Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ١٘ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ١ۚ فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ١٘ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسٰى : موسیٰ الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور قَفَّيْنَا : ہم نے پے درپے بھیجے مِنْ بَعْدِهٖ : اس کے بعد بِالرُّسُلِ : رسول وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی عِیْسَى : عیسیٰ ابْنَ : بیٹا مَرْيَمَ : مریم الْبَيِّنَاتِ : کھلی نشانیاں وَ : اور اَيَّدْنَاهُ : اس کی مدد کی بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح القدس کے ذریعہ اَ فَكُلَّمَا : کیا پھر جب جَآءَكُمْ : آیا تمہارے پاس رَسُوْلٌ : کوئی رسول بِمَا : اس کے ساتھ جو لَا : نہ تَهْوٰى : چاہتے اَنْفُسُكُمُ : تمہارے نفس اسْتَكْبَرْتُمْ : تم نے تکبر کیا فَفَرِیْقًا : سو ایک گروہ کَذَّبْتُمْ : تم نے جھٹلایا وَفَرِیْقًا : اور ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرنے لگتے
اور ہم نے پہلے موسیٰ کو کتاب دی پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہدایت کا سلسلہ پے درپے رسولوں کو بھیج کر جاری رکھا بالآخر مریم کے بیٹے عیسیٰ کو سچائی کی روشن نشانیاں دیں اور اس کو روح القدس کی تائید سے ممتاز کیا لیکن ان میں سے ہر [ داعی کی دعوت کی تم نے مخالفت کی کیا تمہارا شیوہ ہی یہ ہے کہ جب کبھی اللہ کا کوئی رسول ایسی دعوت لے کر آیا جو تمہاری نفسانی خواہشوں کے خلاف تھی تو تم سرکشی کرتے رہے اور پھر کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا
بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کی یاددہانی : 168: موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر پیچھے گزر چکا آپ کا حسب و نسب اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) چند واسطوں سے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ ان کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوکابد تھا۔ یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا نام اسرائیل تھا اور وہ یوسف (علیہ السلام) کے والد ماجد تھے۔ مشیت ایزدی کے مطابق جب حضرت یوسف (علیہ السلام) تخت مصر تک پہنچ گئے تو انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب اور اپنے بھائیوں کو مصر ہی کی قریب ایک نئی بستی آباد کر کے اس میں لا بسایا چونکہ یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے لہٰذا اس طرح بنی اسرائیل بارہ قبائل میں تقسیم ہوگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت بنی اسرائیل فرعون وقت کے زیرعتاب تھے۔ وہ اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا فیصلہ دے چکا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ اور تمام اہل خاندان سخت پریشان تھے کہ کس طرح بچہ کو قاتلوں کی نگاہ سے محفوظ رکھیں ؟ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ رکھنے کی ترکیب والدئہ موسیٰ کے دل میں القاء کی اور اس ترکیب سے موسیٰ (علیہ السلام) کی صرف جان ہی کیا بچی کہ فرعون کے محالت میں پرورش پانے لگے۔ بچپن ہی میں آپ کو معلوم ہوگیا تھا کہ میرا تعلق قوم بنی اسرائیل سے ہے اور فرعون گویا میری قوم کے لوگوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ آپ کی جوانی کے دنوں ہی میں وہ واقعہ قتل ہوا اگرچہ آپ کا ارادہ قتل کا نہ تھا لیکن مشیت ایزادی کا فیصلہ تھا کہ اب موسیٰ کو مصر سے بخیریت نکال لے چلنا ہے ، فرعون کی طرف سے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکڑ کر جیل ڈالنے کا فیصلہ ہوچکا تھا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) خود ہی مصر چھوڑ گئے۔ چلے چلاتے مدین پہنچے اور وہاں اللہ نے ٹھہرنے کا مو قع فراہم کردیا۔ اس طرح مشیت ایزادی نے ناز و نعمت سے پرورش کروانے کے بعد جوانی کے عالم میں ایک ریوڑ کا چرواہا بنا دیا اور اس طرح قانون الٰہی نے ایک ریوڑ کے راعی کو انسانوں بلکہ یوں کہیں کہ بنی اسرائیل کے گلہ کا راعی بنانے کے لیے تیار کرنا شروع کردیا۔ نبوت عطا کرنے کا وقت قریب آیا تو اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) عیالدار تھے اور اہل و عیال کو لے کر اپنے وطن مصر کو واپس آ رہے تھے کہ راستہ میں ایک رات آگ دکھا کر اللہ تعالیٰ نے اپنے قریب بلا لیا۔ آگ لینے کی غرض سے آگ کے قریب پہنچے ہی تھے کہ وحی الٰہی نے اپنی طرف متوجہ کرلیا اس طرح نبوت سے فیضیاب ہوئے اور اپنے وطن مصر پہنچ کر فرعون کو مخاطب کیا۔ مصر میں اس وقت فرعون کی اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ٞۖ0024 کی صدا بلند تھی ، آپ نے فرعون کو بتایا کہ تیری یہ صدا جھوٹ ہے ، رب تو نہیں بلکہ رب تیرا ، میرا اور سب کا ایک ہی ہے اور وہی ہے جس نے مجھے ، تجھے اور سب کو پیدا کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر تو اس صدا کو نہیں روک سکتا تو بنی اسرائیل کو یہاں سے ہجرت کرنے کی اجازت دیدے۔ فرعون نے یہ بات نہ مانی۔ ایک مدت تک موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کو دلائل نبوت سے سمجھاتے رہے لیکن فرعون اور اس کے حواریوں نے بات نہ مانی۔ انجام کار فرعون کی اجازت کے بغیر اللہ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ پروگرام بنا کر رات کے وقت پروگرام کے مطابق مصر کو چھوڑ کر نکل گئے۔ جب فرعون کو معلوم ہوا تو اس نے اعوان و انصار کے ساتھ تعاقب کیا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) حکم الٰہی کے مطابق سمندر پار کر گئے۔ اور فرعون اور اس کے اعوان و انصار سب غرق ہوگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) ایک مدت تک قوم کی تربیت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا مرتبہ عطا فرمایا قوم کو ہدایت و راہنمائی کے لئے کتاب یعنی تورات نازل فرمائی لیکن قنم ایک مدت تک غلامی میں رہ رہ کر آزاد قوموں کی سی صلاحیت بالکل ضائع کرچکی تھی انہوں نے زبان سے اقرار تو کرلیا تھا لیکن عملاً موسیٰ (علیہ السلام) کو پریشان ہی رکھا۔ ہر بات میں ٹانگ اڑائی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ اولو العزم پیغمبر تھے اس لئے ہر قسم کے ایذا رسانی اور مخالفت کے باوجود صبر کے ساتھ ان کی اصلاح میں مشغول و منہمک رہے کے داعی اجل کو لبیک کہنے کا وقت آگیا۔ تورات اور کتب تاریخ کے مطابق موسیٰ (علیہ السلام) ایک سو بیس سال کی عمر گزارنے کے بعد دار فانی سے رخصت ہوئے۔ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے درمیان تقریباً اڑھائی سو سے چار سو سال تک عرصہ ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد انبیاء کرام (علیہ السلام) کے پہ درپے آنا : 169: موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) کا متواتر اور بکثرت آتے رہنا تاریخ کا ایک مشہور اور مسلم واقعہ ہے۔ حضرت یوشع بن نون ، ، حضرت دائود (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کے ہیں۔ ان انبیاء کرام کی تذکار اس بات کے شاہد ہیں کے بنی اسرائیل نے ہر نبی کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) جنہوں نے بنی اسرائیل کو سینکڑوں سالوں کی غلامی سے نجات دلائی اور فرعون جیسے ظالم و فاسق بادشاہ کے ظلم و فسق سے بچایا اور موقع بہ موقع آیات و بینات دکھائے اس کی داستانیں آپ پڑھ چکے ہیں۔ دائود (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ جو جو زیادتیاں انہوں نے کیں ان کا تذکرہ بھی جابجا قرآن کریم میں موجود ہے اور حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ دونوں باپ بیٹے کو جس طریقے سے قتل کیا گیا ان کی داستانیں آج بھی صفحہ قرطاس میں محفوظ ہیں جن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شاخ یعقوب کے آخری نبی سیدنا عیسیٰ g: 170: سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سلسلہ انبیاء بنی اسرائیل کے خاتم ہیں۔ سنہ عیسوی آپ ہی کے نام سے جاری ہیں۔ آپ کے بعد صرف نبوت محمدی ﷺ ہوئی جس کا تعلق بنی اسماعیل سے ہے۔ ملک شام کے علاقہ ارض گلیل میں ایک قصبہ ناصرہ نامی ہے وہی عیسیٰ (علیہ السلام) کا آبائی وطن تھا۔ ولادت باسعادت بیت المقدس کے علاقہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ اہل خانہ کے ساتھ بیت المقدس سے نکل کر اپنے اصلی وطن قصبہ ناصرہ کی طرف جارہی تھیں خاندان یوسف بن یعقوب بن ماشان نامی ایک حکیم کا تھا۔ جناب یوسف لکڑی کی صنعت سے خوب واقف تھے اسی لئے یوسف نجار کے نام سے مشہور تھے۔ شام اس وقت رومی مملکت کا ایک نیم خود مختار صوبہ تھا۔ اس وقت والی شام ہیرو دوس تھا۔ مسیحی تقویم میں تین سال کی غلطی شروع ہی سے چلی آرہی ہے اس لئے آپ کا سال ولادت وہ نہیں ہے جس سے مسیحی تقویم شروع ہوتی ہے بلکہ اس سے تین سال بعد کا ہے۔ آپ کی ولادت کا مہینہ بھی دسمبر نہیں جیسے ایک عرصہ سے مشہور چلا آ رہا ہے اور آج بھی عیسائی قوم 25 / دسمبر ہی کو آپ کی لادت کا دن سمجھتی ہے۔ آپ کی ولادت اگست کے مہینہ میں ہوئی جو اس علاقہ میں بھی نہایت گرمی کا مہینہ ہے۔ قرآن کریم اور انجیل مقدس دونوں کی شہادت اس سلسلہ میں موجودہ ہے لیکن کوئی قوم جب من حیث القوم کوئی نظریہ اپنا لیتی ہے تو اس کو چھوڑ نے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتی۔ ایک نہیں ، ہزرا دلیل موجود ہو تو وہ سب بیکار ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ مریم اس زمانہ کی تمام عورتوں پر فضلیت رکھتی تھیں۔ آپ نہایت پاکباز اور پاکدا من بی بی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کی طرح سیدہ مریم کو الہام و القا کی قوت وہبی سے نوازا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے مردوں پر بھی فوقیت رکھتی تھیں ان پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا۔ مریم منت عمران بن ماشام قوم بنی اسرائیل کے ایک بڑے معزز خاندان سے تھیں۔ مسیح (علیہ السلام) کا سال پیدائش موجود تقویم کے لحاظ سے 3 عیسوی کہنا چاہئے لیکن اس طرح کی قوی غلطیوں کو اگر غلطی تسلیم بھی کرلیا جائے تو اصلاح کبھی نہیں ہوتی اس لئے غلط العام کو صحیح کہہ دیا جاتا ہے۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی طرح سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو بھی کم عمری میں نبوت عطا کردی گئی لیکن کم عمری سے مراد دودھ پیتا بچہ یا کھیل کود کا زمانہ نہیں بلکہ 25 ، 27 سال کا نوجوان مراد ہے۔ چونکہ دوسرے انبیاء کرام کو نبوت ملنے کا زمانہ چالیس سال گزر جانے کے بعد متصور ہوتا ہے اس نسبت سے کم عمری کہا گیا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) تیس سے چالیس سال کی عمر کے درمیان دار فانی سے دار لبقاء کی طرف اٹھا لئے گئے تھے۔ ابن مریم کے لفظ میں اشارہ ہے کہ عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) اپنی پیغمبرانہ عظمت کے باوجود محض بشر ہی تھے جو ایک عورت کے بطن سے پیدا ہوئے تھے جیسے دوسری عورتوں کے بطن سے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اللہ ، ابن اللہ یا مثیل اللہ نہیں تھے جیسا کہ عیسائیوں نے سمجھایا بیان کیا ہے۔ اسلام کے نزدیک اللہ وہ ذات ہے کہ لا ضدلہ ولا ندلہ لا مثل لہ ولا مثال لہ۔ وہ سچائی کی روشن نشانیاں کیا تھیں : 171: بَیِّنٰتٍ صفت ہے اور جہاں صرف لفظ بَیِّنٰتٍ ہے وہاں اس کا موصوف جس کی وہ صفت ہے مقدر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کے کلام پر غور و فکر کو موصوف مقدر کو قرار دینا چاہئے۔ کلام الٰہی میں ہمیشہ بَیِّنٰتٍکا موضوف ” اٰیٰتٍۭ “ کا لفظ آیا ہے جیسا کے اس سورة بقرہ میں نبی کریم ﷺ کی نسبت فرمایا ہے : وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ 1ۚ، اس لئے جو معنی اٰیٰتٍۭ کے ہیں وہی معنی صرف ” بَیِّنٰتٍ “ کے بھی ہیں کیونکہ اٰیٰتٍۭ اس کا موصوف وہاں مقدر ہے اور جو مراد لفظ اٰیٰتٍۭ سے ہے وہی مراد لفظ ” بَیِّنٰتٍ “ سے ہے مع اس صفت کے جس پر لفظ بَیِّنٰتٍولادت کرتا ہے۔ اٰیٰتٍۭ کے معنی لغت میں علامت یعنی نشانی کے ہیں اور علامت ہمیشہ اس پر جس کی وہ نشانی ہے دلالت کرتی ہے پس آیت کے معنی دلالت کرنے والے کے ہوئے جیسا کے امام فخر الدین رازی نے بھی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : انا لا یۃ ھی الدلالۃ اور یہ قرآن کریم کے فقرے ، اللہ کی واحدانیت اور انبیاء کی نبوت اور احکام شریعت پر دلالت کرتے ہیں ۔ اسی لئے قرآن کریم کے فقرہ کو بھی آیت کہتے ہیں۔ جیسا کے تفسیر معالم التنزیل میں : وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ 1ۚ، کی تفسیر میں لکھا ہے : واضحات مفصلات بالحلال والحرام والحدود والا حکام ، یعنی حلال و حرام اور حدود احکام کا مفصل بیان ” آیات بینات “ ہے ۔ اور فقرات قرآن کریم پر اس لئے کہ وہ احکام پر دلالت کرتے ہیں ۔ آیات کا اطلاق ہوا تو آیات سے خود احکام الٰہی بھی جو اس شخص کے وجود اور عظمت و جلال اور قدرت و سطوت و اختیار پر دلالت کرتے ہیں۔ جس نے وہ احکام صادر کئے ہیں ، مراد لئے جاسکتے ہیں۔ در حقیقت آیات کے لفظ سے قرآن کریم کی آیتیں یا احکام جو اللہ نے ان آیتوں میں نازل فرمائے ہیں ، مراد لینا ایک ہی بات ہے۔ قرآن کریم میں اس لفظ کا استعمال کبھی تو اللہ کی جانب سے ہوا جیسا کہ اس آیت میں : وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ 1ۚ، اور کبھی بطور قول کفار یا اہل کتاب کے ہوا سے جیسا کے اس آیت میں : وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ 1ؕ ، پس جہاں قرآن کریم میں اس لفظ یعنی ” آیت “ ، ” آیات “ ، ” بینات “ یا ” آیات بینات “ کا استعمال اللہ کی طرف سے ہوا ہے اس سے ہمیشہ وہ احکام یا نصائح اور مواعظ مراد ہیں جو اللہ نے بذریعہ اپنے کلام یا وحی کے انبیاء پر نازل فرمائے ہیں۔ ان احکام و مواعظ میں سے بعض خفی ہیں جن کی حکمت بہ تامل وتدقیق نظر سمجھ میں آتی ہے اور بعض ایسے ہیں جو نہایت صاف واضح اور بدیہی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے کبھی صرف ” آیات “ سے اور کبھی ” آیات بینات “ سے اور کبھی زیادہ تربد یہی ہونے کے سبب سے صرف ” بینات “ سے ان کو تعبیر کیا ہے۔ قرآن کریم میں رسول کے رسول ہونے کے دلائل و احکام کو ” بینات “ کہا ہے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں بھی فرمایا کہ : وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ اور تمہارے پاس موسیٰ (علیہ السلام) بھی روشن دلائل لر کر آئے۔ بلکہ سب رسولوں کو وہ دلائل دے کر بھیجا گیا جیسے ارشاد ہوا کہ : قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ ، ” اے پیغمبر اسلام ! آپ کہہ دیجئے میرے سے پہلے بھی تمہارے پاس روشن دلائل لے کر رسول آئے۔ “ عیسیٰ (علیہ السلام) جو آیات بینات یعنی روشن دلائل لے کر آئے تھے قرآن کریم میں ان کو کہیں استعارات میں اور کہیں تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس سے مراد وہ دلائل وبرہان اور معجزات ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرے انبیاء کی طرح عطا کئے گئے تھے۔ ان کی تفصیل موقع پر آئے گی۔ روح القدس کی تائید کا مطلب کیا ہے ؟ : 172 : روح القدس اسلامی اصطلاح میں مشہور و ممتاز ومقرب فرشتہ یعنی ملکوتی موت ہے جس کو جبرائیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور مسیحی اصطلاح میں روح القدس ” تثلیث مقدس “ کے اقنوم ثالث کو کہتے ہیں لیکن اس اصطلاح کا تعلق اسلامی اصطلاح سے کسی قسم کا بھی نہیں۔ اس کا ذکر اس لئے کردیا گیا ہے کہ بعض اوقات اصطلاح کے مشترک ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے مغالطے اور غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں یہاں کوئی اس طرح کی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ اس سے مفہوم یہ نکلتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اپنی بشریت کی بناء پر اعانت خداوندی کے محتاج تھے اس لئے اللہ نے ان کی روح القدس سے اعانت فرمائی جیسا کہ وہ اکثر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی فرماتا رہا ہے اور اب بھی اپنے نیک بندوں کی اعانت فرماتا رہتا ہے ۔ تعجب ہے کہ جو چیز مسیح (علیہ السلام) کی عجز اور کمزوری پر دلالت کرتی ہے اس کو عیسائیوں نے طاقت اور قدرت سمجھ لیا اور انہوں نے یہ ناکام کوشش کی کہ قرآن کریم میں بھی مسیح کی شخصیت کو ماوراء انسانیت سمجھا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ان کی سمجھ کا نقص ہے قرآن کریم نے مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت کو ایک اللہ کا بندہ اور رسول ہونے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا اور بیان کیا۔ کلام الٰہی کو بھی روح کہا گیا ہے وہ اس لئے کہ قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو لوگوں کو حیات یعنی زندگی بخشتی ہے بلکہ وہی حقیقی زندگی کا سرچشمہ ہے کیونکہ اس سے کفر کو موت آتی ہے اور اسلام کو زندگی ملتی ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کے متعلق فرمایا گیا ہے : وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ 1ؕ ، کہ اللہ نے اپنی روح کے ساتھ ان کی تائید فرمائی۔ یعنی ان کو تقویت دے کر ان کی کمزوری دور کردی۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت ؓ کے لئے ایک خاص موقعہ پر روح القدس کے مدد کرنے کی دعا فرمائی ایک دفعہ حضرت حسان نے ابوہریرہ ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے ابوہریرہ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ حسان ! تو مشرکوں کو اشعار کا جواب دے۔ اے اللہ ! تو حسان کی تائید روح القدس سے فرما۔ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا ہاں ! خدا کی قسم میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حسان ! تم ان مشرکوں کی ہجو کرو جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔ قرآن کریم میں اس ” روح القدس “ کو ” روح الامین “ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ حسان ؓ سے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ : وروح القدس معک اور روح القدس تیرے ساتھ ہے۔ مختصر یہ کہ اس فقرہ سے سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی بشری کمزوری کا اظہار تو ہوتا ہے نہ معلوم مافوق الفطرت انسانی اس کو کس طرح سمجھ لیا گیا ایسے ہی مواقع کے لئے کہا گیا ہے کہ ^چلتی کا نام گاڑی رکھیں اور بنے دودھ کو کھویا ہوائے نفس کی پیروی سراسر گمراہی ہے : 173: پیغمبر کی اتباع و اطاعت سے عار محسوس کرنا ہر دور میں موجود رہا ہے کیونکہ انسان اپنا قاضی و حاکم اپنے نفس ہی کو بنانا پسند کرتا ہے جو بات اس کی خواہش کے خلاف ہوئی وہ اس کو کبھی پسند نہ آئی جو احکام اسے اپنی خواہشات یا اپنی محدود ناقص اور جذبات زدہ عقل کے منافی نظرآئے جھٹ اس کا انکار کردیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں علم بغاوت بلند کردیتا ہے۔ فرمایا جا رہے کہ اے گروہ یہود ! تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ یہ تکبر کی کارستانی ہے۔ یہ اکڑنا اور اترانا اسی کا فعل ہے تم خود ہی غور کرو کہ کیا تکبر انسان کے لئے کوئی اچھی چیز ہے ؟ غور کرو کہ اس تکبر نے تم سے کیا کچھ کرایا ہے یاد ہے آپ کو ؟ بعض انبیاء کرام کو جھٹلانا اور بعض کو قتل ہی کردینا دونوں چالاکیاں اسی کی ہیں اور ان دونوں جرموں کو تم عملی جامہ پہنا چکے ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ تم اس کی سزا بھی بھگت چکے ہو ذرا تاریخ پر اپنی نظر دوڑا کر تو دیکھو۔ ذرا عربی جملہ پر غور کرو فرمایا : فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْٞ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ 0087 (2 : 87) ” ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو قتل کرتے ہو “ یعنی جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ استعمال کیا لیکن قتل میں مستقبل کا۔ گویا صاف بتا دیا کہ رسول اللہ ﷺ کے قتل کی سازشیں اب بھی تم کر رہے ہو۔ کیا اعجاز قرآنی ہے ظاہراً کچھ کہا بھی نہیں اور سب کچھ کہہ بھی دیا۔ سبحان اللہ !
Top