Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 102
لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا١ۚ وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ
لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہ سنیں گے حَسِيْسَهَا : اس کی آہٹ وَهُمْ : اور وہ فِيْ : میں مَا اشْتَهَتْ : جو چاہیں گے اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل خٰلِدُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے
وہاں کی بھنک بھی ان کے کانوں میں نہیں پڑے گی اور وہ اپنی پسند اور خواہش کی تمام نعمتوں میں ہمیشہ کے لیے مگن رہیں گے
وہ عذاب الہی کی آہٹ بھی نہ پائیں گے اور جو وہ چاہیں گے حاضر کردیا جائے گا : 102۔ (حسیس) حس سے ہے اور مراد اس سے حرکت وآہٹ ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے جن کا ذکر اوپر گزر چکا عذاب تو عذاب ہے عذاب کی آہٹ تک بھی محسوس نہیں کریں گے اور ان کو اکتاہٹ تک نہیں ہوگی پھر یہ بھی کہ اس دنیا میں بھی بلاشبہ لذتیں اور مسرتیں ہیں مگر جو چیز یہاں نہیں ہے وہ بقائے دوام ہے یہاں کی ہر لذت عارضی اور ہر مسرت آنی ہے یہاں خوشی کا کوئی ایسا ترانہ نہیں جس کے بعد غم وماتم کا نالہ نہ ہو ۔ یہاں ہر پھول کے ساتھ کانٹے ‘ ہر روشنی کے ساتھ تاریکی ‘ ہر وجود کے ساتھ فنا ‘ ہر سیری کے بعد بھوک ‘ ہر سیرابی کے بعد پیاس اور ہر غنا کے بعد محتاجی ہے انسان ہزاروں مشکلیں اٹھانے اور ہزاروں صدمے سہنے کے بعد ایک مسرت کا پیام سنتا ہے اور ایک خوشی کا منظر دیکھتا ہے مگر ابھی اس سے سیر ہونے کی نبوت بھی نہیں آتی کہ اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ غرض اس موجودہ عالم فانی کی ہر شے آنی جانی ہے اور یہی یہاں کی سب سے بڑی کمی ہے جو پوری نہیں ہو سکتی لیکن آخرت کی مملکت وہ ہے جہاں کی لذتیں جاودانی اور جہاں کی سرعتیں غیر فانی ہیں جہاں حیات ہے مگر موت نہیں ‘ راحت ہے مگر تکلیف نہیں لذت ہے مگر الم نہیں ‘ مسرت ہے مگر غم نہیں ‘ جہاں وہ سکون ہے جس کے ساتھ اضطراب نہیں اور وہ شادمانی ہے جس کے بعد حزن واندوہ نہیں اس کا نقشہ جو شیطان نے کھینچا تھا وہ بالکل صحیح ہے اور جو اس نے اس وقت کہا تھا وہ آج بھی سچ ہے اور اس وقت بھی سچ تھا جب اس نے آدم (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ : (آیت) ” ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک لایبلی “۔ (طہ 20 : 120) کیا میں تجھے ہمیشگی کے درخت کا نشان دے دوں اور ایسی بادشاہی کا جو کبھی زائل نہ ہو ؟ مگر جنت کا یہ وصف سنا کر ان کو جدھر کا راستہ بتایا وہ موت کے درخت اور فنا کے ملک کی طرف کا تھا اور یہی وہ فریب تھا جس میں اس نے آدم کو گرفتار کرلیا اور اس جنتی زندگی کی تلاش میں وہ چیز کھالی جو ان کے حق میں زہر تھی یعنی گناہ کا پھل ۔ اب کیا ہوا کہ جہاں سے کچھ دیر ٹھہرا کر وہاں لے جانا منظور تھا اس طرح اتاردیا گیا اور ان کے لئے اور ان کی نسل کے لئے جنت اعمال صالحہ کا صلہ قرار پایا لیکن یہ کسی غلطی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ حقیقت کی تفہیم کے لئے ایک پیرایہ بیان تھا جو وضاحت کے ساتھ آدم اور اولاد آدم کے سامنے بیان کردیا گیا تاکہ وہ چوکنے رہیں اور سعی وعمل سے اس مقام کو حاصل کرنے میں لگے رہیں اور یہی زیر نظر آیت میں بیان کیا گیا ۔
Top