Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 32
وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا١ۖۚ وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا السَّمَآءَ : آسمان سَقْفًا : ایک چھت مَّحْفُوْظًا : محفوظ وَّهُمْ : اور وہ عَنْ : سے اٰيٰتِهَا : اس کی نشانیاں مُعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
اور ہم نے آسمان کو ایک چھت کی طرح بنایا محفوظ ! مگر یہ لوگ اس کی نشانیوں سے رخ پھیرے ہوئے ہیں
آسمانوں کو ایک چھت کی طرح محفوظ بنا دیا گیا لیکن لوگ ان نشانات پر غور نہیں کرتے : 32۔ زمینی نشانات کے بعد دوبارہ آسمان کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے اور نصائح کا معاملہ اسی طرح چلتا رہتا ہے کہ ایک بات نصیحت آمیز کی جس کا تعلق بچپن کے ساتھ تھا لیکن معا اس کے بڑھاپے کی طرف ذہن چلا گیا اور پھر جو لوٹا تو جوانی کی طرف رخ پھر گیا اور اس طرح دوبارہ بات کرنے لگے تو پھر بچپنا اس کا یاد آگیا چونکہ انسان اکثر نصائح اور بہلاوے کی باتیں اسی طرح کرتا ہے لہذا یہی انداز اس جگہ اختیار کیا گیا ۔ اس جگہ آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جسے انسان شب وروز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بیحد و حساب ستارے روشن نظر آتے ہیں جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہوتی ہے لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے ہوتی ہے جو ناپیدا کناء ہے کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی ‘ ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں ۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن ستارے اس میں چمک رہے ہیں ۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے تنہا اس ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم تین ارب دوسرے تارے یعنی ثوابت موجود ہیں اور اب تک کا انسانی مشاہدہ بھی ایسی ایسی دس لاکھ کہکشاؤں کا پتہ دیتا ہے ان لاکھوں کہکشاؤں میں سے ہمارا قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے یہ کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کرسکتے ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات اس پوری کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے ۔ اس عظیم کارگاہ ہست وبود کو جو خداوند وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق جس کا نام انسان ہے اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہوجائے گی ، اس لئے زیر نظر آیت کے آخری جزء میں بھی یہی ارشاد فرمایا گیا کہ ” یہ لوگ اس کی نشانیوں سے رخ پھیرے ہوئے ہیں ۔ “
Top