Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مومن نہیں
منافقین کا گروہ : 17: اب تک قرآن کریم نے دو قسم کے انسانوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک مؤمن فرمانبردار ، قانون الٰہی کے مطیع۔ دوسرے کافر ، نافرمان ، قانون الٰہی کے منکر و باغی۔ اب ذکر ایک تیسرے قسم کے لوگوں کا شروع ہورہا ہے۔ حقیقت میں تو یہ بھی کافر و منکر ہی ہوتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے کفر و انکار پر مکرو فریب کا پردہ ڈال رکھا ہوتا ہے یعنی زبان پر دعویٰ اسلام رکھتے ہیں لیکن دل ان کے تصدیق نہیں کرتے۔ صرف زبان سے دعویٰ و اقرار کرتے ہیں جس میں قلبی تصدیق ہرگز شامل نہیں ہوتی۔ ان ننگ انسانیت انسانوں کو اصطلاح شریعت میں منافق کہا گیا ہے۔ نفاق کی حقیقت یہ ہے کہ انسان بھلائی کا علان و اظہار کرتا رہے لیکن اندر ہی اندر شر کو چھپائے رکھے اور جب موقع دیکھے شر کے پھیلانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے لیکن شر کے پھیلانے کا انداز ایسا اختیار کرے کہ ضرورت کے وقت وہ شر کو اپنی چرب زبانی اور چالاکی سے خیر ثابت کرنے کی پوری کوشش کرے اور اس منافقت کو تین اقسام میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ (ا) : ظاہر ایمان کا اظہار ہو لیکن حقیقت میں وہ تمام ضروریات ملی کا منکر اور تعلیم الٰہیہ کا شدید دشمن ہو۔ (ب) : فسق و فجور کی کثرت اور عدوان و ضلالت کا اثر اس درجہ غالب آگیا ہو کہ دنیا کو دین پر اور کفر کو اسلام پر ترجیح دے۔ (ج) : ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے تذبذب اور اضطراب میں ہو۔ اگر آپ ان تینوں مراتب کو پیش نظر رکھیں گے تو کتاب و سنت کے تمام مقامات جو ان کے مختلف حالات بیان کریں گے مکمل طور پر حل ہوجائیں گے اور کسی آیت اور حدیث میں اختلاف معلوم نہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے منافق کی علامتیں اس طرح بیان فرمائی ہیں : فرمایا : ” ہر بات میں جھوٹ کہے گا ، ہمیشہ بدعہدی کرے گا ، خائن اور بےایمان ہوگا ، جھگڑے کے وقت گالیوں پر اتر آئے گا “۔ منافقین کا سردار کون تھا ؟ نفاق یعنی جھوٹا اظہار اسلام مکہ میں بالکل نہ تھا۔ نفاق کی بنیاد مدینہ میں پڑی وہ بھی خصوصاً غزوۃ بدر کے بعد جب اسلام کو روز بروز دنیوی عظمت و شوکت حاصل ہونا شروع ہوگئی۔ اس وقت بعض لوگوں نے اپنے کو محض تقیتاً بلاشائبہ ایمان و صداقت مؤمن و مسلم کہنا شروع کردیا۔ اس وقت اس پارٹی کا سرغنہ عبداللہ بن ابی ّبن سلول ایک بااثر شخص تھا۔ وہاں کے لوگوں نے اسلام کی آمد سے پہلے اس کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ چناچہ بادشاہی کی علامت یعنی تاج بھی تیار ہوچکا تھا۔ اس دور میں رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لے آئے۔ شہر کی تمام جماعتوں نے مل کر یہ طے کرلیا کہ آپ ﷺ ہی ان کے تمام مناقشات و منازعات کا فیصلہ کریں۔ عبداللہ کے لئے اس وقت اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ اپنی کمزوری کو محسوس کر کے خاموشی اختیار کرے ، مخالفت کرنے کی طاقت نہ تھی یعنی کھلا کافر رہنا بھی اس کے لئے دشوار ہوگیا انجام کار اس نے بھی اسلام کا اظہار کردیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل گیا لیکن دراصل اس کی یہی کوشش رہی کہ ہوسکے تو مسلمانوں کا نام و نشان دنیا سے مٹادیا جائے۔ اس کی چالوں اور چالاکیوں سے اسلام کا دفتر بھرا پڑا ہے اس کا تعلق بنو خزرج سے تھا لیکن اس کا اثر و رسوخ اپنے حریف قبیلہ بنو اوس پر بھی موجود تھا۔ آج کی زبان میں یہ اپنے وقت کا بہترین سیاستدان اور ایک زمانہ کا مانا ہوا لیڈر تھا۔ اس نے جب اسلام کے قدم مدینہ میں جمتے دیکھے تو اس کو اپنی دکان اجڑتی نظر آنے لگی۔ اس نے ذرا دیر نہ کی اور اپنے پیرؤوں کے کان میں یہ افسوں پھونک دیا کہ تم بھی زبان سے اس تحریک کے ساتھ وابستگی کا اعلان کر دو لیکن دل میں اپنے عقائد کو مزید پختہ کرلو اور وقت کا انتظار کرو۔ افسوس ! کہ اسلام کے دعویٰ داروں میں آج بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں بلکہ اس ملک پاکستان میں تو دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے جا رہے ہیں جو مذہب اور سیاست کفر میں پیوندکاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس طرح کفر کا نام اسلام رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دھوکہ دہیوں اور مکاریوں سے نجات دے۔
Top