Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 10
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیقی ہم نے نازل کی اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف كِتٰبًا : ایک کتاب فِيْهِ : اس میں ذِكْرُكُمْ : تمہارا ذکر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
ہم نے تمہارے لیے ایک کتاب نازل کردی ہے اس میں تمہارے لیے موعظت ہے کیا تم سمجھتے نہیں ؟
ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارے لئے نصیحت ہے اگر تم سمجھو ؟ ۔ 10۔ ” ہم نے تمہارے لئے ایک کتاب نازل کردی ہے اس میں تمہارے لئے موعظت ہے ۔ “ گویا اب گزشتہ بات کو مزید صاف صاف طریقہ سے بیان کردیا کہ اگر تم کو سچائی کی طلب ہے تو وہ قرآن کریم ہی کے اندر ہے اس سے زیادہ بڑھ کر تمہارے لئے سچائی کی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے ؟ زیر نظر آیت نے اس جیسی دوسری بیشمار آیات کریمات نے یہ حقیقت قطعی طور پر واضح کردی ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ نے اپنی صداقت کے لئے جس چیز پر بطور ایک نشانی کے زور دیا ہے وہ صرف اور صرف قرآن کریم ہے چناچہ ارشاد الہی بیان ہوا ہے کہ : (آیت) ” وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (48) بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُورِ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا یَجْحَدُ بِآیَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ (49) وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْْہِ آیَاتٌ مِّن رَّبِّہِ قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِندَ اللَّہِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ (50) أَوَلَمْ یَکْفِہِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ یُتْلَی عَلَیْْہِمْ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَرَحْمَۃً وَذِکْرَی لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (العنکبوت 29 : 48 تا 51) ” اے پیغمبر اسلام ! تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اپنے داہنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے اور اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے ۔ دراصل یہ روشن نشانیاں ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم بخشا گیا ہے ۔ اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہ جو ظالم ہیں یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے ؟ کہو ‘ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر اور واضح طور پر اور کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہوں پڑھ کر سنائی جاتی ہے ؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ۔ “ مطلب بالکل صاف ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ جب انسان جس کے پیدا ہونے سے لے کر بعثت تک کی زندگی ایک ایک دن ‘ گھنٹہ اور ساعت تک سے تم لوگ واقف ہو اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اس اللہ کے بندے نے پیدا ہونے سے لے کر بعثت تک کسی آدمی کے سامنے تہ زانو نہیں کیا اور آج تک کسی سے حروف ہجا بھی نہیں سیکھے اور آج تک کسی سے کسی طرح کا کچھ پڑھنا لکھنا ثابت نہیں ہے آج اچانک یہ کیسے ہوگیا کہ وہ قرآن کریم جیسی کتاب تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے اور تمہیں پڑھ کر سناتا ہے ؟ صرف یہی نہیں بلکہ تحدی اور چیلنج دیتا ہے کہ اگر تمہارے پاس علم ہے تو سب مل جاؤ اور اکٹھے ہو کر اس کلام جیسا کلام بنا کرلے آؤ ‘ یہی نہیں بلکہ اس نے تمہارے سامنے فقط تین آیتوں پر مشتمل سورت بیت اللہ میں آویزاں کرائی ہے اور تم کو اس جیسی ہی صرف تین آیتیں لانے کا مطالبہ کیا ہے اور آج تم میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ تم اس کا مقابلہ کرسکو یہی بات اور یہی نشانی دانش وبینش رکھنے والوں کے لئے کافی نہیں ہے ۔ دنیا کی تاریخی ہستیوں میں سے جس کے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے آدمی اس کے اپنے ماحول میں ان اسباب کا پتہ چلا سکتا ہے جو اس کی شخصیت بنانے اور اس سے ظاہر ہونے والے کمالات کے لئے اس کو تیار کرنے میں کار فرما تھے ، اس کے ماحول اور اس کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں ایک کھلی مناسبت پائی جاتی ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت جس حیرت انگیز کلمالات کی مظہر تھی ان کا کوئی ماخذ آپ کے ماحول میں تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔ یہاں نہ اس وقت کے عربی معاشرے ہیں اور نہ ہی گردوپیش کے جن ممالک سے عرب کے تعلقات تھے ان کے معاشرے میں کہیں دور دراز بھی وہ عناصر ڈھونڈ کر نہیں نکالے جاسکتے تھے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی سے کوئی مناسبت رکھتے تھے یہی حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر یہاں فرمایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ایک نشانی نہیں بلکہ بہت سی نشانیوں کا مجموعہ ہے ۔ جاہل ‘ اکھڑ اور غور و تدبر نہ کرنے والے انسان کو اس میں کوئی نشانی نظر نہ آئی ہو تو نہ آئے مگر جو لوگ علم رکھنے والے ہیں وہ ان نشانیوں کو دیکھ کر اپنے دلوں میں قائل ہوگئے ہیں کہ یہ شان ایک رسول ہی کی ہو سکتی ۔ اس کی تفصیل ہم پیچھے سورة یونس آیت 16 سورة النحل آیت 103 اور سورة بنی اسرائیل آیت 88 میں کرچکے ہیں اور مزید انشاء اللہ العزیز سورة المومنون ‘ سورة الفرقان اور شوری میں ہوگی اور سورة العنکبوت کی آیات 45 تا 51 میں مکمل تفصیل بیان ہوگی جہاں اس بات کی وضاحت کی جائے گی نبی اعظم وآخر ﷺ کی زندگی کا یہ معجزہ اور نشانی بھی دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے پیش کی گئی جس سے بڑا معجزہ اور نشانی شاید ہی کوئی اور ہو کہ کل تک نہ پڑھا لکھا ہوا انسان اچانک ایک رات ہی رات میں وہ کچھ پڑھ اور سیکھ گیا جس کے لئے ایک مدت درکار ہوتی ہے اور پھر ایک مدت اور زر کثیر استعمال کرنے کے بعد ایسا کامل انسان نہیں بن سکتا اس طرح آپ کو پڑھنا اور لکھنا رب ذوالجلال والاکرام نے اپنے فرشتہ جبریل (علیہ السلام) کے تین بار بھینچنے یعنی دبانے سے سکھا دیا کہ آپ ﷺ پڑھنے بھی لگے اور لکھنے بھی لیکن افسوس کہ ہمارے مفسرین نے اس عام فہم بات کو بھی کسی خاص ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر سمجھنے کی کوشش نہ کی اور اگر کسی نے سمجھا تو اس کو اپنے تک محدود رکھا کہ یہ بات ایک اختراعی عقیدہ کے خلاف پڑتی تھی اور اس عقیدہ کے حامل بڑے بڑے ناموں سے پکارے جاتے تھے حالانکہ یہی وہ معجزہ ونشان تھا جو نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی کو دنیا کے سارے انسانوں کی زندگیوں پر فوقیت عطا کرتا تھا جس کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی اور یدبیضاء اور مسیح کے کوڑھی کے درست کرنے اور مردہ زندہ کرنے کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی تھی کہ یہ سب وقتی استعارات تھے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کا یہ نشان عین حقیقت تھی جو ہر وقت ‘ ہر حال اور ہر آن دیکھا جاسکتا تھا ۔
Top