Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 30
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ١ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا اَنَّ : کہ السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین كَانَتَا : دونوں تھے رَتْقًا : بند فَفَتَقْنٰهُمَا : پس ہم نے دونوں کو کھول دیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے حَيٍّ : زندہ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ : کیا پس وہ ایمان نہیں لاتے ہو
جو لوگ منکر ہیں کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دونوں (اپنی ابتدائی خلقت میں) ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جاندار چیزیں پیدا کردیں ؟ پھر کیا یہ یقین نہیں رکھتے ؟
مشرکین سے ایک سوال کہ زمین و آسمان اور ہرچیز کا پیدا کرنے والا کون ؟ 30۔ زیر نظر آیت میں اشارہ ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش اور ان کا قیام ‘ ان کی وسعت ‘ ان کے اندر مختلف قسم کے مادے ‘ ان دونوں کے درمیان اتنا بڑا خلا اور پھر خلا کے اندر ستارے اور سیارے جن میں سے بعض کی وسعت تمہاری زمین سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے اور پھر ان کے اندر طرح طرح کی مخلوق اور ان کی زندگی کی بقا کا سامان جس کی نہ انتہا اور نہ شمار کہ انسان کے احاطہ علم میں آئے کہ ان سب چیزوں کا پیدا کرنے والا اور اس سارے نظام کا پیدا کرنے کے بعد اس کا انتظام کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے کوئی ہے جس کے متعلق تم کہہ سکتے ہو کہ اس نے ان چیزوں میں سے کوئی چیز بنائی یا پیدا کی ہو یا ان میں سے کسی کا انتظام اس کے ذمہ ڈال دیا گیا ہو۔ جب ان باتوں میں سے کوئی تم اللہ کے سوا کسی دوسرے کے ذمہ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر اس کے ساتھ دوسروں کو شریک آخر کیوں اور کیسے کرتے ہو ۔ تعجب ہے کہ تمہاری بھینس جس نے بنائی اس کے اندر ایسا نظام پیدا کردیا کہ وہ ناکارہ چیزیں کھا کر اور ناپاک جوہڑ سے پانی پی کر تمہیں بہترین دودھ پیش کر رہی ہے لیکن جب اس کے تھنوں میں ذرا تمہاری ہی بداحتیاطی سے خون نکل آئے تو اس کو ٹھیک کرنے کے لئے اس نے مختلف ٹھیکہ دار تجویز کردیئے ہوں کہ فلاں علاقہ کا فلاں بزرگ ٹھیکہ دار ہے اگر تمہاری بھینس کے تھن میں سے خون آیا تو اس کو ملنا اور اس کو رشوت پیش کر دیناوہ تمہاری بھینس کے تھن کو ٹھیک کر دے گا ۔ آخر بیوقوفی اور بےعقلی نہیں تو اور اس کو کیا کہا جاسکتا ہے ۔ ” فرمایا اللہ اور ذات ہے جس نے آسمان و زمین کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے کی ہے جسے قرآن کریم میں ” دخان “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ دخان کے معنی دھوئیں کے ہیں یا ایسی بھاپ کے جو اوپر چڑھی ہوئی ہو ۔ فرمایا یہ مادہ دخانیہ ابتداء میں ملا ہوا تھا الگ الگ نہ تھا پھر اس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے جدا کردیئے گئے اور ان سے اجرام سماویہ کی پیدائش ظہور میں آئی ۔ اس کی تفصیل پیچھے سورة الاعراف کی آیت 54 ‘ سورة یونس کی آیت 2 اور سورة ہود کی آیت 7 میں بیان کی جا چکی ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں۔ ” اور پانی سے تمام جاندار چیزیں پیدا کردیں “۔ مطلب یہ ہے کہ آغاز آفرنیش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں زمین پر پانی نازل فرما دیا یا اس کی پیدائش فرما دی جو قیامت تک اس کرے کی ضروریات کے لئے اس کے علم میں کافی تھا وہ پانی زمین ہی کے نشیبی حصوں میں ٹھہر گیا جس سے سمندر اور بحیرے وجود میں آئے اور آب زیر زمین پیدا ہوا۔ اب یہ اس پانی کا الٹ پھیر ہے جو گرمی سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے ‘ اس کو بارشیں ‘ برف پوش پہاڑ ‘ دریا ‘ چشمے اور کنوئیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلاتے رہتے ہیں اور وہی بیشمار چیزوں کی پیدائش اور ترکیب میں شامل ہوتا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر اصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے ، شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ ایک قطرے کی کمی ہوئی ہے اور نہ ایک قطرے کا اضافہ ہی کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئی ۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی جس کی حقیقت آج ہر مدرسے کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے ایک دفعہ تو اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا لیکن وہ کون تھا جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اس قدر پانی بنا دیا ؟ اور کون ہے جو اب ان دونوں گیسوں کو اس خاص تناسب کے ساتھ نہیں ملنے دیتا جس سے پانی بنتا ہے ؟ جب کہ دونوں گیسیں اب بھی دنیا میں موجود ہیں اور پھر جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ ہوجانے سے روکے رکھتا ہے ؟ کیا منکرین خدا کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟ اور پھر یہ بات بھی اپنی جگہ حق اور واضح ہے کہ ہر جاندار کی زندگی کا انحصار اس پانی پر ہے اور نئی زندگیاں بھی اسی کے وجود سے وجود میں آرہی ہیں کیونکہ اس کو بھی پانی ہی کہا گیا ہے جس سے نئے اجسام معرض وجود میں آجاتے ہیں جس کے متعلق نبی اعظم وآخر ﷺ نے ” الماء من المائ “ کہہ کر اشارہ فرما دیا ۔ ” پھر کیا یہ یقین نہیں رکھتے “۔ گویا یہ سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے بعد بھی ان کو یقین نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہ ہیں کہ شرک سے باز نہیں آتے اور اس کی ترویج وترجمانی میں دن رات باتیں گھڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور شرک کے اڈوں میں آئے دونوں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے ۔
Top