Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور یہ لوگ کہتے ہیں ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں ، ان پر انکار حق کے تعصب کی پھٹکار ہے ، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ قبول کریں
بنی اسرائیل کی اندھی تقلید : 174: ان لوگوں نے امانت کے ادا کرنے میں ہمیشہ خیانت سے کام لیا ہے ، وہ سر سے لے کرپاؤں تک گندگیوں اور نجاستوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ” غلف “ اغلف کی جمع ہے اس سے مراد وہ چیز لی جاتی ہے جو پردہ کے اندر ہو ، اسی اعتبار سے آیت کے معنی یہ ہوئے کہ وہ لوگ اپنے آپ کو قرآن کریم کی تعلیم سے بےنیاز خیال کرتے ہیں اور غرور وتکبر کی بناء پر اس سے رو گردانی اختیار کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات بینات ان کے قلوب و اذہان پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتیں۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ : غلف بضم الام غلاف کی جمع ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ ہمارے دل خزینہ دار علم و حکمت ہیں ہم آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ نہیں کرسکتے۔ گویا ان کا یہ کہنا علمی خیانت ہے اور جان بوجھ کر ازراہ تکبر علم کو علم کہنے کے لئے تیار نہیں اور جو کچھ ان کے پاس اہوا ہوا و خواہشات ہیں اسی کو علم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایک جگہ قرآن کہتا ہے کہ : فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا کَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ 0083 (المؤمن 40 : 83) ” جب ان کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے تو انہوں نے اپنے علم پر ناز کیا اور اسی عذاب کے پھیر میں آگئے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ “ جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہو کہ وہ مذہبی امام و پیشوا ہیں ، ان کے پاس اللہ کی کتاب ہے اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کا اولین فرض یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر وقت حق بات ماننے کو تیار رہیں اور اس کو اسی طرح لبیک کہیں جیسے بھوکا کھانے کو اور پیاسا پانی کو لینے کے لئے لپکتا ہے مگر ان بدبختوں کی حالت یہ ہے ایسی صحیح تعلیم کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو دنیا و آخرت کی ترقی کا ذمہ لیتی ہے اور تمسخر و استہزاء کے طور پر کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو ان مضامین سے کیا تعلق ، گویا دوسرے الفاظ میں ان کا فیصلہ یہ ہے کہ جس جگہ آج ہیں اس سے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھیں گے۔ پھر جس قوم و گروہ نے خو ود ہی ترقی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہو اور اپنے پاؤں میں اندھی تقلید کی بوجھل زنجیریں ڈال لی ہوں۔ ان سے اب کیا توقع ہوسکتی ہے۔ وہ تنزل و انحطاط کو پسند کرتے ہیں پس اس جمود و تقلید کی بنا پر جس کا سبب و حید وہ کفر و عصیان ہے جس کا انہوں نے پہلے ہی ارتکاب کرلیا ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار نازل ہوچکی ہے۔ ان کے دل حق باطل قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور اللہ کی رحمت گویا ان سے روٹھ گئی۔ یہ بات تو یہود کی چلی تھی اور ابھی جاری ہے لیکن اب مسلمانوں کو اپنی حالت پر بھی خیال دوڑانا چائیے کہ ہم بھی اس وقت اس کو رانہ تقلید کا شکار نہیں ہو رہے ؟ کیا ہم نے تحقیق و اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کرلیا ؟ کتاب و سنت سے بعد و ہجر اختیار نہیں کیا ؟ کیا فقہ کی چند کتابوں میں مذہب کو مقید کر کے اصلی سرچشمہ حیات سے دور نہیں جا پڑے ؟ اس کو غیر ضروری خیال کرنے لگ گئے اور اس طرح ارشاد الٰہی : فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ کے مرتکب نہیں ہوچکے ؟ کیوں نہیں تو پھر اس الحاد فی العمل کا نتیجہ ہے کہ غیروں کے محکوم بن گئے ہیں اور اس وقت لعنتی زندگی پر قانع ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔
Top