے کہ فلاں قوم میں پیدا ہوئے ہو ، یا فلاں جماعت سے منسوب ہو ، خدا کی نگاہ میں انسان ہونے کی حیثیت سے سب برابر ہیں۔ کوئی قوم نہ بجائے خود چہیتی اور مقبول بارگاہ ہے اور نہ کوئی صرف اس لئے راندہ درگاہ کہ وہ فلاں نام سے موسوم اور فلاں طبقہ سے منسوب ہے خدا کے ہاں اصل وزن انتسابات اور قومیتوں کا نہیں ہے بلکہ اصول اور حقائق کا ہے۔ سچے دل سے ایمان لائو گے اور نیک عمل کرو گے تو اچھا بدلہ پاؤ گے اور اگر ایمان و عمل صالح سے خالی رہو گے تو کوئی چیز تمہیں بری جزا سے نہ بچا سکے گی خواہ تم کسی گروہ سے تعلق رکھتے ہو۔ اسی مضمون کو مسلمانوں اور اہل کتاب دونوں سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے : لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ 1ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ 1ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا 00123 وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا 00124 (النسا 4 : 123 ، 124) ” عاقبت کا مدار تمہاری خواہشات پر ہے اور نہ اہل کتاب کی تمناؤں پر۔ جو برا عمل کرے گا اس کا بدلہ پائے گا اور خدا کی پکڑ سے بچانے کے لئے اس کو کوئی حامی و مددگار نہ ملے گا اور جو نیک عمل کرے گا اس حال میں کہ وہ با ایمان ہو ، تو وہ مرد ہو یا عورت ، ایسے لوگ جنت میں جائیں گے۔ دونوں قسم کے آدمیوں کے ساتھ رتی برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ “ یہی بات ہے جس کو آیت زیر بحث میں ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ جس سلسلہ کلام میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اس میں بحث یہ تھی ہی نہیں کہ مؤمن ہونے کے لئے کن کن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور صالح ہونے کے لئے عمل کا ضابطہ کیا ہونا چاہیے۔ یہ تفصیلات قرآن مجید میں دوسری جگہ بیان ہوئی ہیں۔ وہاں تو محض یہ قاعدہ کلیہ بیان کرنا مقصود تھا کہ خدا کے ہاں اصل اعتبار حقائق نفس الامری کا ہے نہ کہ ان خارجی مظاہر اور سطحی اشکال اور نمائشی انتسابات کا جن پر دنیا کے لوگ کٹے مرتے ہیں۔ اسی لئے وہاں حقائق نفس الامری کی طرف ایک مختصر اشارہ کردیا گیا۔ اب اگر اس سے کوئی شخص یہ معنی نکالتا ہے کہ اس آیت میں چونکہ صرف خدا اور آخرت پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے بس یہی دو چیزیں انسان کی نجات کے لئے کافی ہیں ، ان کے بعد کسی رسول یا کسی کتاب کو ماننے اور کسی شریعت کا اتباع کرنے کی ضرورت نہیں ، یا یہ کہے کہ قرآن کی دعوت کا منشاء اس سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے کہ ہندو پکا ہندو بن جائے اور یہودی سچا یہودی بن کر رہے اور ہر شخص اسی مذہب کا پورا اتباع کرے جس کا وہ معتقد ہے ، باقی رہا قرآن اور رسالت محمدی پر ایمان تو وہ نجات کے لئے شرط نہیں ، تو ایسے شخص کے متعلق ہم صاف کہتے ہیں کہ وہ قرآن کی تفسیر نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ مذاق کرتا ہے۔ اس کی بات تسلیم ہی نہیں کی جاسکتی جب تک کہ ان دو آیتوں کو مستثنیٰ کر کے سارے قرآن کا انکار نہ کردیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ دین کی اصل ایمان باللہ ہی ہے ، اور اسی لئے آیات زیربحث میں سب سے پہلے اسی کا ذکر کیا گیا ہے ، مگر ایمان باللہ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بس خدا کے وجود کا اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرلیا جائے۔ قرآن واضح طور پر خود ہی ہم کو بتاتا ہے کہ ایمان باللہ سے اس کی مراد کیا ہے۔ بَلٰى 1ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ 1۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (رح) 00112 (البقرہ 2 : 112) ” جس نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردیا اور نیکو کاری اختیار کی اس کے لئے اپنے رب کے ہاں اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کوئی خوف اور رنج نہیں۔ “ یہاں ایمان باللہ کی تشریح کردی گئی ہے کہ اس سے مراد ” اسلام “ یعنی اپنے آپ کو خدا کی رضا کا مطیع بنا دینا ہے اور اس کا اجر بھی ٹھیک وہی بیان کیا گیا ہے جو آیت : اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا میں بیان کیا گیا تھا ، یعنی ایسا کرنے والے کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لئے نہ خوف ہے نہ رنج۔ پھر دوسرے مقامات پر مزید تشریح کی گئی کہ ایسا ایمان یا ” اسلام “ آدمی کو صرف انبیاء اور کتب آسمانی کی وساطت ہی سے مل سکتا ہے ، یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص خود اپنی جگہ غور و فکر کر کے خدا اور آخرت کے متعلق ایک عقیدہ اور اخلاق فاضلہ کے متعلق ایک نظریہ قائم کرے ، یا اپنے ذاتی انتخاب سے کام لے کر کچھ باتیں اس مذہب کی اور کچھ اس مذہب کی چن لے ، اور وہ قرآن کی نظر میں مؤمن قرار پائے۔ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ 1ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ 00136 فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا 1ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ 1ۚ (البقرہ 2 : 136 ، 137) ” ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں ، قرآن پر ایمان لائے ہیں جو ہم پر نازل ہوا ہے ان تمام تعلیموں پر ایمان لائے ہیں جو ابراہیم کو ، اسماعیل کو ، اسحاق کو ، یعقوب کو اور اولاد یعقوب (علیہم السلام) کو دی گئیں نیز ان کتابوں پر جو موسیٰ کو اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دی گئی تھیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان تمام تعلیموں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو دنیا کے دوسرے نبیوں کو ان کے رب سے ملی ہیں ، ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کرتے اور ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔ پس اگر یہ لوگ بھی ایمان کی راہ اختیار کرلیں بالکل اسی طرح جس طرح تم نے اختیار کی ہے تو انہوں نے بھی ہدایت پا لی اور اگر اس سے روگردانی کریں تو پھر ان کی راہ ہٹ دھرمی کی راہ ہے۔ “ آل عمران میں دوبارہ اسی مضمون کا اعادہ کیا گیا اور نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ 00133 تک بیان کرنے کے بعد صاف کہا گیا ہے کہ : وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ 1ۚ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ 0085 ” یعنی جو شخص اس دین کو چھوڑ کر کوئی اور دین پسند کرے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامراد رہے گا۔ “ پھر اس سورت میں دوسری جگہ فرمایا : فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ 1ؕ وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ 1ؕ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اہْتَدَوْا 1ۚ (آل عمران 3 : 20) ” پھر اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں تو تم کہہ دو میرا اور میرے پیروؤں کا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے سامنے سراطاعت جھکا دیا ہے اور اہل کتاب اور اَن پڑھ لوگوں سے پوچھو تم بھی اللہ کے سامنے جھکتے ہو یا نہیں ؟ اگر وہ اب بھی اللہ کے سامنے جھک جائیں تو انہوں نے راہ پا لی “۔ ان آیات سے پوری صراحت کے ساتھ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آیت زیر تفسیر میں ایمان باللہ سے مراد محض خدا کو مان لینا نہیں ہے ، بلکہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتب آسمانی کی تعلیم کے مطابق ماننا ہے اور اسی کا نام اسلام ہے قرآن نہایت قطعی الفاظ میں بار بار اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ نبی اور کتاب کا واسطہ انسانی ہدایت کے لئے ناگزیر ہے اس واسطے سے بےنیاز ہو کر کوئی شخص ہدایت نہیں پاسکتا۔ اور اس بنا پر کوئی شخص صاحب ایمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ خدا کے ساتھ اس کے پیغمبروں پر بھی ایمان نہ لائے۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ (النور 24 : 62) ” مؤمن تو صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائیں۔ “ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ کُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا 00136 (النساء 4 : 136) ” اور جو کوئی اللہ اور اس کے ملائیکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخرت سے کفر کرے وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے۔ “ وَ کَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًا 1ۙ وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا 008 فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَ کَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا 009 (الطلاق 65 : 8 ، 9) ” اور کتنی ہی بستیاں تھیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے اور اسکے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو ہم نے نرالی آفت (مصیبت) میں مبتلا کیا۔ مختصر یہ کہ انہوں نے اپنی بداعمالیوں کا مزہ چکھا اور انجام کار ان کے لیے خسارہ ہی خسارہ رہا۔ “ یہ ان بیشمار آیات میں سے چند ہیں جن میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسل کا تعلق غیر متفق ہے اور رسالت کا منکر کسی طرح خدا کا مؤمن نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ بھی بیان کردیا گیا کہ ایمان بالکتب اور ایمان بارسل کے معنی یہی نہیں کہ رسولوں کی عظمت و بزرگی کا اعتراف کرلیا جائے اور زبان سے کہہ دیا جائے کہ ہم ان کو بھی مانتے ہیں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کو بھی۔ ایمان کے لئے محض اس طرح کا ایک تعظیمی اعتراف کافی نہیں ہے۔ جیسا کہ برہمو سماجی حضرات یا گاندھی جی کی قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ بلکہ عملی اطاعت اور اتباع بھی ضروری ہے اور اس قاعدہ کلیہ کو تسلیم کرنا ایک ناگزیر شرط ہے کہ نبی کا قول ، آخری قول (Final Authority) اور اس کے مقابلہ میں اپنی حجت چلانے کا کسی مؤمن کو حق نہیں۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ 1ؕ (النساء 4 : 64) ” ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لئے بھیجا ہے کہ فرمان خداوندی کے تحت اس کی اطاعت کی جائے۔ “ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ 1ۚ (النساء 4 : 80) ” جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔ “ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ 1ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا (رح) 00115 (النساء 4 : 115) ” جس شخص نے رسول سے جھگڑا کیا ، حالانکہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی ہو اور مؤمنوں کے طریقے (یعنی اطاعت رسول) کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا ، تو جدھر وہ مڑگیا ہم بھی اسے ادھر ہی موڑ دیں گے اور اسے جہنم میں جھونکیں گے اور اس کا بہت برا ٹھکانہ ہوگا ۔ “ وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ 1ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ0036 (الاحزاب 33 : 36) ” اور کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اسکا رسول (a) کسی کام کا فیصلہ فر ما دے تو پھر انکا اس معاملہ میں (جس کا فیصلہ کیا گیا ہے) کچھ اختیار باقی رہ جائے اور جس نے اللہ اور اسکے رسول (a) کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوا “ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا 0065 (النساء 4 : 65) ” پس یہ لوگ کبھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک ایسا نہ کریں کہ اپنے تمام جھگڑوں ، قضیوں میں تمہیں حاکم بنائیں اور پھر ان کے دلوں کی حالت ایسی ہوجائے کہ جو کچھ تم فیصلہ کر دو اس کے خلاف اپنے اندر کسی طرح کی کھٹک محسوس نہ کریں اور وہ جو کسی بات کو پوری پوری طرح مان لینا ہوتا ہے وہ ٹھیک اسی طرح مان لیں۔ “ اس کے ساتھ یہ تصریح کی گئی ہے کہ کسی ایک نبی یا ایک کتاب کو چند کتابوں کو مان لینا کافی نہیں ہے ، بلکہ تمام ابنیاء اور تمام خدائی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے حتیٰ کہ اگر ایک نبی کا بھی انکار کیا جائے گا تو تمام انبیاء اور خود اللہ تعالیٰ سے بھی کفر لازم آئے گا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ 1ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًاۙ00150 اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا 1ۚ (النساء 4 : 150 ، 151) ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے برگشتہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ میں اور اس کے رسولوں میں تفرقہ کریں اور کہتے ہیں ہم ان میں سے بعض کو مانتے ہیں بعض کو نہیں مانتے اور اس طرح چاہتے ہیں ایمان و کفر کے درمیان کوئی راہ اختیار کرلیں تو ایسے لوگ یقیناً کافر ہیں اور کافروں کیلئے ہم نے ذلت دینے ولا عذاب تیار کر رکھا ہے “ یہ اس لئے کہ تمام انبیاء ایک ناقابل تفریق جماعت ہیں اور ایک ہی دین کی دعوت دیتے ہیں۔ لہٰذا ایک کا انکار ، بلکہ اصل دین کا انکار ہے۔ اگر دس آدمی ایک ہی بات کہتے ہوں تو تمہارے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ یا تو سب کی تصدیق کرو یا سب کی تکذیب کرو۔ جو شخص ان میں سے نو کو سچا کہے گا اور ایک کو جھوٹا کہے گا وہ دراصل دسوں کی تکذیب بلکہ خود اس بات کی تکذیب کا مرتکب ہوگا جو انہوں نے بالاتفاق بیان کی ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا 1ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ0051 وَ اِنَّ ہٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ 0052 (المؤمنون 23 : 51 ، 52) ” اے پیغمبرو ....! اور بلاشبہ تمہاری یہ جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرو۔ “ شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ 1ؕ (الشوریٰ 42 : 13) ” (اللہ نے) تمہارے لیے وہی دین مقرر فرمایا جس کا حکم نوح (علیہ السلام) کو دیا تھا اور جو ہم نے آپ ﷺ کی طرف وحی کیا اور اس کا حکم ہم نے ابراہیم اور عیسیٰ (علیہما السلام) کو دیا تھا کہ (اِس) دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا “۔ اس قاعدہ کلیہ کے تحت یہ آپ سے آپ لازم آجاتا ہے کہ محمد ﷺ اور قرآن مجید کی بھی تصدیق کی جائے ، کیونکہ اگر کوئی شخص تمام انبیاء پر ایمان لائے اور صرف آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کردے ، یا تمام کتب آسمانی کو مانے اور صرف قرآن کو نہ مانے ، تو درحقیقت وہ تمام انبیاء اور تمام کتب آسمانی ، بلکہ اصل دین الٰہی کا منکر ہوگا جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اس بات کی تصریح قرآن مجید میں ایک جگہ نہیں بیشمار مقامات پر کی گئی ہے اور اسی بنا پر انبیائے سابقین اور کتب سابقہ کے ماننے والوں کو محمد ﷺ اور قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ اگر تم ان پر ایمان نہ لاؤ گے تو کفر کر مجرم ہوگے۔ وَ لَمَّا جَآءَهُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ 1ۙ وَ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ۠ عَلَى الَّذِیْنَ کَفَرُوْا 1ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِهٖٞ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ 0089 (البقرہ 2 : 89) اور ” جب ایسا ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کیلئے ایک کتاب نازل ہوئی اور وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی تھی جو پہلے سے ان کے پاس موجود ہے تو باوجود اس کے کہ وہ کافروں کے مقابلہ میں اس کا نام لے کر فتح و نصرت کی دُعائیں مانگتے تھے لیکن جب ہدایت سامنے آگئی تو صاف انکار کر گئے ، پس ان لوگوں کیلئے جو کفر کی راہ اختیار کریں اللہ کی لعنت کے سوا کیا ہے ؟ “ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗ 1ۗ (البقرہ 2 : 91) ” اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں ہم تو صرف وہی بات مانیں گے جو ہم پر اتری ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے اس سے انہیں انکار ہے “ نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۙ003 مِنْ قَبْلُ ہُدًى لِّلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ 1ؕ۬ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ 1ؕ (آل عمران 3 : 3 ، 4) ” اس نے آپ ﷺ پر سچائی کے ساتھ کتاب نازل کی جو اس سے پہلے جس قدر کتابیں نازل ہوچکی ہیں ان سب کی تصدیق کرنے والی پہلے توراۃ وانجیل بھی لوگوں کی ہدایت ہی کیلئے نازل کی گئی تھیں ، یہ کتاب حق و باطل میں امتیاز کرنے والی نازل فرمائی ہے لیکن جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں یقینا انہیں سخت عذاب ملنے والا ہے اور اللہ سب پر غالب اور مجرموں کو سزا دینے والا ہے “ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَارِهَاۤ اَوْ نَلْعَنَهُمْ کَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِ 1ؕ (النساء 4 : 47) ” اے وہ لوگو ! کہ تمہیں کتاب دی گئی تھی ! جو کتاب ہم نے نازل کی ہے اور اس کی تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے جو تمہارے ہاتھوں میں موجود ہے اس پر ایمان لاؤ ، اس وقت سے پہلے کہ ہم لوگوں کے چہرے مسخ کر کے پیٹھ پیچھے الٹا دیں یا جس طرح سبت والوں پر ہماری پھٹکار پڑی تھی ۔ “ ان سے بھی زیادہ صاف الفاظ میں وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : وَ اِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰهِ 1ۙ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ 1ؕ (آل عمران 3 : 199) ” اور یقینا اہل کتاب میں کچھ لوگ ہیں جو اللہ پر سچے دِل سے ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ان پر نازل ہوچکا ہے سب کیلئے ان کے دِل میں یقین ہے نیز ان کے دِل اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے کہ اللہ کی آیتیں دنیا کے مال حقیر کے بدلے فروخت کر ڈالیں تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر محفوظ ہے۔ “ یہ آخری آیت نہایت ہی واضح طور پر آیت زیر بحث کی تفسیر کر رہی ہے۔ وہاں کہا گیا تھا کہ مسلمان یہودی ، عیسائی ، صابی۔ ان میں سے جو کوئی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے گا وہ اس کا اجر اپنے پروردگار کے ہاں پائے گا۔ یہاں اس کی تفسیر اس طرح کردی گئی کہ محمد ﷺ اور قرآن کے آجانے کے بعد صرف وہی اہل کتاب خدا کے ہاں اجر پاسکیں گے جو اللہ پر اور اس کی بھیجی ہوئی پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کے ساتھ اس کتاب پر بھی ایمان لائیں جو محمد ﷺ پر اتاری گئی ہے۔ اس سے زیادہ کھلی ہوئی تفسیر اور کیا ہوسکتی ہے ؟ اس کے باوجود جو شخص آیت زیر بحث سے یہ معنی نکالتا ہے کہ یہودی کا بس پکا یہودی بن جانا اور عیسائی کا محض سچا عیسائی بن جانا قرآن کی نظر میں ہدایت یافتہ اور مستحق اجر ہونے کے لئے کافی ہے ، وہ خود قرآن کے صریح بیانات کے خلاف قرآن کی تفسیر کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ قرآن یہودیوں اور عیسائیوں کو توراۃ اور انجیل کی اتباع کی دعوت دیتا ہے ، مگر یہ بھی ” خبر “ ہے کہ اس دعوت کے معنی کیا ہیں ؟ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ ، قرآن اور محمد ﷺ کو چھوڑ کر توراۃ و انجیل کا اتباع کریں ، بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ توراۃ اور انجیل میں محمد ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کی پیروی کرنے کے لئے جو ہدایات دی گئی تھیں ان کا اتباع کیا جائے۔ چناچہ قرآن میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ اب توراۃ و انجیل کا حقیقی اتباع ، قرآن اور محمد ﷺ کا اتباع ہے : یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ 1ؕ (المائدہ 5 : 68) ” ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے اہل کتاب تمہارے پاس ٹکنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے جب تک کہ تم توراۃ اور انجیل کو اور جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے۔ “ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِٞ۔۔۔ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (رح) 00157 (اعراف : 157) ” جو { الرَّسُوْلَ } (یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی کریں گے کہ وہ نبی امی ہے اور اس کے ظہور کی خبر اپنے یہاں توراۃ و انجیل میں لکھی پائیں گے وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا ، برائی سے روکے گا ، پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا ، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا ، اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہونگے ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہونگے تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اسکے مخالفوں کے لیے روک ہوئے (اور راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لیے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں “۔ یہ صرف اسی بنا پر نہیں ہے کہ قرآن اسی تعلیم خداوندی کو پیش کرتا ہے جس کو توراۃ اور انجیل پیش کرتی تھیں ، بلکہ یہ اس وجہ سے بھی ناگزیر ہے کہ قرآن اس تعلیم ہدایت کا جدید ترین (Latest) بلکہ آخری ایڈیشن (Last Edition) ہے۔ اس میں بہت سی ان چیزوں کا اضافہ کیا گیا جو پچھلے ایڈیشنوں میں نہ تھیں ، اور بہت سی وہ چیزیں حذف کردی گئیں جن کی اب ضرورت باقی نہیں رہی ۔ لہٰذا جو شخص اس ایڈیشن کو قبول نہ کرے گا وہ صرف خدا کی نافرمانی کا مرتکب نہ ہوگا۔ بلکہ ان فوائد سے بھی محروم رہ جائے گا جو آخری اور جدید ترین ایڈیشن میں انسان کو عطا کئے گئے ہیں۔ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ (المائدہ 5 : 15) ” اے اہل کتاب ! یہ واقعہ ہے کہ ہمارا رسول تمہارے پاس آچکا ، کتاب الٰہی کی بہت سی باتیں جنہیں تم چھپاتے رہے ہو وہ تم سے صاف صاف بیان کرتا ہے ۔ “ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْ (الاعراف 7 : 157) ” پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا ، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا ، اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہوں گے تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کے مخالفوں کے لیے روک ہوئے (اور راہ حق میں) اس کی مدد کی ۔ “ نیز یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اہل کتاب نے خدا کی پچھلی کتابوں میں قصداً تحریف کی اور بہت سی چیزوں کو بھلا دیا اور بعض کتابوں (مثلاً اصل منزل من اللہ انجیل) کو کھو دیا۔ جس کی وجہ سے اب کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی اتباع قرآن کے بغیر موسیٰ (علیہ السلام) اور توراۃ اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کا اتباع کرسکے۔ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ 1ۙ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ 1ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ 0013 وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ 1۪ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ 1ؕ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ 0014 (المائدہ 5 : 13 ، 14) ” چناچہ یہ لوگ باتوں کو ان کی اصلی جگہ سے پھیر دیتے ہیں ، جس بات کی انہیں نصیحت کی گئی تھی اس سے کچھ بھی فائدہ اٹھانا ان کے حصے میں نہیں آیا اسے بالکل فراموش کر بیٹھے اور تم ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت پر اطلاع پاتے رہتے ہو اور بہت تھوڑے ہیں جو ایسا نہیں کرتے ، پس آپ کو چاہیے کہ ان سے درگزر کریں اور ان کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لیں ، بلاشبہ اللہ انہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو نیک کردار ہوتے ہیں اور جو لوگ اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں ان سے بھی ہم نے عہد لیا تھا پھر ایسا ہوا کہ جس بات کی نصیحت کی گئی تھی اس سے کچھ بھی فائدہ اٹھانا ان کے حصے میں نہ آیا اسے بالکل فراموش کر بیٹھے ، پس ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دشمنی اور کینے کی آگ بھڑکا دی اور وہ وقت دور نہیں کہ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اللہ اس کی حقیقت انہیں بتا دے گا۔ “ اب یہ ظاہر ہے کہ جن قوموں کے متعلق خود قرآن نے تصدیق کی ہے ان کو خدا کی طرف سے کتاب دی گئی تھی ، ان کے لئے بھی جب اتباع قرآن کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ تو پھر ان قوموں کو اتباع قرآن کے بغیر ہدایت کا راستہ کیسے مل سکتا ہے جن کا اہل کتاب ہونا محض قاعدہ کلیہ : لِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ (رعد 13 : 7) کی بنا پر فرض کرلیا گیا ہے۔ بظاہر یہ کہنے میں بڑی رواداری نظر آتی ہے کہ ” اسلام صرف اپنے آپ ہی کو بر حق نہیں کہتا بلکہ دوسرے مذاہب کو بھی سچا سمجھا جاتا ہے اور اس کا دعویٰ یہ نہیں ہے کہ لوگ جب تک اپنے اپنے مذہبوں کو چھوڑ کر اسلام نہ لے آئیں ہدایت اور نجات سے بہرہ یاب نہ ہوں گے بلکہ تو صرف یہ کہتا ہے کہ اپنے اپنے مذہبوں کی اصلی تعلیمات کا اتباع کرو۔ ‘ ‘ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ سراسر ایک غیر معقول بات ہے۔ دو نقطوں کے درمیان جس طرح خط مستقیم ایک ہی ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح انسان سے خدا تک صراط مستقیم بھی ایک ہی ہو سکتا ہے اسلام جب اپنے آپ کو صراط مستقیم کہتا ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ لازم آجاتا ہے کہ اس کے سوا جتنے راستے ہیں وہ ان سب کو غلط اور ٹیڑھے راستے قرار دے۔ کسی راستہ کو صراط مستقیم بھی کہنا او پھر مختلف راستوں کو راہ راست بھی قرار دینا۔ کسی صاحب عقل کا کام نہیں ہے ۔ یہ اگر رواداری ہے تو محض ایک جھوٹی رواداری ہے ، اور قرآن ایسی رواداری سے صاف انکار کرتا ہے۔ قرآن مجید میں تو محمد ﷺ کو صاف صاف یہ اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ : وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ 1ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ 1ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 00153 (الانعام 6 : 153) ” اور اس نے تمہیں بتلایا ہے کہ یہی راہ میری سیدھی راہ ہے سو اسی پر چلو اور راہوں پر نہ چلو کہ اللہ کی راہ سے بھٹکا کر تمہیں تتر بتر کردیں ، یہ بات ہے جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ ۔ “ محمد ﷺ تمام دنیا کو کھینچ کر اپنی طرف لانے کے لئے آئے تھے۔ اس لئے کہ آپ کو اپنے بر حق ہونے پر کمال درجہ کا وثوق تھا۔ آپ نہ مذبذب تھے اور نہ معاذ اللہ خوشامدی کہ تمام مختلف راہوں پر چلنے والوں کے ساتھ مصالحت اور مدارات (Compromise) کرنے کے لئے تیار ہوجاتے۔ رواداری جتنی مستحسن چیز ہے۔ اس سے بدر جہا زیادہ غیر مستحسن چیز جھوٹ ہے۔ جس شخص کو اس معاملہ میں اپنی رواداری کا مظاہرہ کرنا ہو وہ اپنی طرف سے ایسی بات کہہ سکتا ہے ، مگر اسے قرآن کی طرف سے وہ بات کہنے کا کیا حق ہے جو اس نے نہیں کہی ؟ قرآن تو اس کے مقابلہ میں علی الاعلان کہتا ہے کہ محمد ﷺ اور قرآن کی پیروی کے سوا کوئی راستہ بھی صحیح نہیں ہے ، تمام نوع انسانی کے لئے اور ہمیشہ کے لئے اب یہی ایک راستہ ہدایت اور نجات کا راستہ ہے ، جو اس کو اختیار نہ کرے گا اس کا انجام دنیا میں گمراہی اور آخرت میں خسران کے سوا کچھ نہ ہوگا : قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا (الاعراف 7 : 158) ” کہو اے افراد نسل انسانی ! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ “ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَ (الا نعام 6 : 19) ” اس نے مجھ پر اس قرآن کی وحی کی تاکہ انہیں اور ان کو جن تک اس کی تعلیم پہنچ جائے متنبہ کروں۔ “ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا (السباء 34 : 28) ” (اے پیغمبر اسلام ! ) ہم نے آپ ﷺ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ “ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً 1۪ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ (البقرہ 2 : 208) ” اے مسلمانو ! (اعتقاد و عمل کی) ساری باتوں میں پوری طرح مسلم ہوجاؤ اور (کسی بات میں بھی اسلام کے خلاف نہ کرو) دیکھو شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّكُمْ 1ؕ وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (النساء 4 : 170) ” اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس سچائی کے ساتھ آگیا ہے ، پس ایمان لاؤ کہ تمہارے لیے اس میں بہتری ہے اور دیکھو اگر تم کفر کرو گے تو آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کے لیے ہے ۔ “ وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ 1ۚ وَ مَا یَكْفُرُ بِهَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ 0099 (البقرہ 2 : 99) ” ہم نے تم پر سچائی کی روشن دلیلیں نازل کی ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر وہی جو راست بازی کے دائرے سے نکل چکا ہو۔ “ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ (رح) 00121 (2 : 121) ” اور جو کوئی انکار کرتا ہے تو وہ وہی لوگ ہیں جن کیلئے تباہی و نامرادی لازم ہوچکی ہے۔ “ وَ کَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ 1ؕ فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ 1ۚ وَ مِنْ ہٰۤؤُلَآءِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ 1ؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ 0047 (العنکبوت 29 : 47) ” اور اس طرح ہم نے تجھ پر (قرآنِ کریم) نازل کیا ، پس جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ان (مشرکین) میں سے بھی بعض اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہماری آیتوں سے وہی جھگڑا کرتے ہیں جو (ہٹ دھرم ہیں) منکر ہیں۔ “ ” پس ان لوگوں کو جو آپ ﷺ کی حکم عدولی کر رہے ہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آجائے یا ان کو دردناک عذاب پہنچے۔ “ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ 1ۙ کَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ 002 ذٰلِكَ بِاَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَ اَنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّهِمْ 1ؕ (محمد 47 : 2 ، 3) ” اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور اس کو جو محمد (رسول اللہ ا) پر نازل ہوا قبول کیا اور (جان لیا کہ) ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے (تو) اللہ نے ان سے ان کی برائیاں دور کردیں اور ان کا حال سنوار دیا۔ یہ (فرق) اس لیے ہے کہ کافروں نے باطل کی پیروی کی اور مؤمنوں نے اپنے پروردگار کی طرف سے آئے ہوئے حق کی اتباع کی اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے ان کے حالات بیان فرماتا ہے (تاکہ سمجھیں) ۔ “ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًا 0010 رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ (الطلاق 65 : 10 ، 11) ” ان کیلئے اللہ نے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے پس اے عقل والو ! اللہ سے ڈرتے رہو جو ایمان لا چکے ہو بیشک اللہ نے تمہاری طرف ایک نصیحت (کتاب) بھیج دی ہے۔ (اے مسلمانو ! ) تم میں اللہ تعالیٰ نے) ایک ایسا رسول (بھیجا ہے) جو تم کو اللہ کی روشن آیتیں پڑھ کر سناتا ہے تاکہ جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر نور میں لے آئے ۔ “ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ۠ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 0031 قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ 1ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ 0032 (آل عمران 3 : 31 ، 32) ” ان لوگوں سے کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور وہ تمہاری خطائیں بخش دیگا وہ بخشنے ولا رحمت والا ہے۔ تم کہہ دو کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو پھر اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو اللہ کفر کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ “ یہ روز جو مذکورہ بالا آیات میں پایا جاتے ہے ، یہ صرف اسی کلام میں ہو سکتا ہے جس کے قائل کو اپنے صادق اور حق ہونے پر پورا پورا علم ہو اور جو علم کے مطابق نوح انسانی کی اصلاح کا محکم ارادہ رکھتا ہو۔ ایسے کلام کی قدر وہ کمزور اخلاقی طاقت رکھنے والے کس طرح کرسکتے ہیں جو صداقت کا یقینی علم بھی نہ رکھتے ہوں اور پھر دنیا میں ہر ایک کو خوش بھی رکھنے کے متمنی ہوں۔ وہ تو بڑی سے بڑی بات جو کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہوگی بھائیو تم سب اچھے اور سب سچے !
Top