Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 16
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ
وَمَا خَلَقْنَا : اور ہم نے نہیں پیدا کیا السَّمَآءَ : آسمان وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان لٰعِبِيْنَ : کھیلتے ہوئے
اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کچھ کھیل تماشہ کرتے ہوئے نہیں بنایا ہے
ہم نے زمین و آسمان کو کھیل وتماشا کے طور پر نہیں بنایا : 16۔ عربی زبان میں ” لعب ولھو “۔ دو اکٹھے لفظ استعمال ہوئے ہیں اور اردو میں کھیل اور تماشا بھی اکٹھا ہی بولا جاتا ہے اس لئے عام طور پر لعب ولھو کا ترجمہ کھیل اور تماشا ہی کے الفاظ سے کیا جاتا ہے ۔ لیکن دراصل اس سے مراد فضول ’ لغو ‘ بےمقصد اور بیکار وعبث کام ہیں۔ زیر نظر آیت میں لفظ (لعبین) آیا ہے جو اسم فاعل مذکر جمع منصوب ومجرور جس کا واحد لاعب ہے اور لعب لعب تلعاب مصدر (باب سمع) جس کے معنی ہیں کھیلنے والے ۔ بیکار کام کرنے والے لعب حاصل مصدر بھی ہے کھیل ۔ لعبۃ گڑیا وہ چیز جس سے کھیلا جاتا ہے مثلا شطرنج ‘ چونسر ‘ پانسہ وغیرہ بیوقوف آدمی جس کا کھیل بنایا جاتا ہے ۔ ازدواجی زندگی کے فعل خاص پر بھی بولا جاتا ہے ۔ لعبۃ بازیگر کو بھی کہتے ہیں جو الٹی سیدھی بازیاں لگاتا اور ناچتا گاتا ہے اور ساتھ اسی طرح کی حرکتیں بھی کرتا ہے اور ” لعاب “ منہ سے بہنے والی رال کو کہتے ہیں ۔ لھواسم مصدر جس کے معنی ہیں سنجیدگی چھوڑ کر مزاح کی طرف میلان اور جھکاؤ لھو کہلاتا ہے اور کسی ایسے غیر مفید کام میں مشغول ہونا جس کے شغل میں مفید کام ترک ہوجائے اور دراصل لھو جماع کو کہتے تھے اور اس سلسلہ میں امراء القیس بن حجر کندی کے اشعار نقل کئے جاتے ہیں جن کا یہاں نقل کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ایسے ہی مفہومات کے پیش نظر عربوں میں عورت کو بھی ” لھو “ کہا جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ ہر غیر دانشمندانہ تفریح کا نام لہو ہوگیا اور اس طرح ” لھو الحدیث “ کا لفظ ہے جس کے معنی بےسروپا قصے کہانیاں اور فضول اور بیہودہ باتوں کے ہیں۔ اسی طرح رقص و سرور اور گانے بجانے کے لئے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے ، چونکہ یہ لفظ قرآن کریم میں بہت دفعہ بولا گیا ہے اس لئے ذرا تفصیل سے اس کے متعلق عرض کیا گیا ۔ اسلام نے دنیوی زندگی کو جو آخرت کے بنانے اور سنوارنے کی فکر سے آزاد ہو کر گزاری جائے ” لھو ولعب “ قرار دیا ہے اور مخالفین اسلام نے دین اسلام کو لعب ولھو سمجھا ہے اور بیان کیا ہے ۔ اسی لئے قرآن کریم نے انہی دونوں باتوں کا ذکر کیا ہے چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” یایھا الذین امنوا لاتتخذوا الذین اتخذوا دینکم ھزوا ولعبا من الذین اوتوا الکتب من قبلکم والکفار اولیاء واتقوا اللہ ان کنتم مؤمنین “۔ (المائدہ 5 : 75) ” اے مسلمانوں ! یہود ونصاری اور کفار میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے تم انہیں اپنا رفیق ودمددگار نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو اگر فی الحقیقت تم ایمان رکھنے والے ہو۔ “ اور وضاحت اس کی اس کے مقام پر مل جائے گی عروۃ الوثقی کی جلد سوم میں سورة مائدہ کی محولہ آیت کی تفسیر دیکھیں ۔ اسی طرح سورة الانعام کی آیت 70 اور سورة الاعراف کی آیت 51 کی تفسیر بھی دیکھیں ۔ یہ آیات کفار کے دین اسلام کو لعب ولھو سمجھنے میں بیان کی گئی ہیں اور رہی یہ بات کہ اسلام نے دنیوی زندگی کو جو آخرت کے تصور سے آزاد ہو کر گزار دی جائے اس کو بھی انہی الفاظ سے یاد کیا ہے تو اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے فرمایا : (آیت) ” وما الحیوۃ الدنیا الا لعب ولھو وللدار الاخرۃ خیر اللذین یتقون افلا تعقلون “۔ (الانعام 6 : 32) ” اور دنیا کی زندگی تو کچھ نہیں ہے مگر ایک عارضی چیز ہے جو متقی ہیں ان کے لئے آخرت ہی کا گھر بہتر ہے کیا تم نہیں سمجھتے ؟ “ اس کی مزید تفصیل دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقی جلد سوم میں سورة الانعام کی آیت محولہ کی تفسیر دیکھیں اور علاوہ ازیں یہ مضمون سورة العنکبوت کی آیت 64 ‘ سورة محمد کی آیت 36 اور سورة الحدید کی آیت 20 میں بیان ہوا ہے وہاں سے بھی آپ دیکھ سکتے ہیں ۔ موجودہ دور میں مسلمانوں نے من حیث القوم کھیل وتماشا کو اس طرح اوڑھنا بچھونا بنایا ہے کہ شاید اس زمانہ میں یہود ونصاری اور مشرکین مکہ نے بھی نہ بنایا ہوگا لیکن چونکہ پوری قوم کی قوم اس میں مصروف ہے اس لئے اب اس کے خلاف بات کرنے والا خود ہنسی اور کھیل بن کر رہ گیا ہے لیکن کیا اس طرح کی حرکتوں سے کبھی حقیقت بھی بدل جایا کرتی ہے ؟ نہیں اور یقینا نہیں تو بات کرتے رہنا چاہئے کوئی مانے یا نہ مانے سنے یا نہ سنے اس لئے کہ نہ ماننے والے اور نہ سننے والے بھی ایک وقت آتا ہے سن لیتے اور مان لیتے ہیں اگرچہ اس وقت کا سنا اور مانا ان کے کام نہ آئے اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اے رب العزت والجبروت ہماری قوم کو سیدھی اور صاف بات سن لینے اور مان لینے کی توفیق عطا فرما دے اور ہم سب کی غلطیوں اور خطاؤں سے در گزر فرما کر تیرے سوا غلطیاں اور خطائیں معاف کرنے والا اور ان سے درگزر فرمانے والا اور کوئی نہیں ۔
Top