Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 29
وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّیْۤ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِیْهِ جَهَنَّمَ١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّقُلْ : کہے مِنْهُمْ : ان میں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اِلٰهٌ : معبود مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَذٰلِكَ : پس وہ شخص نَجْزِيْهِ : ہم اسے سزا دیں گے جَهَنَّمَ : جہنم كَذٰلِكَ : اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ان میں سے اگر کوئی (ایسی جرأت کر بیٹھے اور) کہے اللہ کے سوا میں معبود ہوں تو اس کی پاداش میں ہم اسے جہنم کی سزا دیں ، ہم اس طرح ظلم کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں
ان میں سے بھی اگر کوئی اللہ کے سوا معبود بناتا تو اس کو ہم جہنم کی سزا دیتے : 29۔ یہ شرک کی تردید میں بات کہی جا رہی ہے کہ اگر ان رسولوں اور نبیوں میں سے بھی کوئی اس شرک کا مرتکب ہوتا تو ہم کبھی اس کو معاف نہ کرتے بلکہ سیدھا دوزخ میں اس کو گرا دیتے کیونکہ شرک اتنی بری چیز ہے اور اتنا بڑا ظلم ہے اس سے بڑی بری چیز اور اس سے بڑا کوئی اور ظلم نہیں ہو سکتا ، بلاشبہ ان بزرگ و برتر ہستیوں میں نہ ہی کوئی ایسا تھا اور نہ ہی ہو سکتا تھا جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا لیکن تاہم وہ انسان تھے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق تھے اور خالق کو حق ہے کہ وہ ان کا بیان اس زور دار الفاظ سے کرے کیونکہ لوگوں نے بدبختی کا نشانہ ان اللہ کے نیک بندوں کو بھی بنایا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کیا تھے ؟ ایک اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہی تھے لیکن عیسائیوں نے ان کو رسالت کے مقام سے اٹھایا اور اللہ میاں کے ساتھ داہنے ہاتھ اس کو بٹھا دیا اور یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ تین اقنوم مل کر ہی خدا بنتا ہے لہذا خدائی میں تیسرا حصہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کا ہے ، اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ یہ تم نے کیا بکواس کردی وہ تو اللہ کا نیک بندہ اور اس کی والدہ ماجدہ ایک محصنہ عورت تھی تم نے ان کو خدائی میں اس کا شریک کیسے بنا کھڑا کیا ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : (آیت) ” لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَآلُواْ إِنَّ اللّہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَن یَمْلِکُ مِنَ اللّہِ شَیْْئاً إِنْ أَرَادَ أَن یُہْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ وَمَن فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً “ ، (المائدہ 5 : 17) ” یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا خدا مریم کا بیٹا مسیح ہے اگر خدا مسیح ابن مریم اور کو اور اس کی ماں کو اور روئے زمین پر جتنے انسان بستے تھے سب کو ہلاک کردینا چاہے تو کون ہے جو اس کی بادشاہی میں دخل دینے کی جرات کرسکتا ہے ؟ “۔ ظاہر ہے کہ یہ مسیح (علیہ السلام) نے بات نہ کہی تھی اور نہ ہی کہہ سکتے تھے لیکن جب لوگوں نے ان کو خدا بنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کے لئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تاکہ ایسے کہنے والے لوگوں کو شرم آئے اور وہ اس شرکیہ اور کفریہ کلمہ سے توبہ کرلیں لیکن کیا عیسائیوں نے اس عقیدہ کو چھوڑ دیا ؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو آج بھی اس عقیدہ پر قائم ہیں بلکہ اب تو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی دبی زبان سے ان کی دیکھا دیکھی اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی شان میں وہی گستاخی شروع کردی ہے جو عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں کی اور قرآن کریم نے ان کی سخت تردید کرتے ہوئے یہ کلمات کہے جو اوپر درج کئے جا چکے ہیں ، عیسائیوں نے مسیح کو اللہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو کافر کہا کہ انہوں نے ایسا کہہ کر کفر کیا ہے ۔ ہمارے مسلمان کہلانے والے ایک فرقہ تشیع نے حضرت علی ؓ کو علی اللہ کہہ کر اللہ میاں کی جگہ پر لا بٹھایا اور بریلوی حضرات نے محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق بیان کیا کہ : ” تمام زمین ان کی ملک ہے ‘ تمام جنت ان کی جاگیر ‘ ملک السموات والارض حضور کے زیر فرماں ‘ جنت ونار کی کنجیاں آپ ﷺ کے دست اقدس میں دے دی گئیں ‘ رزق ‘ خوراک اور ہر قسم کی عطائیں حضور ﷺ ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں ‘ دنیا وآخرت حضور ﷺ کی عطا کا ایک حصہ ہیں۔ “ (بہار شریعت امجد علی جزء اول ص 15) گویا اب اللہ تعالیٰ کے پاس سوائے دکھ ‘ مصیبت اور موت کے کچھ نہیں رہا اور ان میں بھی رسول اللہ ﷺ کی مرضی ہے تو کام چل سکتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو مکمل اختیار ان کا بھی نہیں رہا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ع ۔ پکڑے خدا تو چھڑائے محمد ﷺ محمد ﷺ کے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکدا : اب شرک کس بلا کا نام ہے جس سے اتنی سختی کے ساتھ ڈرایا گیا ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ اس بات کا صاف صاف اعلان کر دو کہ : ” مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تو یکسوہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اس دین پر قائم کر دے اور ہرگز ہرگز مشرکوں سے نہ ہو اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان کرسکتی ہے اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا ۔ اگر اللہ تعالیٰ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے اتو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں وہ اپنے بندوں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ “ (یونس 10 : 105 تا 107) اور یہی بات زیر نظر آیت میں بھی بیان کی گئی ہے ” اور ان میں سے اگر کوئی ایسی جرات کرے (جس کا ہرگز کوئی امکان نہیں صرف شرک کی مذمت پر زور دینے کے لئے کہا جارہا ہے کہ “ کہے اللہ کے سوا میں معبود ہوں تو اس کی پاداش میں ہم اسے جہنم کی سزا دیں گے ہم اسی طرح ظلم کرنے والوں کو ان کے ظلم کا بدلہ دیتے ہیں ۔ “
Top