Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ نے لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ يَاْمُرُكُمْ : حکم دیتا ہے تم کو اَنْ : یہ کہ تَذْبَحُوْا : تم ذبح کرو بَقَرَةً : ایک گائے قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَتَتَّخِذُنَا : کیا تم کرتے ہو ہم سے ھُزُوًا : مذاق قَالَ : اس نے کہا ( موسیٰ ) اَعُوْذُ : میں پناہ مانگتا ہوں بِاللّٰهِ : اللہ کی (اس بات سے اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہلوں میں سے
اور پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بات کہی تھی کہ اللہ تعالیٰ تم کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے ، قوم کے لوگوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے تم ہمارے ساتھ تمسخر کرتے ہو ، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ کی پناہ کیا میں جاہلوں کا سا شیوہ اختیار کر رہا ہوں ؟
بنی اسرائیل کو ایک گائے کے ذبح کرنے کا حکم : 142: مثل ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ بنی اسرائیل ایک مدت تک مصر میں رہتے تھے اور مصری گائے کی پر ستش میں ہندوستان کے آریوں کی طرح مشہور تھے بنی اسرائیل توحید کے علمبردار بھی تھے۔ اور مشرکانہ رسومات کے پابند بھی۔ گائے کی عظمت بلکہ تقدیس ان کے دلوں میں رچ چکی تھی۔ توریت میں بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم خاص خاص قیدوں اور شرطوں کے ساتھ بار بار ملا ہے۔ پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب طور پر گئے تو آپ کی عارضی غیر حاضری میں سامری نے جو شعبدہ کیا تھا وہ بھی بچھڑے ہی کی شکل و صورت میں تھا۔ بچھڑا کیا ہے ؟ وہی گائے کا بچہ جس سے ان کو دلی محبت اور لگائو تھا۔ تورات میں ہے : ” بنی اسرائیل کو کہو کہ ایک لال گائے جو بےداغ اور بےعیب ہو جس پر کبھی جوا نہ رکھا گیا ہو تجھ پاس لائیں تم اسے الیغرز کاہن کو دو کہ اسے خیمہ سے باہر لے جائے اور وہ اس کے حضور ذبح کی جائے۔ “ (گنتی 11 : 20) جو شہر مقتول سے زیادہ نزدیک ہے اس شہر کے بزرگ سے ایک بچھیالیں جس سے ہنوز کچھ خدمت نہ لی گئی ہو اور جوتے تلے نہ آئی ہو اور اس شہر کے بزرگ اس بچھیا کو ایک بہیڑ وادی میں جو نہ جوتی گئی ہو نہ اس میں کچھ بویا گیا ہو لے جائیں اور اس وادی میں اس بچھیا کی گردن کاٹیں۔ (استثناء 21 : 3 ، 4) بقرہ اصل میں صرف گائے کے لئے ہے جو ” ثور “ کا مؤنث ہے لیکن اسم جنس کے طور پر بولا جاتا ہے یعنی نر ہو یا مادہ دونوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نے اس کو ” گائے “ لکھا ہے اور بعض نے ” بیل “ مراد لی ہے۔ آگے واقعہ کی تفصیل میں جو اس کی پہچان بتائی گئی ہے اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ بیل ہوگا کیونکہ ہل جوتنے اور رہٹ یا کنواں چلانے کا کام زیادہ تر بیل ہی سے لیا جاتا ہے جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے کہ یہ کام اس سے نہ لئے گئے ہوں ظاہر ہے کہ عرف میں اس سے یہ کام لئے جاسکتے تھے لیکن جب ان کاموں کی نفی کی گئی تو خود بخود معلوم ہوگیا کہ وہ بیل ہوگا۔ پھر چونکہ عظمت و تقدیس کا ذکر جب آتا ہے تو اس سے مراد زیادہ تر ” گائے “ ہی لی جاتی ہے ” بیل “ نہیں اس لئے کچھ مفسرین نے صرف گائے ہی کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ” بیل “ کی نفی بھی کی۔ بنی اسرائیل ” گئوماتا “ کے احترام و تقدیس کے جذبہ سے سرشار تھے۔ ان کو شاید یقین ہی نہ آیا کہ ایسے مقدس و محترم جانور کو ذبح کر ڈالنے کا حکم ملا ہوگا ۔ بس یہی سمجھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ازراہ ہنسی اور مذاق کہہ رہے ہیں لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے وضاحت فرما دی کہ میں نے تم کو اللہ کا حکم پہنچایا ہے اور اللہ کی طرف سے پیام گھڑ لینے کی جسارت وہی کرسکتا ہے جو خود اللہ تعالیٰ سے غافل اور جاہل ہو یا وہ کرسکتا ہے جو احکام الٰہی کے استہزاء کے نتائج سے بیخبر ہو ۔ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں ؟ تعجب ہے کہ تم نے میرے متعلق کیا خیال کی ؟ رہا معاملہ خوش طبعی کا تو وہ بھی دین کے معاملہ میں اور حکم الٰہی قرا دے کر کس طرح ممکن ہے یعنی ہرگز جائز نہیں ایسی بات کوئی جاہل اور ناواقف ہی کرسکتا ہے ۔
Top