Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 100
لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ هُمْ فِیْهَا لَا یَسْمَعُوْنَ
لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : وہاں زَفِيْرٌ : چیخ و پکار وَّهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يَسْمَعُوْنَ : (کچھ) نہ سن سکیں گے
ان کے لیے دوزخ میں چیخیں ہوں گی اور وہ نہیں سنیں گے
وہ اس میں چیخیں اور چلائیں گے لیکن ان کی کوئی نہیں سنے گا : 100۔ اس آیت نے ان لوگوں کی غلطی ثابت کردی جو معبودان باطل سے مراد صرف بت اور شبیہیں ہی لیتے ہیں اور انسان مراد لینے سے گریز کرتے ہیں تاکہ ان کے شرک کی ترویج جاری وساری رہے اور شرک بھی کرتے کراتے رہیں اور شرک کی زد میں بھی نہ آئیں ۔ وہ دوزخ میں چیخیں اور چلائیں گے ؟ غور کرو کہ کی کبھی بت اور شبیہیں بھی چیختی اور چلاتی ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خود شرک کیا اور دوسروں کو شرک کرنے کی ترغیب دی ۔ رہے وہ بت اور پتھر ‘ شبیہیں اور قبریں تو وہ نشانات ہیں ان کو دوزخ میں ڈالنے کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ نشانات ہیں اور ان کو سامنے رکھنے والوں کو محسوس ہوگا کہ اب جن پر ہمارا انحصار تھا وہ ہمارے کچھ کام نہیں آ رہے کہ وہ نشانات تو ان کے ساتھ دوزخ میں ہوں گے اور جن لوگوں کے وہ نشانات بنائے گئے تھے ان کو اس بات کا علم بھی نہ ہوگا اور نہ ہی وہ ان کی کوئی بات سنیں گے اس لئے کہ انہوں نے بذاتہ ان سے کوئی وعدہ اس طرح کا نہ کیا تھا بلکہ ان کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان لوگوں نے اپنے ادہام سے ایسے تخیلات پیدا کر لئے تھے ان کے علم میں بھی یہ بات نہ ہوگی کہ ہماری عبادت بھی لوگ کرتے رہے جیسا کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں پیچھے گزر چکا کہ : (آیت) ” وَإِذْ قَالَ اللّہُ یَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِیْ وَأُمِّیَ إِلَـہَیْْنِ مِن دُونِ اللّہِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ أَقُولَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِحَقٍّ إِن کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ إِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ (المائدہ 5 : 116) ” اور جب ایسا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کہے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ! کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) جواب مین عرض کرے گا تیرے لئے پاکیزگی ہو بھلا مجھ سے یہ بات کیسے ہو سکتی تھی کہ میں ایسی بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے حق نہیں اگر میں نے یہ کہا تھا تو ضرور تجھے معلوم ہے تو میرے دل کی بات جانتا ہے مجھے تیرے ضمیر کا علم نہیں تو ہی غیب کی ساری باتین جاننے والا ہے ۔ “ یہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے جواب کا ایک حصہ ہے مکمل جواب سورة مائدہ کی آیت 116 ‘ 117 ‘ 118 میں بیان ہوا ہے اور تفصیل اس کی وہاں سے ملاحظہ فرما لیں ۔ قرآن کریم نے ایک نبی ورسول کا جواب نقل کرکے سارے اللہ کے بندوں کے جواب کی تفصیل اس میں کردی کیونکہ یہی وہ نبی ورسول ہیں جن کو لوگوں نے اللہ ‘ اللہ کا بیٹا اور اللہ کا تیسرا جزء مان کر ان کے اختیار میں بہت کچھ دے دیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی ، ظاہر ہے کہ وہ سارے لوگ جو آپ سے پہلے یا بعد میں معبود بنائے گئے اور ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا گیا اب اس ضمن میں آگئے اور اس سے زیادہ تفصیل اور کیا ہوگی ۔ اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا جانتا اور سمجھتا ہے تو یہ اس کی ذمہ داری ہے قانون الہی نے اس کی وضاحت میں کوئی کمی نہیں رہنے دی اب بھی کسی کی آنکھیں بند ہی رہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے نیک بندے اس سے بری الذمہ ہیں اور اس کی آنکھیں کھلنے کا وقت آئے گا تو انشاء اللہ ضرور کھلیں گی اگرچہ اس وقت اس کو اس سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا ۔
Top