Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ
: اور جب تم نے قتل کیا
نَفْسًا
: ایک آدمی
فَادَّارَأْتُمْ
: پھر تم جھگڑنے لگے
فِیْهَا
: اس میں
وَاللّٰہُ
: اور اللہ
مُخْرِجٌ
: ظاہر کرنے والا
مَا كُنْتُمْ
: جو تم تھے
تَكْتُمُوْنَ
: چھپاتے
اور پھر جب تم نے ایک جان ہلاک [ کردی تھی اور اس کی نسبت تم آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے ، جس حقیقت کو تم چھپاتے تھے اللہ اس کو آشکارا کردینے والا تھا
بقیہ تفسیر پچھلی آیت کی۔ اور میرے نیچے یہ نہریں جاری ہیں کیا تم کو نظر نہیں آتا ؟ بلکہ میں اس سے بہتر ہوں جو حقیر ہے اور وہ صاف طور پر کلام بھی نہیں کرسکتا کیونکہ نہ اس کی طرف سونے کے کنگن ڈالے گئے یا اس کے جلو میں فرشتے جمع ہو کر آئے۔ اور جب ان پر عذاب کی سختی واقع ہوئی تو کہنے لگے اے موسیٰ ! تیرے رب نے تجھ سے جو عہد کیا ہے تو اس کی بنا پر ہمارے لئے دعا کر ، اگر تیری دعا سے عذاب ٹل گیا تو ضرور ہم تیرے معتقد ہوجائیں گے اور بنی اسرائیل کو چھوڑ دیں گے کہ وہ تیرے ساتھ چلے جائیں لیکن پھر جب ایسا ہوا کہ ہم نے ایک خاص وقت تک کیلئے انہیں اس وقت تک پہنچنا تھا عذاب ٹال دیا تو دیکھو انہوں نے کیا کیا ؟ کہ اچانک اپنی بات سے پھرگئے اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کرلیا تاکہ وہ باز آجائیں اور ہر بار وہ کہتے ہیں کہ اے جادوگر ! تو اپنے رب کے اس عہد کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے ہمارے لئے دعا کر کہ ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا مانگی اے اللہ ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس دنیا کی زندگی میں زیب وزینت کی چیزیں اور مال و دولت کی شوکتیں بخشی ہیں تو اے اللہ ! یہ اس لیے ہے کہ تیری راہ سے لوگوں کو بھٹکائیں۔ اے اللہ ! ان کی دولت کو زائل کردے اور ان کے دلوں پر مہر لگادے کہ اس وقت یقین نہ کریں گے جب تک عذاب دردناک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں اللہ نے فرمایا میں نے تم دونوں کی دعا قبول کی تو اب تم جم کر کھڑے ہوجائو اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو میرا طریق کار نہیں جانتے اور موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا کہ اللہ سے مدد مانگو اور جمے رہو بلاشبہ زمین اللہ ہی کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام انہیں کیلئے جو متقی ہوں گے۔ انہوں نے کہا تمہارے آنے سے پہلے بھی تم ستائے گئے اور اب تمہارے آنے کے بعد بھی ستائے جا رہے ہیں موسیٰ نے کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں ملک میں اس کا جانشین بنائے پھر وہ دیکھے کہ اب تمہارے کام کیسے ہوتے ہیں ؟ اور پھر ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی تھی کہ میرے بندوں کو راتوں رات نکال لے جا پھر سمندر میں ان کے گزرنے کیلئے خشکی کی راہ نکال لے نہ تو تعاقب کرنے والوں کا اندیشہ ہوگا اور نہ اور کوئی خطرہ۔ اے موسیٰ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جا تمہارا تعاقب کیا جائے گا اور دریا کو ساکن چھوڑ دو اور نکل بھاگو فرعون اپنے لشکر سمیت ڈوب جائے گا اور اپنا عصہ سمندر پر مار پس وہ پھٹ جائے گا اور ہر ایک ٹکڑا مد کے بعد اس کا بڑے پہاڑ کی مانند ہوگا اور پھر ہم نے سمندر کا پانی اس طرح الگ الگ کردیا کہ تم بچ نکلے مگر فرعون کا گروہ غرق ہوگیا اور تم یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے چناچہ صبح ہوتے ہی وہ لوگ ان کے تعاقب میں چل نکلے پھر جب دونوں جماعتوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہرگز نہیں میرے ساتھ تو میرا رب ہے۔ فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کیا پس پانی کا ریلا جیسا کچھ ان پر چھانے والا تھا چھا گیا اور فرعون نے اپنی قوم پر راہ گم کردی اور انہیں سیدھی راہ نہیں دکھائی تھی اور ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے اور ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور اس طرح دوسرے فریق کو ہم نے اسی جگہ غرق کردیا۔ پھر ہم نے ان سے بدلہ لے لیا اور ہم نے ان کو سمندر میں ڈبو دیا ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور وہ قانون مکافات سے غافل تھے۔ پھر ہم نے فرعون کو پکڑا اور اس کے لشکر کو اور ان کو ہم نے سمندر میں ڈال دیا۔ یہ اس لئے کہ فرعون چاہتا تھا کہ ان کو زمین سے نکال دے پھر ہم نے اس کو ڈبو دیا اور ان سب کو بھی جو اس کے ساتھ تھے اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کہا کہ رہو اس زمین میں ۔ پھر جب آئے گا آخرت کا وعدہ ، تو ہم تم کو لائیں گے تاکہ ان سے مل لو۔ ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلا دیا اور من وسلویٰ کی غذا فراہم کردی اللہ نے تمہاری غذا کیلئے جو اچھی چیزیں مقرر کردی ہیں انہیں بافراغت کھاتے رہو کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کرو پھر تم نے ہمارا کیا بگاڑا ؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے اور ہم نے تم پر من وسلویٰ نازل کیا تاکہ تم پاکیزہ رزق کھاؤ اور زیادتی مت کرو کہ میرا غصہ تم پر نازل ہوگا اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا وہ ہلاک ہوگیا اور جدا کردیئے ہم نے بنی اسرائیل کے بارہ گروہ الگ الگ اور ہم نے موسیٰ پر وحی کی جب کہ اس کی قوم نے پانی طلب کیا کہ چل اپنی لاٹھی کے سہارے اس چٹان پر اس سے بہتے ہیں یعنی پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے اور ان میں ہر ایک گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا۔ کھاؤ اور پیو اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے اور زمین پر مفسد ہو کر نافرمانی مت کرو اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے پس تو اپنے رب سے مانگ کہ ہمارے لیے وہ چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے یعنی ترکاری ، ککڑی اور گیہوں ، مسور ، پیاز اور لہسن۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم بدلنا چاہتے ہو اعلیٰ کو ادنیٰ سے اگر ایسا ہی ہے تو تم کسی شہر میں اترو ، وہاں تم کو وہ سب کچھ ملے گا جو تم کو مطلوب ہے ، اور ہمارے حکم سے بنی اسرائیل سمندر پار اتر گئے وہاں ان کا گزر ایک گروہ پر ہوا کہ وہ اپنے بتوں پر مجاور بنا بیٹھا تھا۔ بنی اسرائیل نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دے جیسا کہ ان لوگوں کیلئے ہے۔ موسیٰ نے کہا کہ تم بلاشبہ ایک جاہل گروہ ہو یہ لوگ جس طریقہ پر چل رہے ہیں وہ تو تباہ ہونے والا طریقہ ہے اور جو عمل انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ یک قلم باطل ہے ، اور پھر جب ایک شہر کی آبادی تمہارے سامنے تھی ہم نے کہا کہ اس آبادی میں داخل ہوجائو اور کھاؤ پیو ، آرام و چین کی زندگی بسر کرو لیکن جب شہر میں داخل ہونے لگو تو تمہارے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور تمہاری زبانوں پر کلمہ استغفار جاری ہو اللہ تمہاری خطائیں معاف کردے گا وہ نیک کردار انسانوں کے اعمال میں برکت دیتا ہے اور ان کے اجر میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر تم نے جن کی راہ ظلم و شرارت کی راہ تھی ، اللہ کی بتائی ہوئی بات ایک دوسری بات سے بدل ڈالی ، نتیجہ کیا نکلا ؟ کہ ظلم و شرارت کرنے والوں پر ہم نے آسمانوں سے عذاب نازل کیا اور یہ گویا ان کی نافرمانی کی سزا تھی کیونکہ وہ ظالم تھے اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر آیا اور اس کے رب نے اس سے بات کی تو موسیٰ نے کہا کہ اے رب ! مجھے اپنی زیارت کرادے جواب ملا کہ تو مجھے دیکھ نہیں سکے گا ہاں ! تو اس پہاڑ کو دیکھ اگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا لیکن جب اس کے رب نے پہاڑ کی تجلی کی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرا پھر جب اس کو ہوش آیاتو کہنے لگا۔ کہ تو پاک ہے اے اللہ ! میں توبہ کرتا ہوں تیرے سامنے اور میں پہلا ایمان لانے والا ہوں اللہ نے کہا اے موسیٰ ! میں نے تجھ کو باقی لوگوں پر چن لیا اپنی رسالت اور ہمکلامی کے لئے ، پھر جو میں تجھ کو دیتا ہوں اس کو لے کر شکر کرنے والوں میں سے ہوگا۔ اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم تجھ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تو علانیہ ہم کو اللہ نہ دکھادے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمارے پاس حاضر ہونے کیلئے اپنی قوم میں سے ستّر آدمی چھانٹے پھر تم کو بجلی کی کڑک نے پکڑ لیا اور یہ سب کچھ تم دیکھتے تھے پھر ہم نے تمہارے بیہوش ہونے کے بعد اٹھایا کہ ہوش میں آؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو پھر جب ان کو ایک کپکپاہٹ نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا اے رب ! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور مجھ کو بھی مار ڈالتا اور جب ہم نے تم سے ایک عہد لیا جب کہ تم پر پہاڑ کو بلند کیا ہوا تھا کہ اس عہد کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اس کو یاد رکھو شاید کہ تم بچ سکو اور جب ہم نے ان پر اس پہاڑ کو بلند کیا گویا وہ سائبان تھا یعنی ان کے سروں پر ، اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ان پر گرا کہ گرا۔ مضبوطی سے پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے پھر وہ وقت کہ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ آپ نے اتنی جلدی کیوں کی اپنی قوم سے نکلنے کی ؟ کہا کہ وہ میرے پیچھے ہیں اور میں تیرے پاس جلدی آیا ہوں تاکہ اے اللہ ! تو مجھ سے راضی ہوجائے اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا اور پھر اس کو مزید دس سے پورا کیا اس طرح موسیٰ کے رب کی مقررہ میعاد پوری ہوگئی یعنی چالیس رات کی اور ایسا ہوا کہ موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تو میری قوم میں خلافت کا کام سر انجام دے اور ان کی اصلاح کر اور مفسدین کی پیروی مت کر۔ پھر قوم موسیٰ نے اس کی غیر حاضری میں زیور سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا۔ جس میں سے آواز نکلتی تھی اللہ نے موسیٰ سے کہا کہ ہم نے تیرے بعد تیری قوم کو آزمایا اور وہ فیل ہوگئی اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا اس طرح کہ سامری نے ان کیلئے بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے آواز نکلتی تھی وہ بولے کہ یہ ہمارا رب ہے اور موسیٰ کا بھی ، موسیٰ تو بھول گیا ہے کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیتا اور نہ ان کے نفع و نقصان ہی کا مالک ہے اور ہارون نے تو ان کو پہلے ہی سے کہا تھا کہ اے قوم ! تم اس کے سبب فتنہ میں ڈالے گئے ہو اور بلاشبہ تمہارا رب رحم کرنے والا ہے۔ میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو انہوں نے کہا کہ ہم تو اسی پر بیٹھیں گے جب تک کہ موسیٰ لوٹ کر نہ آئے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) قوم کی طرف لوٹ آیا غصہ میں بھرا ہوا ، افسوس کرتا ہوا۔ پھر موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے یہ بچھڑا بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا اب توبہ کرو ، اپنے رب کے سامنے اور گوسالہ پرستی کے بدلے اپنی جانوں کو قتل کرو۔ اسی میں تمہارے لئے بہتری ہے تمہارے رب کے ہاں۔ بلاشبہ جن لوگوں نے بچھڑا بنایا قریب ہے کہ ان کے رب کا غصہ ان تک پہنچے گا اور اس دنیا کی زندگی میں بھی وہ ذلیل ہوں گے۔ موسیٰ نے کہا اے میری قوم ! کیا تم سے اللہ نے وعدہ نہیں کیا تھا ایک نہایت ہی اچھا وعدہ ، کیا تم پر کوئی لمبا زمانہ گزر گیا تھا ؟ تم نے چاہا کہ تم پر اللہ کا غصہ اور غصب نازل ہو ؟ تم نے میرے وعدہ کے خلاف کیا۔ موسیٰ نے کہا کہ بہت ہی برا کیا تم نے میرے بعد ، کیا جلدی کی تم نے اپنے رب کے حکم سے اور پھینک دیا الواح توریت کو اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ لئے اور کھینچا اپنی طرف۔ اس نے کہا کہ اے میری ماں کے بیٹے ، ان لوگوں نے مجھے کمزور جانا تھا اور مجھ کو مار ڈالنا چاہتے تھے آپ میرے دشمنوں کو مت خوش کریں اور مجھے ان ظالموں کے ساتھ مت شمار فرما۔ مجھے یہ بھی خوف تھا کہ تو کہے گا کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی اور انتظار نہ کیا میری بات کا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے اختیار سے تیرے وعدہ کے خلاف نہیں کیا بلکہ ہم قوم کے زیور کا بوجھ اٹھا رہے تھے پھر ہم نے اس کو پھینک دیا اور اس طرح سامری نے ایک بچھڑے کی مورت بنائی۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے سامری ! تیرا کیا حال ہے اس نے جواب دیا میں نے وہ بات دیکھ لی جو اوروں نے نہیں دیکھی اس لئے رسول کی پیروی میں یہی کچھ حصہ لیا تھا پھر چھوڑ دیا۔ پس میرے جی نے ایسی ہی بات مجھے سمجھائی۔ موسیٰ نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر جا زندگی میں تیرے لئے یہ ہونا ہے کہ کہے میں اچھوت ہوں اور آخرت میں ایک وعدہ ایسا ہے جو کبھی ٹلنے والا نہیں اور دیکھ تیرے بنائے ہوئے معبود کے ساتھ کیا ہوتا ہے جس کی پوجا پر جم کر بیٹھ گیا تھا ہم اسے جلا کر راکھ کردیں گے اور پھر راکھ سمندر میں بہا دی جائے گی۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ تھما تو اس نے الواح کو اٹھا لیا اور اس میں ان کیلئے ہدایت اور رحمت تھی جو ڈرتے ہیں۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو لوگ نیکی کرنے والے ہیں ان پر نعمت پوری کرنے کو اور ہر ایک چیز کی تفصیل بتانے کو اور ہدایت اور رحمت کرنے کو ، کہ شاید وہ اپنے رب سے ملنے پر ایمان لے آئیں اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا اور ان میں سے بارہ سردار کھڑے کئے اور اللہ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو گے اور تم ایمان لائو گے میرے رسولوں پر اور تم مدد کرتے رہو گے ان کی اور تم قرض دیتے رہو گے اللہ کو ، قرض اچھا۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ ایک گائے کو ذبح کرو۔ تم نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے ساتھ مسخری کرتے ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا نعوذ باللہ اگر میں جاہلوں کا ساتھ اختیار کروں۔ یہ سن کر وہ بولے کہ تم اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ کھول کر بیان کردے کس طرح کا جانور ذبح کرنا چاہیے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ کا حکم یہ ہے کہ ایسی گائے ہو کہ نہ تو بالکل بوڑھی ہو اور نہ بالکل بچھیا درمیان عمر کی ہو اور اب چاہیے کہ اس کی تعمیل کرو وہ کہنے لگے کہ اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ بتائے اس کا رنگ کیسا ہے ؟ موسیٰ نے کہا کہ وہ کہتا ہے اس کا رنگ پیلا ہو اور خوب گہرا پیلا ہو ایسا کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہوجائے وہ کہنے لگے کہ ابھی ہمارے لئے جانور کی پہچان مشکل ہے۔ اپنے رب سے کہو کہ وہ بتلائے کہ جانور کیسا ہونا چاہیے ان شاء اللہ ہم ضرور پتا لگالیں گے اس پر موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ ایسی گائے ہو جو نہ تو کبھی ہل میں جوتی گئی ہو اور نہ آبپاشی کے لئے کام میں لائی گئی ہو۔ پوری طرح صحیح سالم اور داغ دھبے سے پاک و صاف ہو۔ اس طرح جب وہ لاجواب ہوگئے تو کہنے لگے ہاں ! اب تم نے ٹھیک ٹھیک بات بتادی اور جانور ذبح کردیا گیا اگرچہ اس پر وہ آمادہ نظر نہیں آتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! مقدس سر زمین میں جسے اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے داخل ہوجاؤ اور الٹے پاؤں پیچھے کی طرف نہ ہٹو کہ نقصان و تباہی میں پڑجاؤ گے۔ لوگوں نے کہا اے موسیٰ ! اس سرزمین میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو بڑے ہی زبردست ہیں جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم اس زمین میں قدم رکھنے والے نہیں۔ ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو پھر ہم داخل ہوجائیں گے۔ اس پر دو آدمیوں نے کہا جو اللہ سے ڈرنے والے تھے کہ اللہ نے ان کو ایمان کی نعمت عطا فرمائی تھی لوگوں سے کہا کہ تم ہمت کر کے ان لوگوں پر جا پڑو اور دروازے میں سے جا داخل ہو اگر تم داخل ہوگئے تو پھر غلبہ تمہارے ہی لئے ہے اگر تم ایمان رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کرو۔ وہ بولے اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ موجود ہیں ہم کبھی اس میں داخل ہونے والے نہیں تو خود چلے جاؤ اور تمہارا اللہ بھی تمہارے ساتھ چلا جائے تو ہم یہاں بیٹھے رہیں گے۔ تم دونوں وہاں لڑتے رہنا۔ موسیٰ نے کہا اے میرے اللہ ! میں اپنی جان کے سوا اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا پس تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں فیصلہ فرما دے حکم الٰہی ہوا کہ اب چالیس برس تک وہ سرزمین ان پر حرام کردی گئی۔ یہ اس بیابان میں سرگرداں رہیں گے۔ سو تم اے موسیٰ ! نافرمان لوگوں کی حالت پر غمگین نہ ہو وہ اپنی بد عملیوں سے اس محرومی کے مستحق ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ایک واقعہ قتل کا قضیہ : 147: اس واقعہ کا پہلے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گائے کے ذبح کرنے کا واقعہ ختم ہوچکا ، یہ الگ واقعہ ہے جیسے پیچھے سے بنی اسرائیل کے بہت سے واقعات بیان ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جس طرح فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کا واقعہ۔ سمندر سے بخیریت پار گزرنے کا واقعہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر جانے کا واقعہ۔ بنی اسرائیل کا پانی طلب کرنے کا واقعہ ، شہر میں داخل ہونے سے انکار کرنے کا واقعہ ، بچھڑے کی پرستش کا واقعہ ، گائے کے ذبح کرنے کا واقعہ اور اسی طرح ایک مقتول کے قاتل معلوم کرنے کا واقعہ۔ بنی اسرائیل میں ایک شخص قتل ہوگیا اور قاتل معلوم نہ تھا۔ مقتول کے ورثاء کا مطالبہ تھا کہ قاتل کا پتہ چلے انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس واقعہ کا پتہ چلنا چاہیے اور خصوصاً مقتول کے ورثاء نے یہ اپیل کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات ڈالی کہ سب لوگ موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ قاتل بھی انہیں میں ہوگا اگر یہ تدبیر کی جائے تو قاتل ظاہر ہوجائے گا۔ ان کو کہا گیا کہ آپ کے لئے لازم ہے کہ مقتول کے بعض اعضاء بعض سے لگائے جائیں تو قاتل معلوم ہوجائے گا کیونکہ جو لوگ قاتل نہیں ہیں وہ بسبب یقین اپنی بےجرمی کے ایسا کرنے میں کچھ خوف نہ کریں گے مگر اصل قاتل بہ سبب خوف اپنے جرم کے جو ازروئے فطرت انسانی کے دل میں اور وہ بھی بالتخصیص جہالت کے زمانہ میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہے ، ایسا نہیں کریں گے اور اس وقت دیکھنے والے کو معلوم ہوجائے گا اور اس طرح وہی نشانیاں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہوئی ہیں لوگوں کو دکھا دے گا۔ اس قسم کے واقعات سے اس زمانہ میں بھی بہت سے چور معلوم ہوجاتے ہیں بلکہ انٹیلی جینس و انویسٹی گیش کے خفیہ محکموں کے ہاں اس قسم کی بیسیوں مثالیں آج بھی موجود ہیں یہ ایک مکمل علم قرار پا گیا ہے جس کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور ایسے ایسے پوشیدہ واقعات روز روشن کی طرح واضح دکھا دیئے جاتے ہیں ، ہوتا یہی ہے کہ وہ بسبب خوف اپنے جرم کے ایسا کام جو دوسرے لوگ بلاخوف بہ تقویت اپنی بےجرمی کے کرتے ہیں نہیں کرسکتے۔ پس یہ ایک تدبیر قاتل کے معلوم کرنے کی تھی اور اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھا اس کو کہتے ہیں کہ : ” چور کی داڑھی میں تنکا “۔ لیکن ہمارے مفسرین نے ان آیتوں کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ گائے کے ذبح کرنے اور ایک شخص کے قتل ہوجانے کا ایک ہی قصہ ہے اور پچھلی آیتوں میں جو بیان ہوا ہے وہ باعتبار و قوع کے مقدم ہے اور قصہ یوں قرار دیا ہے کہ بنی اسرائیل نے ایک شخ کو قتل کیا تھا اس کا قاتل معلوم کرنے کے لئے اللہ نے گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اس مذبوح گائے کے اعضا سے مقتول کو مارو۔ ان کے مارنے سے مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کو بتادیا۔ آپ غور کریں کہ اس طرح کی تفسیر کرنے کے لئے کیا کچھ اپنے پاس سے ان لوگوں کو بنانا یا لگاناپڑا۔ سب سے پہلے تو ایک قصہ گھڑا جس کا کوئی ذکر نہ قرآن کریم میں تھا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ نہ ہی توارت میں جو یہودیوں کی پچھلی تمام حرکتوں کو ایک ایک کر کے بیان کرتی آرہی ہے۔ وہ قصہ اس طرح بنایا گیا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت بڑا مالدار تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھتیجا تھا۔ بھتیجے نے جب دیکھا کہ بوڑھا مرتا ہی نہیں تو اس نے ورثہ کی دھن میں یہ سوچا کہ اسے کیوں نہ مار ڈالوں ؟ تاکہ اس لڑکی نے نکاح بھی کرلوں اور قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں۔ اس خیال پر وہ پختہ ہوگیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا۔ بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ایسے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر ان لوگوں سے بالکل الگ تھلگ ایک شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کردیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے۔ اس بھتیجے نے اپنے اس چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا۔ پھر ہائی دھائی مچائی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا اور ان قلعہ والوں پر تہمت رکھی ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا۔ انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا۔ لیکن یہ شخص ان کے سر ہوگیا۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ اے موسیٰ ! یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللہ نے وحی کی کہ ایک گائے ذبح کرلو اس کے بعد وہ واقعہ پیش آیا جو پہلے لکھا گیا۔ یہ پوری کہانی اپنے پاس سے بنائی گئی حالانکہ اس کا ذکر تک موجود نہیں قرآن کریم ، حدیث رسول ﷺ اور تورات کے کسی مجموعہ میں ، لیکن چونکہ اس وقت ہر مکتبہ فکر کی تفسیر میں موجود ہے لہٰذا اس گھڑی ہوئی بات کا انکار بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کسی صحیح واقعہ کا۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ پچھلی آیتوں کو مقدم کرنے اور مقدم کو مؤخر کرنے کا اور پھر دونوں الگ الگ واقعات کو ایک کرنے کا تکلف خواہ مخواہ برداشت کیا گیا جس کا اشارہ تک بھی قرآن کریم کے کسی لفظ یا حدیث صحیح میں نہیں تھا۔ تیسری بات یہ کہ : كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى کے معنی جب ہی مربوط ہوتے ہیں کہ اس سے پہلے یہ جملہ مقدر تسلیم کیا جائے۔ کہفَاَحْیَا (فَاَحبَاہُ ) اللّٰهُ کہ اس مقتول کو اللہ نے زندہ کیا اس نے قاتل کا پتہ بتایا۔ یہ عبارت اپنی طرف سے بغیر کسی وجہ کے لگانی پڑی جو بغیر کسی اشارہ صریح کے اس کا مقدر ماننا قرآن کریم پر اضافہ کرنا ہے۔ چوتھی یہ بات کہ : کَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى سے مراد احیاء اموات جو بروز بعث و نشر ہوگا۔ اس جگہ اس بحث کا حال بیان کیا گیا مانا جائے جس کا کوئی یہاں امکان نہیں ہے کیونکہ اس مباحثہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قیامت کو بعث و نشر ہوگا یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن یہاں اس کا کوئی تعلق ؟ اور بعث و نشر کا موضوع خواہ مخواہ چھیڑنے کا کوئی مطلب ؟ جس کا نہ تو یہاں کوئی انکار ہے اور نہ ہی ان آیات سے پہلے یا بعد کوئی ایسا تذکرہ موجود ہے۔ بالکل سیدھا اور صاف مطلب جو ان آیات کریمات میں بیان کیا گیا ہے جس میں نہ آیتوں کی ترتیب الٹنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی جملہ بغیر کسی نقل و سند کے اپنی طرف سے بڑھانے کی کوئی ضرورت و حاجت ہے۔ اور جو بالکل صاف صاف قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اس کو چھوڑ کر وہم پرستی کے شوق میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے کی آخر ضرورت کیا ہے ؟
Top