Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 25
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : نہیں بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر نُوْحِيْٓ : ہم نے وحی بھیجی اِلَيْهِ : اس کی طرف اَنَّهٗ : کہ بیشک وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنَا : میرے سوا فَاعْبُدُوْنِ : پس میری عبادت کرو
اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس پر اس بات کی وحی نہ بھیجی ہو کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف میری ذات (ذات خداوندی) پس چاہیے کہ میری بندگی کرو
جو دلیل طلب کی جا رہی تھی اس کی وضاحت فرما دی کہ کچھ بھی پیش نہیں کرسکتے : 25۔ نبی رحمت ﷺ سے اعلان تو پہلے کرا دیا گیا اور ان سے کہلوایا گیا کہ اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود ہے تو اس کی کوئی دلیل پیش کرو اس کتاب سے نہیں جو میرے ساتھیوں کے ہاتھ میں ہے تو ان آسمانی کتابوں ہی سے سہی جن کو تم اس سے قبل آسمانی کتابوں کے طور پر مانتے اور تسلیم کرتے ہو ۔ اس طرح گویا جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانے کے بعد نبی اعظم وآخر ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس پر ہم نے اس بات کی وحی نہ بھیجی ہو کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف میری ذات ‘ پس چاہئے کہ میری بندگی کرو۔ “ اس طرح نبی کریم ﷺ پر یہ بات واضح کردی کہ اگر وہ دلیل پیش نہیں کرسکے اور آئندہ رہتی دنیا تک آنے والے مشرک کبھی اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کرسکیں گے اس لئے کہ ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے سب کو یہ وحی دے کر ہی بھیجا تھا کہ ” میرے سوا کوئی معبود نہیں “ پھر یہ دلیل آخر دیں گے تو کہاں سے آپ نے جو چیلنج کیا ہے آپ مطمئن رہیں اس کا جواب نہ ان کے پاس ہے اور نہ ان کے بڑوں کے پاس کوئی تھا اور نہ ہی بعد میں آنے والوں کے پاس کوئی ہوگا اس لئے اپنے اس اعلان کو دہراتے رہیں اور ان کو الٹی سیدھی کہنے دیں جو یہ کہہ رہے ہیں ۔ ان کی کوئی حالت بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں اور ان کے غبارے میں صرف ہوا بھری ہے کہ یہ اتنا بڑا نظر آ رہا ہے اور زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ اس کی ہوا اتر جائے گی اور یہ خالی کے خالی رہ جائیں گے ، جس مال و دولت اور اقتدار کا ان کو نشہ ہے نہ یہ دکھائی دے گا اور نہ یہ خود دکھائی دیں گے ۔ یہی ہوا کہ اس لا الہ الا اللہ کی ضرب نے حالت کو بدلا تو مکہ والے چت ہوگئے آخر نبی اعظم وآخر ﷺ کو ہجرت کے بعد کتنی دیر لگی تھی کہ مکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی تحویل میں دے دیا اور ایسا دیا کہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اپنے ہی ذمہ لے لیا ۔ ذرا غور کرو کہ زیر نظر آیت میں آپ ﷺ کے مخاطب کون لوگ ہیں ؟ مکہ کے مشرکین ‘ بس ان کو مخاطب کر کے دنیا کے سارے مشرکوں سے خطاب ہے اور ان کو بتایا جا رہا ہے کہ احساس ذمہ داری کے فقدان کی وجہ سے وہ کس طرح بےسوچے سمجھے ایک نہایت ہی غیر معقول عقیدے سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات کے ماننے کے ساتھ بہت سی دوسری ہستیوں کو بھی معبود بنائے ہوئے تھے ، ان سے دعائیں مانگتے تھے ‘ ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے ‘ ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے اور نذارانے پیش کرتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات انہیں حاصل ہیں انہی ہستیوں کے متعلق انہیں پوچھا جا رہا ہے کہ انہیں آخر کس بنیاد پر تم نے معبود مان رکھا ہے ؟ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبودیت میں حصہ دار قرار دینے کے لئے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں یا تو آدمی کو خود کسی ذریعہ علم سے یہ معلوم ہو کہ زمین و آسمان کے بنانے میں واقعی اس کا بھی کوئی حصہ ہے یا اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہو کہ فلاں صاحب بھی خدائی کام میں میرے شریک ہیں ‘ اب نہ تو کوئی مشرک یہ دعوی کرسکتا ہو کہ اسے اپنے معبودوں کے شریک خدا ہونے کا براہ راست علم حاصل ہے اور نہ ہی خدا کی طرف سے آئی ہوئی کتاب سے یہ دکھا سکے کہ خدا نے خود کسی کو اپنا شریک قرار دیا ہے تو لامحالہ اس کا عقیدہ قطعی طور پر بےبنیاد ہی ہوگا ۔
Top