Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 27
لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ
لَا يَسْبِقُوْنَهٗ : وہ اس سے سبقت نہیں کرتے بِالْقَوْلِ : بات میں وَهُمْ : اور وہ بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم پر يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں
وہ اس (یعنی اللہ تعالیٰ ) کے آگے بڑھ کر بات نہیں کرسکتے ، وہ اس کے حکم پر سر تاسر کاربند رہتے ہیں
وہ حکم الہی کے پابند ہیں اور انسان کی طرح اختیار و ارادہ نہیں رکھتے : 27۔ ان کی حیثیت سفارش کرنے اور اللہ تعالیٰ سے بات منوانے کی نہیں وہ تو اس کے حکم پر سرتا سر کار بند رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں کرتے یہ انکی صنفی کیفیت ہے کیونکہ ان کی صنف میں اختیار و ارادہ نہیں جو کسی طاقت وقوت میں بھی نہیں ہوتا ان کی مثال اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ گویا کیل سے دیوار مطالبہ کرتی ہے کہ میں نے تیرا کیا قصور کیا ہے جو تو مجھے اس طرح تنگ کر رہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس سے پوچھو جو میرے سر پر پے درپے وار کئے چلا جارہا ہے میں اس کا جواب کیا دے سکتا ہوں ۔ یہی بات ان کی ہے اللہ رب کریم نے جس کام پر ان کو لگایا ہے وہ لگے ہیں گویا عبادت الہی اور فرمان خداوندی کی تعمیل ان کا کام ہے جب وہ اپنا ارادہ تک نہیں رکھتے تو وہ کسی کی سفارش کریں گے تو آکر کیسے اور کیوں ؟ یہ سارا دن وہم پرستوں کا اپنا خبط ہے جو انہوں نے دوسروں کے ذمہ خواہ مخواہ تھوپ دیا ہے اور اس خبط پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی خبط کے لئے کسی دلیل کی کوئی ضرورت ہوتی ہے ۔ آیت 19 تا 27 یعنی کل 8 آیات کریمات میں بیان فرشتوں اور رسولوں کا ملا جلا چلا آرہا ہے اور کہیں درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے بھی یہی بات بیان کی ہے تاکہ بات کی مکمل وضاحت ہوتی چلی جائے اس لئے ان آیات میں بیان فرشتوں کا بھی سمجھا جاسکتا ہے اور انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام کا بھی اور دونوں طرح سے یہ بات بھی صحیح ہو سکتی ہے صنف کے لحاظ سے فرشتہ محض ایک طاقت وقوت کا نام ہے لیکن اس میں اختیار و ارادہ نہیں اور انبیاء ورسل صنف کے لحاظ سے انسان ہیں اور باقاعدہ مستقل انسانی جسم رکھتے ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ وہ اختیار و ارادہ رکھنے کے باوجود اپنا اختیار و ارادہ استعمال نہیں کرتے اور یہی ان کا کمال ہے جو ان کو فرشتوں پر بھی فوقیت عطا کردیتا ہے کہ وہ من حیث الجنس تو انسان ہوتے ہیں لیکن اپنے اوصاف کے لحاظ سے فرشتوں پر بھی سبقت لے جاتے ہیں ۔ بہرحال آیت 28 سے دوبارہ بات انبیاء ورسل کی طرف منتقل کی جا رہی ہے جس میں قرینہ سوائے اس اختیار و ارادہ کے اور کچھ نہیں اس لئے اس میں یہ غلطی لگنے کا امکان ہے کہ آیا اس سے مراد انبیاء ورسل ہیں یا فرشتے یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے اس جگہ گزشتہ مضمون کی وجہ سے آیت 28 اور 29 دونوں کو بھی فرشتوں ہی کے متعلق بیان کیا ہے لیکن ہمیں اس میں تردد ہے کیونکہ جو ہئیت و صورت فرشتوں کی قرار دی گئی اس کی مطابقت یہ مضمون نہیں کرتا لہذا ہم یہی سمجھتے ہیں کہ آیت 28 ‘ 29 دونوں فرشتے نہیں بلکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام ہیں اور اب ان کے متعلق آنے والی دو آیتوں میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے پیچھے چونکہ ملائکہ کا ذکر نہ رہے ۔ ملائکہ کا لفظ جمع ہے اس کا واحد ملک ‘ ملاک اور مالک ہے اور یہ لفظ تینوں طرح سے مستعمل ہے اس کے لغوی معنی ” قاصد “ اور ” رسول “ کے ہیں اس لئے قرآن کریم میں ملائکہ کے لئے ” رسل “ کا لفظ بھی آیا ہے جس کے معنی قاصد اور پیغام رساں کے ہیں ، ان سے مراد غیر مادی مخلوق اور ارواح ہی کے لئے جاسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع کام کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان کو ایک طاقت اور قوت سے تعبیر کیا ہے ۔ مثال کے طور پر یہ عالم ایک مشین تصور کرلیا جائے تو ملائکہ اس کا انجن اور اس کے کل پرزوں کو حرکت دینے والی قوتیں تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ تمثیل کا مطلب صرف ایک بات کو ذہن نشین کرانا ہی لیا جاسکتا ہے نہ کہ عین حقیقت گویا وہ خالق اور اس کی مخلوق کے درمیان پیام رسانی اور سفارت کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور وہ مکمل طور پر بےاختیار و محکوم کی طرح اس کی مخلوقات میں جاری اور نافذ کرتے ہیں ، ان کا نہ کوئی اختیار و ارادہ ہے اور نہ ہی وہ اختیار و رادہ کے متحمل ہیں ۔ وہ سرتاپا اطاعت ہیں اور اللہ رب العلمین کے حکم سے سرمو تجاوز نہیں کرتے گویا ان کی تخلیق ہی اطاعت وفرمانبرداری کے لئے کی گئی ہے دنیا پر رحمت یا عذاب جو کچھ بھی نازل ہوتا ہے وہ انہی کے ذریعے سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں پر جو احکام اتارتا رہا ہے وہ بھی انہی کی وساطت سے نازل کرتا رہا ہے ۔ دنیا کے تمام مذاہب بلکہ قدیم یونانی مصری فلسفہ میں بھی اس قسم کی ہستیوں کا وجود تسلیم کیا گیا ہے ، صائبی مذہب میں یہ ستاروں اور سیاروں کی صورت میں مانے گئے ہیں ‘ یونانی مصری (اسکندری) فلسفہ میں ان کا نام ” عقول عشرہ “ (دس عقلیں) رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی نو آسمانوں کے اندر بھی الگ الگ ذی ارادہ نفوس تسلیم کئے گئے ہیں بلکہ خالص یونانی فلسفہ میں بھی غیر ارواح مجردہ کا پتہ لگتا ہے ‘ جن میں سب سے اہم لوگس کا تخیل ہے ‘ جس سے مقصود اولین ہستی ہے جس کو خدا نے تمام کائنات کی پیدائش کا ذریعہ اور واسطہ قرار دیا ہے اور جس کو اہل فلسفہ عقل اول سے تعبیر کرتے ہیں ‘ پارسیوں میں ان ہستیوں کا نام امشاسپند ہے اور ان کی بیشمار تعداد قرار دی گئی ہے ‘ یہودی ان کو ” کروبیم “ کہتے ہیں اور ان میں سے خاص خاص کے نام جبریل اور میکائیل وغیرہ رکھتے ہیں ‘ عیسائی بھی ان کو انہی ناموں سے یاد کرتے ہیں اور جبریل وروح القدس وغیرہ الفاظ سے بعض کی تعبیر کرتے ہیں ‘ ہندوؤں میں وہ دیوتاؤں اور دیبیوں کے نام سے روشناس ہیں ‘ جاہل عرب ان کو خدا کی بیٹیاں کہہ کر پکارتے تھے ‘ بہرحال یہ تمام مختلف صحیح اور غلط نام ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں ‘ جس سے مراد وہ روحانی وسائط ہیں ‘ جو صانع ومصنوعات اور خالق و مخلوقات کے درمیان اس کے حکم کے مطابق عمل پیرا اور کار فرما ہیں ۔ مذاہب سابقہ میں ان غیر مادی ذی روح مخلوق ہسیتوں کی حیثیت نہایت مشتبہ تھی ‘ وہ کبھی مخلوق کہی جاتی تھیں اور کبھی خدائی کے مرتبے تک بھی بلند کردی جاتی تھیں اور ہندوؤں کے دیوتاؤں اور ہندوؤں کے دیوتاؤں اور دیبیوں کی یہی کیفیت تھی ‘ پارسیوں میں امشاسپند کا بھی یہی حال تھا کہ کبھی ان کی حیثیت فرشتوں کی رہتی تھی ‘ کبھی وہ خدا کے مقابلے بن جاتی تھیں اور کبھی خود خدا ان میں سے ایک ہوجاتا تھا ‘ ہندوؤں کی طرح پارسیوں میں بھی وہ قابل پرستش سمجھی جاتی تھیں ‘ ان کے نزدیک سب سے عالی رتبہ امشاسپند 6 تھے اور ان کے تحت میں 33 ‘ پھر ان میں سے ہر ایک کے ماتحت ہزاروں تھے اور چونکہ پارسی نیکی اور بدی کے دو متقابل خداؤں کے قائل تھے اس لئے دونوں کے ماتحت اچھے اور برے فرشتوں کی بیشمار تعداد تھی ‘ نیکی کے فرشتے براہ راست نیکی کی چیزوں کو اور برائی کے فرشتے مصیبتوں اور ہلاکتوں اور برائیوں کو دنیا میں پیدا کرتے تھے اور اپنے اپنے خدا کی طرف سے ان اشیاء پر حاکم سمجھے جاتے تھے ‘ دونوں خدا اپنی اپنی فوجوں اور لشکروں کے پرے لے کر باہم نبرد آزما رہتے تھے ‘ یہ بھی ان کا اعتقاد تھا کہ ہر امشاسپند یا نر فرشتہ کے ساتھ ایک یزد یعنی مادہ (فرشتہ) بھی ہوتی تھی ‘ جو اس کی بیوی تھی ‘ ہندوؤں میں نر دیوتاؤں اور مادہ دیبیوں کا تصور تھا ‘ مگر ان نرو مادہ ہستیوں میں کسی نر کو کسی مادہ سے خصوصیت خاص نہ تھی بلکہ ہر ایک جنس کا ہر فرد دوسری جنس کے ہر فرد سے لطف اندوز ہو سکتا تھا یہودیوں میں فرشتوں کی حیثیت کی ایسی تھی کہ ان کی تقدیس اور ثناوصفت خدا سے مشتبہ ہوجاتی تھی ‘ نظر آنے والے فرشتہ کی تعظیم کی جاتی تھی ، اس کے آگے جھکا جاتا تھا اور اس کو خداوند کہہ کر اس طرح خطاب کیا جاتا تھا کہ کہیں یہ شبہہ ہوجاتا ہے کہ خدا مخاطب ہے یا فرشتہ (تکوین 16۔ 13 ‘ 18 ‘ 2 ‘ 3 ‘ 22) وہ کبھی کبھی خدا کے بیٹے بھی کہے جاتے تھے ۔ (تکوین) عیسائیوں میں ان میں سے بعض روح القدس خدا کا ایک جز و تسلیم ہو کر تثلیث کارکن ہے ۔ صائبیوں میں فرشتوں کی قربانی کی جاتی تھی ‘ ان کے ہیکل بنائے جاتے تھے اور ان کو مظہر خدا تسلیم کیا جاتا تھا ‘ عربوں میں فرشتے مادہ سمجھے جاتے تھے ‘ وہ خدا کی بیٹیاں کہہ کر پکارے جاتے تھے ‘ ان کی پرستش ہوتی تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ خدا کے دربار میں سفارشی ہوں گے یونانیوں میں عقل اول اور عقول عشرہ تمام عالم کے خالق ‘ کارفرما اور مرجع کل مانے گئے اور خدا کو معطل ٹھہرایا گیا ۔ اسلام نے آکر ان تمام عقائد کو مٹا دیا ‘ خدائی اور ربوبیت کی ہر صفت سے فرشتے محروم بتائے گئے ان کی پرستش ناجائز کی گئی ‘ نرومادہ کی مادی جنسیت سے وہ پاک کئے گئے اور انسانوں کو ان پاک مخلوقات کی غلامی و بندگی سے آزاد کیا گیا ‘ ان کی تعداد و شمار اور درجہ بندی کا کوئی تخیل باقی نہیں رکھا گیا ‘ ان کی ہستی خدائے تعالیٰ کے سامنے ایک سراپا مطیع وفرمانبردار غلام کی قرار دی گئی جس کا کام شب وروز صرف آقا کا حکم بجا لانا ہے ‘ عالم میں ان کا کسی قسم کا تصرف نہیں مانا گیا اور نہ نیکی وبدی کی دو تقسی میں کی گئیں نہ وہ الگ الگ جنس مخلوقات کے حاکم ومنتظم قرار دیئے گئے ‘ قرآن میں ان کی ہستی صرف اس قدر تسلیم کی گئی ہے کہ وہ غیر مادی ذی روح مخلوقات ہیں جن کا کام خدا کی حمد وثنا اور اطاعت وفرمانبرداری ہے ‘ خالق اور اس کے مخلوقات کے درمیان وہ پیغام رسانی کا ذریعہ ہیں ‘ خدا کے حکم کے مطابق وہ مخلوقات کے کارخانہ کو چلا رہے ہیں لیکن اس چلانے میں خود انکی ذاتی مرضی اور ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہے ‘ اسی لئے قرآن پاک نے یہودیوں کی طرح ان کو خداوند کا خطاب نہیں دیا ‘ نہ پارسیوں کی طرح ان کو قابل پرستش کے لقب سے یاد کیا ‘ نہ ہندوؤں کی طرح دیو اور دیوتادیبی کہا بلکہ صرف ” ملک “ اور رسول کے الفاظ استعمال کئے جن کے لفظی معنی فرستادہ ‘ قاصد ‘ پیغام رساں اور ایلچی کے ہیں بلکہ قرآن نے آغاز خلقت انسانی کے قصہ میں یہ حقیقت واضح کردی کہ ملائکہ اس لائق نہیں کہ آدم ان کو سجدہ کرے بلکہ آدم میں یہ صلاحیت ہے کہ ملائکہ کا مسجود بنے ‘ چناچہ اس کو مرتبہ علم میں ان سے بالاتر ٹھہرایا گیا اور خدا کی جس تسبیح اور تقدیس کا ان کو دعوی تھا اس کے باوجود جب انسان کا جوہر طبیعت انہوں نے پہچانا تو ان کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ : (آیت) ” سبحنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم “۔ (البقرہ 2 : 32) ” تو پاک ہے ‘ ہم کو کوئی علم نہیں لیکن جو تو نے ہم کو سکھایا بیشک تو جاننے والا اور حکمت والا ہے ۔ اس قصہ نے شروع ہی میں یہ واضح کردیا کہ وہ ہستیاں جن کو دوسرے مذہب نے انسانوں کا دیوتا ‘ انسانوں کا خداوند اور کبھی خدا کا ہمسر اور متصرف مطلق قرار دیا تھا ‘ اسلام میں ان کی حیثیت انسان کے مقابلہ میں کیا ہے ؟ انسان اور فرشتے خدا کے سامنے برابر کے مخلوق اور بندے اور یکساں عاجز و درماندہ ہیں ‘ انسانوں کو مادی اشیاء پر حکومت بخشی گئی ہے کہ اپنے نفع ونقصان کے لئے ان سے کام لے سکیں اور ملائکہ کو اپنے حضور میں متعین فرمایا گیا ہے کہ آسمان و زمین اور پوری مملکت الہی میں خدا کے احکام کی تعمیل وتنقید کریں ۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اسباب وعلل کا ایک سلسلہ رکھا ہے جو ہر جگہ کار فرما نظر آتا ہے لوگ انہی ظاہری اسباب وعلل کو دیکھ کر دھوکا کھاتے اور ان کی پرستش کرنے لگتے ہیں مثلا آگ جلاتی اور روشن کرتی ہے ‘ اس کو دیکھ کر آتش پرست اور مادہ پرست یقین کرتے ہیں کہ خود آگ میں جلانے کی طاقت ہے لیکن فرق یہ ہے کہ آتش پرست کیونکہ وہ بھی یہ ایمان رکھتے ہیں کہ طاقت خود آگ کے اندر موجود ہے کچھ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جلانے کی طاقت آگ میں نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مستقل دیوتا یا فرشتہ ہے ‘ جو اس پر حکمران ہے ‘ یہ لوگ اس آگ کے فرما نروا کے سامنے جھکتے ہیں اسلام کے نظریہ توحید نے اس شرک کو بھی مٹایا اور بتایا کہ آگ اور آگ کا اگر کوئی فرشتہ ہے تو وہ کل کے کل اسی ایک رب العلمین اور فرمانروائے ارض وسما کے حکم کے تابع ہیں ‘ اسی کے آگے جھکنا چاہئے اور اسی کی بندگی کرنی چاہئے ۔ اسلام میں فرشتوں کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کا جواب ان نصوص سے مل سکتا ہے جو ان کے کاموں کے متعلق قرآن میں مذکور ہیں ‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے مراد وہ غیر مادی ذی روح ہستیاں ہیں جو احکام خداوندی اور پیغام الہی کو دنیائے خلق تک پہنچاتے اور نافذ کرتے ہیں اور وہ اسباب وعلل جن کو مادہ پرست ذاتی طور سے مؤثر جانتے اور جن کو بت پرست دیوتاؤں کا کرشمہ سمجھتے ہیں ان کو فرشتے احکام الہی کے مطابق کام میں لگاتے اور مرضی الہی کو پورا کرتے ہیں ۔ عقلی حیثیت سے یہ عقیدہ بھی اسی طرح قبول اور انکار کے قابل ہے ‘ جس طرح عقلیات کے دوسرے عقائد اور نظریئے ہیں جن کی تصدیق یا تکذیب عقل کی دسترس سے باہر ہے ‘ اس لئے اس عقیدہ کو یہ کہہ کر کوئی رد کرنے کی جرات نہیں کرسکتا کہ یہ خلاف عقل ہے بلکہ جس طرح قیاسیات اور عقلی نکتہ پردازی سے دوسری عقلی مباحث کا فیصلہ کیا جاتا ہے ویسا ہی یہاں بھی کیا جاسکتا ہے ایثار میں خصائص اور لوازم کے وجود اور ان کے اسباب وعلل کا مسئلہ عقلاء میں ہمیشہ اختلافات کا دنگل رہا ہے اور یہ معمہ آج بھی اسی طرح لایخل ہے جس طرح پہلے تھا اس کا حل سائنس کی مادی تحقیقات اور تجربوں کی طاقت سے باہر ہے اور فلسفہ بھی اس کی گتھی کے سلجھانے سے عاجز ہے ‘ اس لئے اگر حکمائے ملحدین کی شاہراہ سے الگ ہٹ کر اس کے حل کی کوئی صورت ارباب مذاہب نے نکالی ہے تو وہ محل اعتراض نہیں ہو سکتی اور نہ خلاف عقل کہی جاسکتی ہے ‘ کائنات کے حوادث میں جس طرح مادی علل واسباب کار فرما ہیں ‘ اسی طرح ان سے بالاتر روحانی علل واسباب بھی ساتھ ساتھ کار فرما ہیں اور ان دونوں قسم کے اسباب کے توافق سے حوادث کا وجود ہوتا ہے یہی سبب ہے کہ انسان اکثر مادی علل واسباب موجود ہونے یا نہ ہونے کے باوجود کامیاب یا ناکام ہوتا ہے اور اس کا نام بخت واتفاق رکھتا ہے حالانکہ مسئلہ علل واسباب کو مان لینے کے بعد بخت واتفاق کوئی چیز نہیں رہ جاتا یہی روحانی علل واسباب ہیں جن کا سر رشتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے ان فرشتوں کو سپرد کیا ہے ‘ جو فرمانبردار چاکروں کی حیثیت سے نظام عالم کو چلا رہے ہیں ‘ ہمارے اور دوسرے متکلمین اور حکماء کے اصطلاحات میں فرق یہ ہے کہ وہ ملائکہ کی تعبیر اسباب وعلل کے ” قوائے طبعی “ سے کرتے ہیں اور ہم ” قوائے روحانی “ سے ۔ اس تقریر کا یہ منشا نہیں ہے کہ اشیاء میں خواص و طبائع اور اس مادہ کی ملکیت میں مقررہ طبعی اصول وقوانین موجود نہیں ہیں بلکہ یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلی اندازہ (تقدیر) کے مطابق ہرچیز کے خصائص و طبائع اور اصول وقوانین مقرر کرکے ملائکہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کو ان ہی اصول و طبائع مقررہ کے مطابق چلاتے ہیں ۔ سمجھنے کے لئے اس کی صحیح مثال خود انسان بلکہ ہر جاندار ہنستی ہے ‘ مخلوقات کی دو قسمیں ہیں ذی روح اور غیر ذی روح ‘ ذی روح مخلوقات کے اکثر افعال وحرکات اس کی روح کی ارادی قوت کی وساطت سے انجام پاتے ہیں ، وہی روح اس کے ہاتھ پاؤں اور تمام اعظاء بلکہ ہر عضو کے ایک ایک رگ وریشہ پر حکمران اور مسلط ہے بایں ہمہ وہ روح اصول مقررہ کے تحت ہی اعضاء سے کام لیتی ہے اور ان اصول سے باہر نہیں جاتی اسی طرح غیر ذی روح اشیاء میں ابروباد سے لے کر دریا ‘ پہاڑ ‘ چاند اور سورج تک پر ارواح مقرر ہیں جو ان اشیاء سے خدا کے اصول مقررہ کے مطابق یکساں افعال وحرکات کا صدور کراتی ہیں جس طرح ہماری روح اپنے اعضاء اور اعضاء کے ذریعہ سے مادہ میں جو تغیرات پیدا کرتی ہے وہ اشیاء کے مقررہ خواص و طبائع کے سہارے پر کرتی ہے ‘ اسی طرح ملائکہ بھی انہی مقررہ خواص و طبائع کے ذریعہ اپنے مفروضہ فرائض انجام دیتے ہیں ۔ الغرض جس طرح ہمارے ارادی افعال اور حکم الہی کے درمیان ہماری انسانی ارواح ونفوس واسطہ ہیں اسی طرح تمام عالم مخلوقات اور کائنات کے افعال اور حکم الہی کے درمیان یہ ملکوتی ارواح اور نفوس مجردہ واسطہ ہیں اور جس طرح ہماری انسانی ارواح کی اس وساطت سے خدا کی حکومت علی الاطلاق پر کوئی اعتراض نہیں واقع ہوتا ‘ اسی طرح ان ملکوتی ارواح کی وساطت سے بھی خدا کی علی الاطلاق حکومت میں کوئی نقص نہیں واقع ہوتا ۔ یہیں سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے ارادی افعال میں اختلافات کی اتنی نیرنگیاں نظر آتی ہیں ‘ مگر ہمارے اور عالم کائنات کے جو نوعی افعال ہیں ان میں اختلافات اور نیرنگیوں کے بجائے یکسانی ‘ ہم رنگی اور عدم اختلاف پایا جاتا ہے ؟ کیونکہ انسان نے ارادہ پاکر کسی قدر ذاتی اختیار پا لیا ہے اور یہی ذاتی اختیار اس کے افعال اختیاری کی ذمہ داری ‘ باز پرس اور مؤاخذہ کی بنیاد ہے اور جس کی بناء پر وہ اپنی اطاعت کے ذریعہ سے ثواب اور عصیان کرکے عتاب کا مستحق ہوجاتا ہے مگر دنیا کی یہ ملکوتی ارواح مجردہ یعنی یہ ملائکہ ذاتی ارادہ اور اختیار سے تمامتر محروم ہو کر صرف اطاعت فرمانبرداری اور انقیاد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ‘ اس لئے ان میں عصیان ‘ تمرد ‘ سرکشی اور حکم الہی سے انحراف کی کوئی صلاحیت نہیں ہے ‘ اسی بناء پر اشیاء کے تمام نوعی افعال وحرکات اور خصائص میں یکسانی ‘ ہم رنگی اور عدم اختلاف پایا جاتا ہے ‘ یہی حقیقت ہے جو فطرت ‘ طبیعت اور نوعی خاصیت کی اصطلاحات کی صورتوں میں ہمارے لئے دھوکے اور اشتباہ کا باعث بن گئی ہے ۔ 1۔ اب ہم کو تعلیمات نبوی ﷺ یعنی آیات و احادیث سے ملائکہ کی حیثیت کو روشن کرنا چاہئے ‘ ملائکہ کی سفارت وپیام رسانی یعنی خالق کے احکام اور مرضی کو مخلوقات تک پہنچانا اور اس کام میں ان کا بےاختیار ہونا ان دو آیتوں سے ثابت ہوتا ہے ۔ (آیت) ” اللَّہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ (75) یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَإِلَی اللَّہِ تُرْجَعُ الأمُورُ (الحج 22 : 75 ‘ 76) ” خدا ہی ہے جو فرشتوں اور آدمیوں میں سے پیام رساں اور قاصد منتخب کرتا ہے بیشک خدا سننے کا حال جانتا ہے اور تمام کاموں کا مرجع خدا ہی ہے ۔ یعنی پیام رسانی اور سفارت کے سوا ان کو اصل حکم میں کوئی دخل نہیں ہے ‘ اختیارات سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور وہی تمام انتظامات کا مرجع کل ہے ، دوسری جگہ ہے : (آیت) ” الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلاً أُولِیْ أَجْنِحَۃٍ مَّثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ مَا یَشَاء ُ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ (1) مَا یَفْتَحِ اللَّہُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہُ مِن بَعْدِہِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (فاطر : 35 : 1 ‘ 3) ” حمد ہو اس اللہ کی جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور فرشتوں کو دو دو ‘ تین تین اور چار چار شہپر بازوؤں والے پیام رساں بنانے والا ہے ‘ وہ پیدائش میں جو چاہے بڑھا دے ‘ وہ ہرچیز پر قادر ہے ‘ وہ لوگوں کے لئے جو رحمت کھولے تو کوئی اس کا روکنے والا نہیں اور جو روک دے تو اس کے سوا کوئی چھوڑنے والا نہیں اور وہی غالب ودانا ہے ۔ “ اس آیت پاک میں بھی یہی حقیقت ظاہر کی گئی ہے کہ ملائکہ سفارت اور درمیانگی کے علاوہ اور کوئی اختیار نہیں رکھتے ‘ رحمت کے دروازوں کا کھولنے والا اور بند کرنے والا صرف اللہ ہے ۔ یہ تعلیم اس غلط عقیدہ کی تردید کرتی ہے کہ فرشتوں کو دنیا کی حکمرانی اور انتظامات میں کوئی ذاتی دخل ہے یا ان میں الوہیت یا ربوبیت کا کوئی شائبہ ہے یا وہ پرستش کے قابل ہیں یا انکی دہائی بھی پکارنی چاہئے ۔ 2۔ ملائکہ خدا کے احکام کو دنیا میں جاری کرتے ہیں ۔ (آیت) ” اذ یوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا “۔ (الانفال 8 : 12) ّ (یاد کر) جب تیرا پروردگار فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مومنوں کو ثابت قدم رکھو ۔ (آیت) ” تنزل الملئکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر “۔ (القدر 98 : 4) ” اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے حکم سے ہر کام کو لے کر نیچے اترتے ہیں ۔ وہ جس طرح احکام لے کر اترتے ہیں اسی طرح دربار الہی تک عروج بھی کرتے ہیں ۔ (آیت) ” تعرج الملئکۃ والروح الیہ “۔ (المعارج 40 : 4) ” فرشتے اور روح اس تک چڑھتے ہیں ۔ 3۔ موت کے وقت روح کا قبض کرنا انہی سے متعلق ہے ۔ (آیت) ” قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم “۔ (السجدہ 32 : 11) ” کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے وہ تم پر موت طاری کرے گا ۔ (آیت) ” ولو تری اذالظلمون فی غمرات الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم “۔ (الانعام 6 : 94) ” اور اگر تم دیکھو تم جب گنہگار موت کے سکرات میں ہو اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو پھیلائے ہوں کہ نکالو ‘ اپنی جانوں کو ۔ (آیت) ” ولو تری اذ یتوفی الذین کفروا الملئکۃ “۔ الانفال : 8 : 50) ” اور اگر دیکھو جب فرشتے کافروں کو موت دے رہے ہوں ۔ اس کے ہم معنی اور بھی کئی آیتیں ہیں جن سے ظاہر ہے کہ حکم الہی کے مطابق موت وفنا کی تدبیر علل واسباب کی انہی روحانی قوتوں سے متعلق ہے ۔ 4۔ دنیا میں کسی شے کے وجود انقلاب اور فنا کے لئے کسی ایک علت وسبب کا وجود کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے متعلق علل واسباب کی تمام کڑیاں باہم پیوستہ اور ایک دوسرے کی معاون ہوں اور موانع اور عوائق معدوم ہوں ‘ یہ متعلقہ علل واسباب کا توافق اور موانع کا انسداد ہی تدبیر ہے جو بحکم الہی ملائکہ کے سپرد ہے ‘ اس تدبیر کو کبھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب کرتا ہے ۔ (آیت) ” یدبر الامر “۔ (وہ کام کی تدبیر کرتا ہے) اور کبھی ملائکہ کی طرف ۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکہ) (آیت) ” وَالنَّازِعَاتِ غَرْقاً (1) وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطاً (2) وَالسَّابِحَاتِ سَبْحاً (3) فَالسَّابِقَاتِ سَبْقاً (4) فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْراً (النازعات 79 : 1 تا 5) ” ڈوب کر (روحوں کے) کھینچنے والوں کی قسم ہے (لوگوں کی) گرہوں کے کھولنے والوں کی قسم ہے (اس فضائے آسمانی میں) تیرنے والوں کی پھر دوڑ کر (مادی اسباب وعلل پر سے) آگے بڑھ جانے والوں کی پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم ہے ۔ یہی ملائکہ اللہ اور رسول کے درمیان بھی سفیر ہیں ۔ (آیت) ” اویرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشآئ “۔ (الشوری 42 : 15) ” یا اللہ (آدمی سے اس طرح باتیں کرتا ہے کہ اپنا) ایک ایک سفیر بھیجتا ہے تو وہ اس (اللہ) کی اجازت سے جو وہ (اللہ) چاہتا ہے وحی کرتا ہے ، دوسری جگہ ہے : (آیت) ” ینزل الملئکۃ بالروح من امرہ علی من یشآء من عبادہ “۔ (النحل 16 : 2) ” اللہ روح کے ساتھ فرشتوں کو اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے ‘ اتارتا ہے ۔ خاص آنحضرت ﷺ کے متعلق ہے : (آیت) ” فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ “۔ (البقرہ 2 : 97) ” بس اس (جبریل فرشتہ نے قرآن) کو اللہ کے حکم سے تمہارے دل پر اتارا۔ یہ لوگوں پر بشارت اور عذاب لے کر بھی اترتے ہیں ۔ (آیت) ” ولقد جاءت رسلنا ابراھیم بالبشری “۔ (ھود 11 : 69) ” ہمارے سفیر ابراہیم (علیہ السلام) کے بشارت دی : اسی طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہ السلام) کو انہوں نے بشارت دی : (آیت) ” انما انا رسول ربک لاھب لک غلاماز کیا “۔ (مریم 19 : 19) ” میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں کہ تجھے ایک پاک لڑکا بخشوں ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس ان کی قوم کی بربادی کے لئے آئے اور : (آیت) ” قالوا یا لوط انا رسل ربک “۔ (ھود 11 : 81) ” کہا اے لوط ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد یہ فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر کوہ آتش فشان کا منہ کھول دیتے ہیں اور تمام قوم برباد ہوجاتی ہے یہ کام اگرچہ فرشتوں نے انجام دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ وہ فرشتوں کے ذاتی اختیار کے بجائے خدا ہی کے حکم سے ہوا تھا ۔ (آیت) ” فلما جآء امرنا جعلنا عالیھا سافلھا وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل منضود “۔ (ھود 11 : 82) ” تو جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے اس کے اوپر کو نیچے کردیا (یعنی زمین الٹ دی) اور اس پر تہہ بہ تہہ پتھروں کی بارش کی ۔ 5۔ فرشتے انسانوں کے اعمال کی نگہبانی اور نگرانی کرتے ہیں اور ان کے ثواب و گناہ کے کاموں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ (آیت) ” وان علیکم لحفظین ، کرام کاتبین ، یعلمون ما تفعلون “۔ (انفطار 82 : 10 تا 12) ” بیشک تم پر نگہبان ہیں جو بزرگ ہیں لکھنے والے ہیں ‘ جو کچھ تم کرتے ہو ‘ اس کو وہ جانتے ہیں۔ (آیت) ” مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید “۔ (ق 50 : 18) کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا لیکن اس کے پاس ایک نگہبان حاضر ہے ۔ (آیت) ” سَوَاء مِّنکُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَہَرَ بِہِ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّہَارِ (10) لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ أَمْرِ اللّہِ إِنَّ اللّہَ (الرعد 13 : 11) ” تم میں سے کوئی بات چھپا کر کہے یا زور سے کہا یا وہ رات میں چھپے یا دن کو کرے ‘ اللہ کے تعاقب کرنے والے اس کے سامنے سے اور اس کے پیچھے سے اللہ کے حکم سے اس کی نگرانی کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ویرسل علیکم حفظۃ حتی اذا جآء احدکم الموت توفتہ رسلنا وھم لا یفرطون “۔ (الانعام 6 : 61) ” اور وہ (اللہ) تم پر نگران بھیجتا ہے یہاں تک کہ تم میں سے جب کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے قاصد اس کی عمر پوری کرتے ہیں اور وہ اپنے اس کام میں کمی نہیں کرتے ۔ 6۔ وہ انسانوں کے اعمال کے مطابق ان پر اللہ کی رحمت یا لعنت کے نزول کا ذریعہ اور واسطہ ہیں : (آیت) ” لا یحزنھم الفزع الا کبر وتتلقھم الملئکۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون “۔ (الانبیائ 21 : 103) ” نیکوکاروں کی وہ بڑی گھبراہٹ (قیامت) غمگین نہ کرے گی اور فرشتے ان کا آگے بڑھ کر استقبال کریں گے (کہ) یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ (آیت) ” إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ “۔ (41 : 30 ، 31) ” جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے یہ کہتے ہوئے اتریں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشخبری سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ہم ہیں جو تمہاری پہلی اور دوسری زندگی میں تمہارے رفیق ہیں ۔ (آیت) ” ھو الذی یصلی علیکم وملئکۃ “۔ (الاحزاب 33 : 43) ” وہی اللہ تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے ۔ (آیت) ” ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی “۔ (الاحزاب 33 : 56) ” اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔ (آیت) ” ویستغفرون لمن فی الارض “۔ (الشوری 42 : 5) ” اور جو زمین میں ہیں ان کے لئے وہ اللہ سے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں ۔ اسی طرح وہ بدکاروں پر لعنت بھی کرتے ہیں : (آیت) ” اولئک جزآؤھم ان علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین “۔ (ال عمران 3 : 87) ” ان کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی لعنت ہے ۔ (آیت) ” ان الذین کفروا وما توا وھم کفار اولئک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین “۔ (البقرہ 2 : 161) ” جو کفر کی حالت میں مر گئے ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی لعنت ہے ۔ 7۔ جنت اور دوزخ کا کاروبار بھی ملائکہ کے زیر اہتمام ہوگا : (آیت) ” وسیق الذین کفروا الی جھنم زمرا حتی اذجاء وھا فتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا الم یاتکم رسل منکم “۔ (الزمر 39 : 71) ” اور کفر کرنے والے گروہ در گروہ کرکے دوزخ کی طرف لے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے چوکیدار (فرشتے) کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے ۔ (آیت) ” وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ حتی اذجاء وھا فتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا سلم علیکم طبتم فادخلوھا خالدین “۔ (الزمر 39 : 73) ” اور جو اپنے پروردگار سے ڈرتے تھے وہ گروہ در گروہ جنت میں لے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے پاسبان کہیں گے تم پر سلامتی ہو خوش خوش جنت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ ۔ (آیت) ” والملئکۃ یدخلون علیھم من کل بات ، سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار “۔ (الرعد 13 : 23 ، 24) ” اور ان (جنتیوں) پر فرشتے ہر دروازہ سے داخل ہو ہو کر کہیں گے ‘ تم پر سلامتی ہو یہ تمہارے صبر کا بدلہ ہے یہ کیسا اچھا عاقبت کا گھر ہے ۔ (آیت) ” علیھا ملئکۃ غلاظ شداد “۔ (تحریم 66 : 6) ” اور ہم نے دوزخ کا اہلکار فرشتوں ہی کو بنایا ہے ۔ 8۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ قدس کے حاضر باش ہیں : (آیت) ” وتری الملئکۃ حآفین من حول العرش یسبحون بحمد ربھم “۔ (الزمر 39 : 75) ” اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش کے ارد گرد احاطہ کئے ہوئے ہیں پروردگار کی حمد وثنا میں مصروف ہوں گے ۔ (آیت) ” لا یسمعون الی الملا الاعلی “۔ (الصافات 37 : 8) ” اعلی اہل دربار کی باتیں وہ (شیاطین) نہیں سن سکتے ۔ (آیت) ” ماکان لی من علم بالملا الاعلی اذ یختصمون “۔ (ص 38 : 69) ” مجھے اللہ کے بلند درباریوں کا علم نہیں جب وہ باتیں کرتے ہیں ۔ قیامت کے دن بھی یہ تخت الہی کے حامل اور اس بارگاہ کے حاضر باش ہوں گے جو ہر وقت اس کے ہر حکم کو بجا لانے کے لئے تیار رہیں گے ۔ (آیت) ” والملک علی ارجائھا ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمنیۃ “۔ (الحاقہ 69 : 17) ” اور فرشتے اس کے کنارے پر ہوں گے اور تیرے پروردگار کے تخت کو آٹھ (فرشتے) اس دن اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے ۔ (آیت) ” کلا اذا دکت الارض دکا دکا ، وجآء ربک والملک صفا صفا “۔ (الفجر 89 : 21 ، 22) ” ہرگز نہیں جب زمین ریزہ ریزہ کردی جائے گی اور تیرے رب تشریف فرما ہوگا اور فرشتے قطار در قطار آئیں گے ۔ (آیت) ” یوم یقوم الروح والملٓئکۃ صفا “۔ (النبائ 78 : 38) ” جس دن روح اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے ۔ 9۔ فرشتے اللہ سے سرکشی اور اس کی نافرمانی نہیں کرتے ہمیشہ اس کی تہلیل و تقدیس اور حمد وثنا میں مصروف رہتے ہیں اس کے جلال وجبروت سے ڈرتے اور کانپتے رہتے ہیں اور اس کے حضور میں اہل زمین کے لئے عموما اور نیکوکاروں کے لئے خصوصا مغفرت کی دعا مانگا کرتے ہیں ۔ (آیت) ” والملئکۃ یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض الا ان اللہ ھو الغفور الرحیم “۔ (الشوری 42 : 5) ” اور فرشتے حمد کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور زمین والوں کی بخشائش کی دعا مانگا کرتے ہیں ہوشیار کہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا اللہ ہی ہے ۔ ” یعنی یہ دھوکا نہ ہو کہ فرشتوں کی دعا ہی رحمت و برکت کا ذاتی سبب ہے بلکہ بخشش اور رحمت کرنے والا صرف وہی خدائے واحد ہے اور یہ بخشش ورحمت اسی کے لئے دست اختیار میں ہے ۔ (آیت) ” الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم ویؤمنون بہ ویستغفرون للذین امنوا “۔ (ال مومن 40 : 7) ” جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہیں اور جو اس کے پاس ہیں وہ سب اپنے پروردگار کی حمد اور تسبح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کی بخائش کی دعا کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ولہ من فی السموت والارض ومن عندہ لا یستکبرون عن عبادتہ ولا یستحسرون ، یسبحون الیل والنھار لا یفترون “۔ (الانبیاء 21 : 19 : 20) ” آسمانوں میں اور زمین میں جو کوئی ہے اسی کا ہے اور جو اس کے پاس ہے (یعنی فرشتے) وہ اس کے سامنے اپنی عبودیت کے اظہار سے غرور نہیں کرتے اور نہ اس کی عبادت سے تھکتے ہیں وہ رات دن اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور سست نہیں پڑتے ۔ (آیت) ” بل عباد مکرمون ، لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون ، وھم من خشیتہ مشفقون “۔ (الانبیائ 21 : 26 تا 28) ” بلکہ وہ بزرگ بندے ہیں جو بات میں اس (اللہ) پر پیش دستی نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں اور وہ اس کے خوف سے ترساں رہتے ہیں ۔ (آیت) ” لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون مایؤمرون “۔ (التحریم 66 ، 6) ” اللہ ان کو جس بات کا حکم دیتا ہے وہ اس میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انکو حکم دیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” ویسبح الرعد بحمدہ والملئکۃ من خیفتہ “۔ (الرعد 13 : 13) ” اور بجلی کی کڑک اور فرشتے اللہ کے ڈر سے اس کی حمد وتسبیح کرتے ہیں ۔ (آیت) ” وللہ یسجد مافی السموات وما فی الارض من دآبۃ والملئکۃ وھم لا یستکبرون ، یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون مایؤمرون “۔ (النحل 16 : 49 ، 50) ” اور آسمانوں میں اور زمین میں جو چارپائے اور فرشتے ہیں وہ سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی بڑائی نہیں کرتے وہ اپنے مالک سے جو ان کے اوپر ہے ‘ ڈرتے رہتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے ۔ گزر چکا ہے کہ ملائکہ کا اعتقاد دنیا کے تمام مذہبوں اور قوموں میں کسی نہ کسی طرح رہا ہے لیکن ان کے اس اعتقاد میں بہت سی باتیں ایسی داخل تھیں جو توحید کامل کے منافی تھیں ‘ اسکندریہ کے تو افلاطوفی فلسفہ کی رو سے عقل اول کی اضطراری پیدائش کے بعد خدا کو معطل ہوجانا پڑا اور فرشتوں کو عقول کی صورت میں اصلی کار فرما قرار دیا گیا تھا ‘ عراق کے صائبی اجرام سماوی کی شکل میں ان کی پرستش کرتے تھے اور ان ہی کو عالم کا فرمانروا مانتے تھے ‘ یہود بھی ان کو کسی قدر صاحب اختیار تصور کرتے تھے اور کبھی کبھی ان کو خداؤں کا درجہ دیتے تھے جیسا کہ (توراۃ وصحیفہ تکوین 16۔ 13۔ 18۔ 2 ‘ 3 ‘ 22) کے قصوں میں کہیں کہیں نظر آتا ہے ‘ ان کو وہ ” خدا کے نبیوں کے خطاب سے بھی کبھی کبھی یاد کرتے تھے (تکوین 276) ہندوؤں میں دیوتا اور دیبی بن کر ایک طرف انسانی خصائص سے ملوث تھے اور دوسری طرف اپنے ذاتی اختیارات کے لحاظ سے چھوٹے خداؤں کے مرتبہ پر بھی فائز تھے ‘ عیسائی ان میں سے بعض مثلا روح القدس کو خدا کو ایک جزو تسلیم کرتے تھے اور یہ تثلیث کا ایک رکن تھا ‘ عربوں میں فرشتے اللہ کی بیٹیوں کا درجہ رکھتے تھے وہ ان کی پوجا کرتے اور ان کو اپنے گناہوں کا شفیع سمجھتے تھے ۔ ” تعلیم محمدی ﷺ نے ان تمام عقائد باطلہ کو مٹا دیا اور ایک ایک کرکے ان میں سے ہر عقیدہ کی تردید کردی اور بتایا کہ فرشتے بھی اللہ کی دوسری مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں ‘ انکو خدائی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ‘ وہ صرف اللہ کی اطاعت ‘ عبادت اور اس کے احکام کی بجا آوری میں مصروف رہتے ہیں ‘ ان میں سے جس کے جو کام سپرد ہے وہ اسی کو انجام دیتا ہے ‘ وہ ہماری ہی طرح بندہ محض ہیں ‘ وہ نہ عبادت کے مستحق ہیں ‘ نہ اللہ کے بےاذن وہ شفاعت کا ایک حرف زبان سے نکال سکتے ہیں اور نہ وہ اللہ کے سامنے کچھ عرض کرنے کی جرات کرسکتے ہیں ‘ یہودی ان کو اللہ کے بیٹے اور عرب اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ قرآن کریم نے دونوں کی تردید کی اور بتایا کہ وہ انسانی خصائص اور میلانات سے پاک ہیں ‘ وہ نہ مرد ہیں نہ عورت ہیں ‘ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں اور نہ خدائی کا دعوی کرسکتے ہیں ‘ وہ اللہ کے خوف سے ہمیشہ کانپتے اور لرزتے رہتے ہیں ۔ (آیت) ” وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً سُبْحَانَہُ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُونَ (26) لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُم بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ (27) یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَی وَہُم مِّنْ خَشْیَتِہِ مُشْفِقُونَ (28) وَمَن یَقُلْ مِنْہُمْ إِنِّیْ إِلَہٌ مِّن دُونِہِ فَذَلِکَ نَجْزِیْہِ جَہَنَّمَ کَذَلِکَ نَجْزِیْ الظَّالِمِیْنَ “۔ (الانبیائ 21 : 26 تا 29) ” مشرکوں نے کہا کہ مہربان خدا نے اپنا لڑکا بنایا ہے اور وہ اس سے پاک ہے بلکہ یہ (فرشتے) اس کے معزز بندے ہیں ‘ جو بات میں اس پر پیش دستی نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں اللہ اس سے جو ان کے آگے اور پیچھے ہوتا ہے واقف ہے ‘ وہ شفاعت نہیں کرتے لیکن اسی کی جس کے لئے خدا پسند کرتا ہے اور وہ خدا کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں اور ان میں سے جو یہ کہے کہ میں خدا ہوں تو اس کو بھی اسی طرح ہم جہنم کی سزا دیں گے ایسی ہی ہم ظالموں کو سزا دیتے ہیں ۔ (آیت) ” إِنَّمَا اللّہُ إِلَـہٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَہُ أَن یَکُونَ لَہُ وَلَدٌ لَّہُ مَا فِیْ السَّمَاوَات وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَفَی بِاللّہِ وَکِیْلاً (171) لَّن یَسْتَنکِفَ الْمَسِیْحُ أَن یَکُونَ عَبْداً لِّلّہِ وَلاَ الْمَلآئِکَۃُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَن یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ إِلَیْہِ جَمِیْعاً “۔ (النسائ 4 : 171 ، 172) ” خدا تو ایک ہی ہے وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے کوئی اولاد ہو آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اس کی ملکیت ہے وہ خدا کا وکیل ہونا کافی ہے ‘ مسیح (علیہ السلام) کو اس سے عار نہ ہوگا کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور نہ مقرب فرشتوں کو (اس سے عار ہے) اور جو لوگ اس کی عبادت سے عار اور غرور کریں گے تو وہ ان سب کو اپنے پاس اکٹھا کرے گا ۔ (آیت) ” ولا یامرکم ان تتخذالملئکۃ والنبین اربابا ایامرکم بالکفر بعد اذ انتم مسلمون “۔ (آل عمران 3 : 80) ” اللہ اس کا حکم تم کو نہیں دیتا کہ تم فرشتوں کو اور پیغمبروں کو خدا بناؤ کیا تم کو مسلمان ہونے کے بعد کفر کرنے کا حکم دے گا ۔ (آیت) ” وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ یَقُولُ لِلْمَلَائِکَۃِ أَہَؤُلَاء إِیَّاکُمْ کَانُوا یَعْبُدُونَ (40) قَالُوا سُبْحَانَکَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِہِم بَلْ کَانُوا یَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَکْثَرُہُم بِہِم مُّؤْمِنُونَ “۔ (سباء 34 : 41) ” اور جس دن وہ سب کو جمع کرے گا ‘ پھر فرشتوں سے کہے گا کہ کیا یہ مشرکین تمہیں کو پوجتے تھے ‘ وہ کہیں گے پاک ہے تو ‘ تو ہمارا والی ہے وہ وہ نہیں ہیں بلکہ وہ جنوں کو پوجتے تھے وہ اکثر ان ہی جنوں پر ایمان لائے ہیں۔ (آیت) ” یوم یقوم الروح والملئکۃ صفا لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمن وقال صوابا “۔ (النباء 69 : 38) ” جس دن روح اور فرشتے صف بستہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے تو کچھ بول نہ سکیں گے لیکن وہ جس کو وہ مہربان اجازت دے اور ٹھیک بات کہے ۔ (آیت) ” وکم من ملک فی السموات لا تغنی شفاعتھم شیئا الا من بعد ان یاذن اللہ لمن یشآء ویرضی “۔ (النجم 53 : 26) ” اور آسمانوں میں کتنے فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی لیکن اس کے بعد کہ اللہ جسے چاہے اجازت دے اور پسند کرے ۔ (آیت) ” أَفَأَصْفَاکُمْ رَبُّکُم بِالْبَنِیْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلآئِکَۃِ إِنَاثاً إِنَّکُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلاً عَظِیْماً (40) وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ہَـذَا الْقُرْآنِ لِیَذَّکَّرُواْ وَمَا یَزِیْدُہُمْ إِلاَّ نُفُوراً (41) قُل لَّوْ کَانَ مَعَہُ آلِہَۃٌ کَمَا یَقُولُونَ إِذاً لاَّبْتَغَوْاْ إِلَی ذِیْ الْعَرْشِ سَبِیْلاً (42) سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوّاً کَبِیْراً (43) تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِیْہِنَّ “۔ (بنی اسرائیل 17 : 40 تا 44) ” کیا تمہارے لئے اللہ نے بیٹیوں کو پسند کیا اور خود فرشتوں میں سے لڑکیاں اپنے لئے پسند کیں ‘ تم یقینا بہت بڑی بات منہ سے نکالتے ہو اور ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کر سمجھنے کی باتیں بیان کی ہیں لیکن یہ ان کی نفرت کو اور بڑھاتا ہے کہہ دو اے پیغمبر کہ اگر اس ایک خدائے برحق کے ساتھ اور بھی چند خدا ہوتے تو اس تخت والے خدا کی طرف وہ راستہ ڈھونڈتے (کہ اس کے ہاتھ سے حکومت چھین کر خود قبضہ کرلیں) یہ مشرک جو کہتے ہیں اللہ اس سے بلندو برتر ہے ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں سے وہ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں ۔ (آیت) ” وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثاً أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْأَلُونَ (19) وَقَالُوا لَوْ شَاء الرَّحْمَنُ مَا عَبَدْنَاہُم مَّا لَہُم بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلَّا یَخْرُصُونَ “۔ (الزخرف 43 : 20) ” اور ان مشرکوں نے فرشتوں کو جو رحمت والے خدا کے بندے ہیں عورتیں بنا دیا کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ‘ ہم انکی گواہی لکھیں گے اور ان سے اس کی باز پرس کی جائے گی اور انہوں نے کہا کہ اگر خدا چاہتا تو ہم ان (فرشتوں) کو نہ پوجتے ‘ انہیں اس کا (تحقیقی) علم نہیں وہ صرف اٹکل لگاتے ہیں ۔ قرآن پاک میں اس مفہوم کی اور بہت سی آیتیں ہیں مگر یہاں استقصاء مقصود نہیں ۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ فرشتے کھاتے پیتے بھی ہیں ‘ چناچہ توراۃ میں جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) (علیہ السلام) کے پاس فرشتوں کے آنے کا ذکر ہے یہ بھی مذکور ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے انکے لئے دعوت کا سامان کیا اور انہوں نے کھایا ۔ (تکوین 18 : 8) لیکن قرآن پاک نے اس قصہ کو دہرا کر یہ تصریح کردی ہے کہ فرشتے انسانی ضرورتوں سے پاک ہیں ۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے لئے دعوت کا سامان کیا مگر : (آیت) ” فلما را ایدیھم لا تصل الیہ نکرھم واوجس منھم خیفۃ قالوا لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط “۔ (ھود 11 : 70) ” جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتے تو ان کو وہ انجان معلوم ہوئے اور دل میں ڈرا ‘ انہوں نے کہا ‘ ڈرو نہیں ہم لوط کی قوم کی طرف (ان کے تباہ کرنے کے لئے) بھیجے گئے ہیں ۔ کفار قریش کا مطالبہ تھا کہ انسان کے بجائے کوئی فرشتہ پیغمبر بنا کر کیوں نہیں بھیجا گیا ‘ اس کے جواب میں کہا گیا : (آیت) ” ولو جعلناہ ملکا لجعلنہ رجلا وللبسنا علیھم ما یلبسون “۔ (الانعام 6 : 9) ” اور اگر ہم پیغمبر کو فرشتہ بنا کر بھیجتے تو (آدمیوں کے لئے) اس کو آدمی ہی بناتے اور جس شبہ میں اب ہم نے ان کو ڈالا ہے اسی میں وہ پھر بھی پڑے رہتے (یعنی یہی کہتے) کہ تم فرشتہ نہیں ہو بلکہ آدمی ہو۔ اس آیت اور دوسری آیتوں سے ملکوتیت اور بشریت کی قوتوں کا اختلاف ظاہر ہے ‘ تاہم فرشتے کبھی کبھی عارضی طور سے انسان کے مثالی لباس میں بھی جلوہ گر ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت مریم (علیہ السلام) وغیرہ کے قصوں میں ہے : (آیت) ” فتمثل لھا بشرا سویا “۔ (مریم 19 : 17) ” وہ فرشتہ ایک اچھے خاصے بشر کی مثالی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہی وہ صورت تھی جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے انسان ہونے کا دھوکا ہوا اور ان کے لئے دعوت کا سامان کیا ‘ مگر یہ دھوکہ جلد رفع ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ وہ انسان کی مثالی صورت میں فرشتے ہیں ۔ ان تمام تفصیلات کے بعد یہ غور کرنا ہے کہ فرشتوں پر ایمان لانے سے اسلام کا کیا مقصود ہے ؟ حقیقت میں ان سے دو باتیں مقصود ہیں ۔ 1۔ ایک یہ کہ اسلام سے پہلے بت پرست اقوام اور دوسرے اہل مذاہب میں ان فرشتوں کو خدائی کا جو مرتبہ دیا گیا تھا اس غلط عقیدہ کو مٹا کر یہ حقیقت ظاہر کی جائے کہ ان کی حیثیت بےاختیار محکوم بندہ کی ہے جب تک اس کی تصریح نہ ہوتی کلمہ احمد کی تکمیل ممکن نہ تھی ۔ 2۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ مادہ کے خواص و طبائع کو دیکھ کر مادہ پرست جوان مادی خواص و طبائع کی بالذات کارفرمائی کا یقین کرتے ہیں ‘ اس کا ازالہ کیا جائے کیونکہ یہی پتھر ان کی ٹھوکر کا باعث ہوتا ہے اور بالآخر خدا کے انکار تک ان کو لے جاتا ہے ‘ درحقیقت ان مادی خواص و طبائع پر روحانی اسباب مسلط ہیں ‘ جو خدا کے حکم سے اس کے مقررہ اصول کے مطابق نظام عالم کو چلا رہے ہیں ‘ مادہ اور اس کے خواص بالذات مؤثر نہیں بلکہ کوئی دوسرا ہے جو اپنے ارواح مجردہ کے ذریعہ سے ان کو مؤثر بناتا ہے ‘ اس عقیدہ سے مادیت کا بت ہمیشہ کے لئے ٹوٹ جاتا ہے ‘ غرض منزہ ‘ خالص اور مادی مخلوق کے درمیان احکام وشرائع کا نزول اور قدرت الہی کے افعال کا صدور ان ارواح مجردہ کے ذریعہ ہوتا ہے ‘ عام ادراک انسانی کے لئے ان قوتوں کا نام ملائکہ رکھ کر بات تفہیم کرا دی اور بلاشبہ یہ قوتیں انسانی روپ میں آ کر انسان نہیں بن جاتیں بلکہ قوتیں ہی رہتی ہیں جیسا کہ اوپر آیات کریمات میں وضاحت کردی گئی لیکن افسوس کہ مفسرین نے اس کو سمجھنے کی کوشش نہ کی یا بہت ہی کم کی ، اس جگہ اس کی وضاحت کردی گئی تاکہ ہر مقام پر وضاحت کی ضرورت نہ رہے ، یاد رکھنا قارئین عروۃ الوثقی کا اپنا کام ہے ۔
Top