Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور پھر جب تم نے ایک جان ہلاک [ کردی تھی اور اس کی نسبت تم آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے ، جس حقیقت کو تم چھپاتے تھے اللہ اس کو آشکارا کردینے والا تھا
بقیہ تفسیر پچھلی آیت کی۔ اور میرے نیچے یہ نہریں جاری ہیں کیا تم کو نظر نہیں آتا ؟ بلکہ میں اس سے بہتر ہوں جو حقیر ہے اور وہ صاف طور پر کلام بھی نہیں کرسکتا کیونکہ نہ اس کی طرف سونے کے کنگن ڈالے گئے یا اس کے جلو میں فرشتے جمع ہو کر آئے۔ اور جب ان پر عذاب کی سختی واقع ہوئی تو کہنے لگے اے موسیٰ ! تیرے رب نے تجھ سے جو عہد کیا ہے تو اس کی بنا پر ہمارے لئے دعا کر ، اگر تیری دعا سے عذاب ٹل گیا تو ضرور ہم تیرے معتقد ہوجائیں گے اور بنی اسرائیل کو چھوڑ دیں گے کہ وہ تیرے ساتھ چلے جائیں لیکن پھر جب ایسا ہوا کہ ہم نے ایک خاص وقت تک کیلئے انہیں اس وقت تک پہنچنا تھا عذاب ٹال دیا تو دیکھو انہوں نے کیا کیا ؟ کہ اچانک اپنی بات سے پھرگئے اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کرلیا تاکہ وہ باز آجائیں اور ہر بار وہ کہتے ہیں کہ اے جادوگر ! تو اپنے رب کے اس عہد کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے ہمارے لئے دعا کر کہ ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا مانگی اے اللہ ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس دنیا کی زندگی میں زیب وزینت کی چیزیں اور مال و دولت کی شوکتیں بخشی ہیں تو اے اللہ ! یہ اس لیے ہے کہ تیری راہ سے لوگوں کو بھٹکائیں۔ اے اللہ ! ان کی دولت کو زائل کردے اور ان کے دلوں پر مہر لگادے کہ اس وقت یقین نہ کریں گے جب تک عذاب دردناک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں اللہ نے فرمایا میں نے تم دونوں کی دعا قبول کی تو اب تم جم کر کھڑے ہوجائو اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو میرا طریق کار نہیں جانتے اور موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا کہ اللہ سے مدد مانگو اور جمے رہو بلاشبہ زمین اللہ ہی کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام انہیں کیلئے جو متقی ہوں گے۔ انہوں نے کہا تمہارے آنے سے پہلے بھی تم ستائے گئے اور اب تمہارے آنے کے بعد بھی ستائے جا رہے ہیں موسیٰ نے کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں ملک میں اس کا جانشین بنائے پھر وہ دیکھے کہ اب تمہارے کام کیسے ہوتے ہیں ؟ اور پھر ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی تھی کہ میرے بندوں کو راتوں رات نکال لے جا پھر سمندر میں ان کے گزرنے کیلئے خشکی کی راہ نکال لے نہ تو تعاقب کرنے والوں کا اندیشہ ہوگا اور نہ اور کوئی خطرہ۔ اے موسیٰ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جا تمہارا تعاقب کیا جائے گا اور دریا کو ساکن چھوڑ دو اور نکل بھاگو فرعون اپنے لشکر سمیت ڈوب جائے گا اور اپنا عصہ سمندر پر مار پس وہ پھٹ جائے گا اور ہر ایک ٹکڑا مد کے بعد اس کا بڑے پہاڑ کی مانند ہوگا اور پھر ہم نے سمندر کا پانی اس طرح الگ الگ کردیا کہ تم بچ نکلے مگر فرعون کا گروہ غرق ہوگیا اور تم یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے چناچہ صبح ہوتے ہی وہ لوگ ان کے تعاقب میں چل نکلے پھر جب دونوں جماعتوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہرگز نہیں میرے ساتھ تو میرا رب ہے۔ فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کیا پس پانی کا ریلا جیسا کچھ ان پر چھانے والا تھا چھا گیا اور فرعون نے اپنی قوم پر راہ گم کردی اور انہیں سیدھی راہ نہیں دکھائی تھی اور ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے اور ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور اس طرح دوسرے فریق کو ہم نے اسی جگہ غرق کردیا۔ پھر ہم نے ان سے بدلہ لے لیا اور ہم نے ان کو سمندر میں ڈبو دیا ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور وہ قانون مکافات سے غافل تھے۔ پھر ہم نے فرعون کو پکڑا اور اس کے لشکر کو اور ان کو ہم نے سمندر میں ڈال دیا۔ یہ اس لئے کہ فرعون چاہتا تھا کہ ان کو زمین سے نکال دے پھر ہم نے اس کو ڈبو دیا اور ان سب کو بھی جو اس کے ساتھ تھے اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کہا کہ رہو اس زمین میں ۔ پھر جب آئے گا آخرت کا وعدہ ، تو ہم تم کو لائیں گے تاکہ ان سے مل لو۔ ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلا دیا اور من وسلویٰ کی غذا فراہم کردی اللہ نے تمہاری غذا کیلئے جو اچھی چیزیں مقرر کردی ہیں انہیں بافراغت کھاتے رہو کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کرو پھر تم نے ہمارا کیا بگاڑا ؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے اور ہم نے تم پر من وسلویٰ نازل کیا تاکہ تم پاکیزہ رزق کھاؤ اور زیادتی مت کرو کہ میرا غصہ تم پر نازل ہوگا اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا وہ ہلاک ہوگیا اور جدا کردیئے ہم نے بنی اسرائیل کے بارہ گروہ الگ الگ اور ہم نے موسیٰ پر وحی کی جب کہ اس کی قوم نے پانی طلب کیا کہ چل اپنی لاٹھی کے سہارے اس چٹان پر اس سے بہتے ہیں یعنی پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے اور ان میں ہر ایک گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا۔ کھاؤ اور پیو اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے اور زمین پر مفسد ہو کر نافرمانی مت کرو اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے پس تو اپنے رب سے مانگ کہ ہمارے لیے وہ چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے یعنی ترکاری ، ککڑی اور گیہوں ، مسور ، پیاز اور لہسن۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم بدلنا چاہتے ہو اعلیٰ کو ادنیٰ سے اگر ایسا ہی ہے تو تم کسی شہر میں اترو ، وہاں تم کو وہ سب کچھ ملے گا جو تم کو مطلوب ہے ، اور ہمارے حکم سے بنی اسرائیل سمندر پار اتر گئے وہاں ان کا گزر ایک گروہ پر ہوا کہ وہ اپنے بتوں پر مجاور بنا بیٹھا تھا۔ بنی اسرائیل نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دے جیسا کہ ان لوگوں کیلئے ہے۔ موسیٰ نے کہا کہ تم بلاشبہ ایک جاہل گروہ ہو یہ لوگ جس طریقہ پر چل رہے ہیں وہ تو تباہ ہونے والا طریقہ ہے اور جو عمل انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ یک قلم باطل ہے ، اور پھر جب ایک شہر کی آبادی تمہارے سامنے تھی ہم نے کہا کہ اس آبادی میں داخل ہوجائو اور کھاؤ پیو ، آرام و چین کی زندگی بسر کرو لیکن جب شہر میں داخل ہونے لگو تو تمہارے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور تمہاری زبانوں پر کلمہ استغفار جاری ہو اللہ تمہاری خطائیں معاف کردے گا وہ نیک کردار انسانوں کے اعمال میں برکت دیتا ہے اور ان کے اجر میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر تم نے جن کی راہ ظلم و شرارت کی راہ تھی ، اللہ کی بتائی ہوئی بات ایک دوسری بات سے بدل ڈالی ، نتیجہ کیا نکلا ؟ کہ ظلم و شرارت کرنے والوں پر ہم نے آسمانوں سے عذاب نازل کیا اور یہ گویا ان کی نافرمانی کی سزا تھی کیونکہ وہ ظالم تھے اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر آیا اور اس کے رب نے اس سے بات کی تو موسیٰ نے کہا کہ اے رب ! مجھے اپنی زیارت کرادے جواب ملا کہ تو مجھے دیکھ نہیں سکے گا ہاں ! تو اس پہاڑ کو دیکھ اگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا لیکن جب اس کے رب نے پہاڑ کی تجلی کی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرا پھر جب اس کو ہوش آیاتو کہنے لگا۔ کہ تو پاک ہے اے اللہ ! میں توبہ کرتا ہوں تیرے سامنے اور میں پہلا ایمان لانے والا ہوں اللہ نے کہا اے موسیٰ ! میں نے تجھ کو باقی لوگوں پر چن لیا اپنی رسالت اور ہمکلامی کے لئے ، پھر جو میں تجھ کو دیتا ہوں اس کو لے کر شکر کرنے والوں میں سے ہوگا۔ اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم تجھ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تو علانیہ ہم کو اللہ نہ دکھادے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمارے پاس حاضر ہونے کیلئے اپنی قوم میں سے ستّر آدمی چھانٹے پھر تم کو بجلی کی کڑک نے پکڑ لیا اور یہ سب کچھ تم دیکھتے تھے پھر ہم نے تمہارے بیہوش ہونے کے بعد اٹھایا کہ ہوش میں آؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو پھر جب ان کو ایک کپکپاہٹ نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا اے رب ! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور مجھ کو بھی مار ڈالتا اور جب ہم نے تم سے ایک عہد لیا جب کہ تم پر پہاڑ کو بلند کیا ہوا تھا کہ اس عہد کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اس کو یاد رکھو شاید کہ تم بچ سکو اور جب ہم نے ان پر اس پہاڑ کو بلند کیا گویا وہ سائبان تھا یعنی ان کے سروں پر ، اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ان پر گرا کہ گرا۔ مضبوطی سے پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے پھر وہ وقت کہ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ آپ نے اتنی جلدی کیوں کی اپنی قوم سے نکلنے کی ؟ کہا کہ وہ میرے پیچھے ہیں اور میں تیرے پاس جلدی آیا ہوں تاکہ اے اللہ ! تو مجھ سے راضی ہوجائے اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا اور پھر اس کو مزید دس سے پورا کیا اس طرح موسیٰ کے رب کی مقررہ میعاد پوری ہوگئی یعنی چالیس رات کی اور ایسا ہوا کہ موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تو میری قوم میں خلافت کا کام سر انجام دے اور ان کی اصلاح کر اور مفسدین کی پیروی مت کر۔ پھر قوم موسیٰ نے اس کی غیر حاضری میں زیور سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا۔ جس میں سے آواز نکلتی تھی اللہ نے موسیٰ سے کہا کہ ہم نے تیرے بعد تیری قوم کو آزمایا اور وہ فیل ہوگئی اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا اس طرح کہ سامری نے ان کیلئے بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے آواز نکلتی تھی وہ بولے کہ یہ ہمارا رب ہے اور موسیٰ کا بھی ، موسیٰ تو بھول گیا ہے کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیتا اور نہ ان کے نفع و نقصان ہی کا مالک ہے اور ہارون نے تو ان کو پہلے ہی سے کہا تھا کہ اے قوم ! تم اس کے سبب فتنہ میں ڈالے گئے ہو اور بلاشبہ تمہارا رب رحم کرنے والا ہے۔ میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو انہوں نے کہا کہ ہم تو اسی پر بیٹھیں گے جب تک کہ موسیٰ لوٹ کر نہ آئے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) قوم کی طرف لوٹ آیا غصہ میں بھرا ہوا ، افسوس کرتا ہوا۔ پھر موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے یہ بچھڑا بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا اب توبہ کرو ، اپنے رب کے سامنے اور گوسالہ پرستی کے بدلے اپنی جانوں کو قتل کرو۔ اسی میں تمہارے لئے بہتری ہے تمہارے رب کے ہاں۔ بلاشبہ جن لوگوں نے بچھڑا بنایا قریب ہے کہ ان کے رب کا غصہ ان تک پہنچے گا اور اس دنیا کی زندگی میں بھی وہ ذلیل ہوں گے۔ موسیٰ نے کہا اے میری قوم ! کیا تم سے اللہ نے وعدہ نہیں کیا تھا ایک نہایت ہی اچھا وعدہ ، کیا تم پر کوئی لمبا زمانہ گزر گیا تھا ؟ تم نے چاہا کہ تم پر اللہ کا غصہ اور غصب نازل ہو ؟ تم نے میرے وعدہ کے خلاف کیا۔ موسیٰ نے کہا کہ بہت ہی برا کیا تم نے میرے بعد ، کیا جلدی کی تم نے اپنے رب کے حکم سے اور پھینک دیا الواح توریت کو اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ لئے اور کھینچا اپنی طرف۔ اس نے کہا کہ اے میری ماں کے بیٹے ، ان لوگوں نے مجھے کمزور جانا تھا اور مجھ کو مار ڈالنا چاہتے تھے آپ میرے دشمنوں کو مت خوش کریں اور مجھے ان ظالموں کے ساتھ مت شمار فرما۔ مجھے یہ بھی خوف تھا کہ تو کہے گا کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی اور انتظار نہ کیا میری بات کا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے اختیار سے تیرے وعدہ کے خلاف نہیں کیا بلکہ ہم قوم کے زیور کا بوجھ اٹھا رہے تھے پھر ہم نے اس کو پھینک دیا اور اس طرح سامری نے ایک بچھڑے کی مورت بنائی۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے سامری ! تیرا کیا حال ہے اس نے جواب دیا میں نے وہ بات دیکھ لی جو اوروں نے نہیں دیکھی اس لئے رسول کی پیروی میں یہی کچھ حصہ لیا تھا پھر چھوڑ دیا۔ پس میرے جی نے ایسی ہی بات مجھے سمجھائی۔ موسیٰ نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر جا زندگی میں تیرے لئے یہ ہونا ہے کہ کہے میں اچھوت ہوں اور آخرت میں ایک وعدہ ایسا ہے جو کبھی ٹلنے والا نہیں اور دیکھ تیرے بنائے ہوئے معبود کے ساتھ کیا ہوتا ہے جس کی پوجا پر جم کر بیٹھ گیا تھا ہم اسے جلا کر راکھ کردیں گے اور پھر راکھ سمندر میں بہا دی جائے گی۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ تھما تو اس نے الواح کو اٹھا لیا اور اس میں ان کیلئے ہدایت اور رحمت تھی جو ڈرتے ہیں۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو لوگ نیکی کرنے والے ہیں ان پر نعمت پوری کرنے کو اور ہر ایک چیز کی تفصیل بتانے کو اور ہدایت اور رحمت کرنے کو ، کہ شاید وہ اپنے رب سے ملنے پر ایمان لے آئیں اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا اور ان میں سے بارہ سردار کھڑے کئے اور اللہ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو گے اور تم ایمان لائو گے میرے رسولوں پر اور تم مدد کرتے رہو گے ان کی اور تم قرض دیتے رہو گے اللہ کو ، قرض اچھا۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ ایک گائے کو ذبح کرو۔ تم نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے ساتھ مسخری کرتے ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا نعوذ باللہ اگر میں جاہلوں کا ساتھ اختیار کروں۔ یہ سن کر وہ بولے کہ تم اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ کھول کر بیان کردے کس طرح کا جانور ذبح کرنا چاہیے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ کا حکم یہ ہے کہ ایسی گائے ہو کہ نہ تو بالکل بوڑھی ہو اور نہ بالکل بچھیا درمیان عمر کی ہو اور اب چاہیے کہ اس کی تعمیل کرو وہ کہنے لگے کہ اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ بتائے اس کا رنگ کیسا ہے ؟ موسیٰ نے کہا کہ وہ کہتا ہے اس کا رنگ پیلا ہو اور خوب گہرا پیلا ہو ایسا کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہوجائے وہ کہنے لگے کہ ابھی ہمارے لئے جانور کی پہچان مشکل ہے۔ اپنے رب سے کہو کہ وہ بتلائے کہ جانور کیسا ہونا چاہیے ان شاء اللہ ہم ضرور پتا لگالیں گے اس پر موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ ایسی گائے ہو جو نہ تو کبھی ہل میں جوتی گئی ہو اور نہ آبپاشی کے لئے کام میں لائی گئی ہو۔ پوری طرح صحیح سالم اور داغ دھبے سے پاک و صاف ہو۔ اس طرح جب وہ لاجواب ہوگئے تو کہنے لگے ہاں ! اب تم نے ٹھیک ٹھیک بات بتادی اور جانور ذبح کردیا گیا اگرچہ اس پر وہ آمادہ نظر نہیں آتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! مقدس سر زمین میں جسے اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے داخل ہوجاؤ اور الٹے پاؤں پیچھے کی طرف نہ ہٹو کہ نقصان و تباہی میں پڑجاؤ گے۔ لوگوں نے کہا اے موسیٰ ! اس سرزمین میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو بڑے ہی زبردست ہیں جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم اس زمین میں قدم رکھنے والے نہیں۔ ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو پھر ہم داخل ہوجائیں گے۔ اس پر دو آدمیوں نے کہا جو اللہ سے ڈرنے والے تھے کہ اللہ نے ان کو ایمان کی نعمت عطا فرمائی تھی لوگوں سے کہا کہ تم ہمت کر کے ان لوگوں پر جا پڑو اور دروازے میں سے جا داخل ہو اگر تم داخل ہوگئے تو پھر غلبہ تمہارے ہی لئے ہے اگر تم ایمان رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کرو۔ وہ بولے اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ موجود ہیں ہم کبھی اس میں داخل ہونے والے نہیں تو خود چلے جاؤ اور تمہارا اللہ بھی تمہارے ساتھ چلا جائے تو ہم یہاں بیٹھے رہیں گے۔ تم دونوں وہاں لڑتے رہنا۔ موسیٰ نے کہا اے میرے اللہ ! میں اپنی جان کے سوا اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا پس تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں فیصلہ فرما دے حکم الٰہی ہوا کہ اب چالیس برس تک وہ سرزمین ان پر حرام کردی گئی۔ یہ اس بیابان میں سرگرداں رہیں گے۔ سو تم اے موسیٰ ! نافرمان لوگوں کی حالت پر غمگین نہ ہو وہ اپنی بد عملیوں سے اس محرومی کے مستحق ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ایک واقعہ قتل کا قضیہ : 147: اس واقعہ کا پہلے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گائے کے ذبح کرنے کا واقعہ ختم ہوچکا ، یہ الگ واقعہ ہے جیسے پیچھے سے بنی اسرائیل کے بہت سے واقعات بیان ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جس طرح فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کا واقعہ۔ سمندر سے بخیریت پار گزرنے کا واقعہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر جانے کا واقعہ۔ بنی اسرائیل کا پانی طلب کرنے کا واقعہ ، شہر میں داخل ہونے سے انکار کرنے کا واقعہ ، بچھڑے کی پرستش کا واقعہ ، گائے کے ذبح کرنے کا واقعہ اور اسی طرح ایک مقتول کے قاتل معلوم کرنے کا واقعہ۔ بنی اسرائیل میں ایک شخص قتل ہوگیا اور قاتل معلوم نہ تھا۔ مقتول کے ورثاء کا مطالبہ تھا کہ قاتل کا پتہ چلے انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس واقعہ کا پتہ چلنا چاہیے اور خصوصاً مقتول کے ورثاء نے یہ اپیل کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات ڈالی کہ سب لوگ موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ قاتل بھی انہیں میں ہوگا اگر یہ تدبیر کی جائے تو قاتل ظاہر ہوجائے گا۔ ان کو کہا گیا کہ آپ کے لئے لازم ہے کہ مقتول کے بعض اعضاء بعض سے لگائے جائیں تو قاتل معلوم ہوجائے گا کیونکہ جو لوگ قاتل نہیں ہیں وہ بسبب یقین اپنی بےجرمی کے ایسا کرنے میں کچھ خوف نہ کریں گے مگر اصل قاتل بہ سبب خوف اپنے جرم کے جو ازروئے فطرت انسانی کے دل میں اور وہ بھی بالتخصیص جہالت کے زمانہ میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہے ، ایسا نہیں کریں گے اور اس وقت دیکھنے والے کو معلوم ہوجائے گا اور اس طرح وہی نشانیاں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہوئی ہیں لوگوں کو دکھا دے گا۔ اس قسم کے واقعات سے اس زمانہ میں بھی بہت سے چور معلوم ہوجاتے ہیں بلکہ انٹیلی جینس و انویسٹی گیش کے خفیہ محکموں کے ہاں اس قسم کی بیسیوں مثالیں آج بھی موجود ہیں یہ ایک مکمل علم قرار پا گیا ہے جس کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور ایسے ایسے پوشیدہ واقعات روز روشن کی طرح واضح دکھا دیئے جاتے ہیں ، ہوتا یہی ہے کہ وہ بسبب خوف اپنے جرم کے ایسا کام جو دوسرے لوگ بلاخوف بہ تقویت اپنی بےجرمی کے کرتے ہیں نہیں کرسکتے۔ پس یہ ایک تدبیر قاتل کے معلوم کرنے کی تھی اور اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھا اس کو کہتے ہیں کہ : ” چور کی داڑھی میں تنکا “۔ لیکن ہمارے مفسرین نے ان آیتوں کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ گائے کے ذبح کرنے اور ایک شخص کے قتل ہوجانے کا ایک ہی قصہ ہے اور پچھلی آیتوں میں جو بیان ہوا ہے وہ باعتبار و قوع کے مقدم ہے اور قصہ یوں قرار دیا ہے کہ بنی اسرائیل نے ایک شخ کو قتل کیا تھا اس کا قاتل معلوم کرنے کے لئے اللہ نے گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اس مذبوح گائے کے اعضا سے مقتول کو مارو۔ ان کے مارنے سے مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کو بتادیا۔ آپ غور کریں کہ اس طرح کی تفسیر کرنے کے لئے کیا کچھ اپنے پاس سے ان لوگوں کو بنانا یا لگاناپڑا۔ سب سے پہلے تو ایک قصہ گھڑا جس کا کوئی ذکر نہ قرآن کریم میں تھا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ نہ ہی توارت میں جو یہودیوں کی پچھلی تمام حرکتوں کو ایک ایک کر کے بیان کرتی آرہی ہے۔ وہ قصہ اس طرح بنایا گیا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت بڑا مالدار تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھتیجا تھا۔ بھتیجے نے جب دیکھا کہ بوڑھا مرتا ہی نہیں تو اس نے ورثہ کی دھن میں یہ سوچا کہ اسے کیوں نہ مار ڈالوں ؟ تاکہ اس لڑکی نے نکاح بھی کرلوں اور قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں۔ اس خیال پر وہ پختہ ہوگیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا۔ بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ایسے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر ان لوگوں سے بالکل الگ تھلگ ایک شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کردیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے۔ اس بھتیجے نے اپنے اس چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا۔ پھر ہائی دھائی مچائی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا اور ان قلعہ والوں پر تہمت رکھی ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا۔ انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا۔ لیکن یہ شخص ان کے سر ہوگیا۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ اے موسیٰ ! یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللہ نے وحی کی کہ ایک گائے ذبح کرلو اس کے بعد وہ واقعہ پیش آیا جو پہلے لکھا گیا۔ یہ پوری کہانی اپنے پاس سے بنائی گئی حالانکہ اس کا ذکر تک موجود نہیں قرآن کریم ، حدیث رسول ﷺ اور تورات کے کسی مجموعہ میں ، لیکن چونکہ اس وقت ہر مکتبہ فکر کی تفسیر میں موجود ہے لہٰذا اس گھڑی ہوئی بات کا انکار بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کسی صحیح واقعہ کا۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ پچھلی آیتوں کو مقدم کرنے اور مقدم کو مؤخر کرنے کا اور پھر دونوں الگ الگ واقعات کو ایک کرنے کا تکلف خواہ مخواہ برداشت کیا گیا جس کا اشارہ تک بھی قرآن کریم کے کسی لفظ یا حدیث صحیح میں نہیں تھا۔ تیسری بات یہ کہ : كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى کے معنی جب ہی مربوط ہوتے ہیں کہ اس سے پہلے یہ جملہ مقدر تسلیم کیا جائے۔ کہفَاَحْیَا (فَاَحبَاہُ ) اللّٰهُ کہ اس مقتول کو اللہ نے زندہ کیا اس نے قاتل کا پتہ بتایا۔ یہ عبارت اپنی طرف سے بغیر کسی وجہ کے لگانی پڑی جو بغیر کسی اشارہ صریح کے اس کا مقدر ماننا قرآن کریم پر اضافہ کرنا ہے۔ چوتھی یہ بات کہ : کَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى سے مراد احیاء اموات جو بروز بعث و نشر ہوگا۔ اس جگہ اس بحث کا حال بیان کیا گیا مانا جائے جس کا کوئی یہاں امکان نہیں ہے کیونکہ اس مباحثہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قیامت کو بعث و نشر ہوگا یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن یہاں اس کا کوئی تعلق ؟ اور بعث و نشر کا موضوع خواہ مخواہ چھیڑنے کا کوئی مطلب ؟ جس کا نہ تو یہاں کوئی انکار ہے اور نہ ہی ان آیات سے پہلے یا بعد کوئی ایسا تذکرہ موجود ہے۔ بالکل سیدھا اور صاف مطلب جو ان آیات کریمات میں بیان کیا گیا ہے جس میں نہ آیتوں کی ترتیب الٹنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی جملہ بغیر کسی نقل و سند کے اپنی طرف سے بڑھانے کی کوئی ضرورت و حاجت ہے۔ اور جو بالکل صاف صاف قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اس کو چھوڑ کر وہم پرستی کے شوق میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے کی آخر ضرورت کیا ہے ؟
Top