Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 2
مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ
مَا يَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس نہیں آتی مِّنْ ذِكْرٍ : کوئی نصیحت مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب سے مُّحْدَثٍ : نئی اِلَّا : مگر اسْتَمَعُوْهُ : وہ اسے سنتے ہیں وَهُمْ : اور وہ يَلْعَبُوْنَ : کھیلتے ہیں (کھیلتے ہوئے)
ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نصیحت کی باتیں پیہم آتی رہیں مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ انہوں نے جی لگا کر سنا ، وہ سنتے ہیں مگر اس طرح کہ وہ کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں
پروردگار کی طرف سے نصیحت تو پہیم آرہی ہے لیکن کوئی کان دھرنے والا بھی تو ہو : 2۔ مخاطبین اول کو کہا جارہا ہے کہ جو بات میں نے تم سے کہی ہے اس کو سن کر تم ششدر اور حیران وپریشان کیوں ہوگئے ہو نصیحت جو میں نے تمہارے سامنے پیش کی ہے یہ کوئی نئی اور انوکھی بات تو نہیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تو پہیم بہ نصیحت آتی رہی ہے اور کوئی نبی ورسول بھی ایسا نہیں گزرا جس نے تم کو اس کی خبر نہ دی ہو لیکن تم نے ہر ایک کے پیغام کو بھلا دیا اور تمہاری عادت میں یہ بات داخل ہوگئی کہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہو ۔ یہی بات تم نے اب بھی کی ہے اور اس پر تم قائم رہو گے بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پیغام آیا ہے میرا کام ہے کہ میں وہ تمہارے کانوں تک پہنچا دوں وہ میں نے پہنچا دیا لیکن ” اگر تم جی لگا کر سننا نہیں چاہتے اور اس طرح کھیل کود میں مصروف رہنا چاہتے ہو “ تو یہ تمہاری مرضی کی بات ہے اور آخر تم اپنی مرضی کب تک کرتے رہو گے ؟ نبی اعظم وآخر ﷺ نے اپنے آپ کو خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کیا تو مکہ کے لوگ اس پر طرح طرح کی باتین بنانے لگے وہ کہتے تھے کہ کیا رسول ہے جو بال بچے رکھتا ہے ‘ بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ‘ کھاتا پیتا ہے اور ہم جیسے انسانوں کی طرح بسر کرتا ہے آخر اس میں وہ بات کیا ہے کہ ہم اس کو اللہ کا رسول مان لیں ؟ ان کو جواب دیا جا رہا ہے کہ ہمارا یہ رسول کوئی نیا رسول نہیں اور اس پر اتارا گیا کلام بھی کوئی نیا کلام نہیں تم ہی بتاؤ کہ کیا اس سے پہلے جو رسول آئے وہ اس طرح کے انسان نہیں تھے اور وہ کھاتے پیتے نہیں تھے اور اس طرح وہ زندگی نہیں گزارتے تھے اور ان پر جو کلام نازل ہوا کیا وہ انسانوں کی زبان میں نہیں تھا اگر وہ سب انسان تھے اور ان پر جو کلام اترا وہ بھی انسانوں ہی کی زبان میں تھا جو وقت بولی جاتی تھی تو تم کو اس رسول پر آخر تعجب کیوں ہے ؟ اور اس پر جو کلام ہم نے نازل کیا ہے وہ کوئی نیا کلام نہیں بلکہ تمہاری اپنی زبان میں اتارا گیا ہے لیکن تم ہو کہ اس پر کان دھرنے کے لئے تیار ہی نہیں اور کھیل کود میں ایسے مصروف ہو کہ شاید تم کو اسی لئے پیدا کیا گیا ہے اور تمہاری زندگی کا اور کوئی مقصد ہی نہیں یہ بات ان کو اس وقت کے لحاظ سے کہی گئی تھی آج ہم من حیث القوم اس بات پر غور کریں کہ ہماری قوم کا کیا حال ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی نے سازش کرکے ہماری پوری قوم کو کھیل تماشا پر لگا دیا ہو اور ہم نے زندگی کا مقصد یہی سمجھ رکھا ہے ۔ غور کرو اور آگے چلنے سے پہلے صرف دو منٹ اس کو وقت دے کر سوچ لو کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سارا دن چوکے اور چھکے ہی گنتے رہتے ہوں اور ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہوں کہ کتنا سکور ہوا اور ہمارا کام کہیں فقط کھیلنا اور کھیل دیکھنا تو نہیں رہ گیا ؟ اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کریم کی اس آیت کے ترجمہ پر ایک بار دوبارہ نگاہ ڈال لیں اور اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ ہم مسلمانوں سے کیا مطالبہ کرتی ہے ۔
Top