Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 9
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ
يُخٰدِعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کو وَ : اور الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَ : اور مَا : نہیں يَخْدَعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے نفسوں کو وَ : اور مَا : نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
وہ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں ، حالانکہ وہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہیں اگرچہ اس کا شعور نہیں رکھتے
دھوکہ باز ہمیشہ خود دھوکے میں رہتا ہے : 18: یہاں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ دھوکا باز ، مکاری کرنے والا اور فریب دینے والا ہمیشہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکا دیتا ہے ، کیوں ؟ ظاہر ہے کہ اس کا یہ عمل کبھی اچھا نہیں ہوسکتا اور جب عمل اچھا نہ ہوا تو اس کا نتیجہ کیونکر اچھا ہوگا ؟ عمل اور ردعمل یعنی عمل کا نتیجہ لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اس کے نفاق سے نقصان کسی اور کا نہیں ہوگا خود اسی کا ہوگا۔ جو یقیناً آخرت میں عذاب کی شکل اختیار کرے گا اور دنیا میں بھی رسوائی و فضیحت اور منافقت کی پردہ دری ہوگی۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کی رسم تاجپوشی ادا ہونے ہی والی تھی جو رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے رک گئی۔ اس کے باوجود اس نے ظاہری طور پر مسلمانوں کا ساتھ دیا دراصل اس کا خیال یہ تھا کہ لوگ گھر بار چھوڑ کر فقر و فاقہ کی حالت میں یہاں آئے ہیں جن کی پذیرائی ہماری قوم کے مختلف نوجوانوں نے کی ہے اس کی روک تھام کے لئے اپنے نوجوانوں کا ساتھ دینا ہی مناسب ہے آج نہیں تو کل سہی یہ لوگ خود بخود فنا ہوجائیں گے۔ اس نے اللہ کا دین سمجھ کر اسلام اختیار نہ کیا بلکہ مصلحت وقت دیکھی۔ یہی مصلحت وقت اس کا دھوکا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ جو جہانبانی و جہانداری وہ چاہتا ہے اس کو حاصل کرنے کا اب یہی ایک راستہ ہے لیکن وہ یہ بھول گیا کہ جہانداری و جہانبانی کے لئے جن اخلاق فاضلہ کی ضرورت ہے اس کا یہ اقدام ہی اس کے خلاف ہے ظاہر ہے کہ اس کے اس فریب کا نتیجہ اسی کو ملنا چاہئے تھا جو انجام کار مل کر رہا کہ آج تک وہ منافقین کے سردار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور رہتی دنیا تک اسی نام سے یاد کیا جائے گا ، اور اس کی آخرت کی بربادی کا ذکر بھی احادیث میں بڑی وضاحت سے بیان کیا جاچکا ہے اور انشاء اللہ سورة توبہ میں اس کا مفصل ذکر آئے گا
Top