Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 33
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن وَالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند كُلٌّ : سب فِيْ فَلَكٍ : دائرہ (مدار) میں يَّسْبَحُوْنَ : تیر رہے ہیں
اور وہی ہے جس نے رات اور دن کا اختلاف پیدا کیا اور سورج اور چاند بنائے ، یہ تمام اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں
رات اور دن کے اختلاف میں اور سورج و چاند میں بھی نشانیاں موجود ہیں : 33۔ رات اور دن کے اختلاف میں کیا نشانیاں ہیں ؟ رات اور دن کا یہ فرق واختلاف اس اعتبار سے بھی نشانی ہے کہ دونوں پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک روشن ہے اور دوسرا تاریک اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک مدت تک بڑی تدریج کے ساتھ دن چھوٹا اور رات بڑی ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ پھر ایک وقت پر جا کر دونوں برابر ہوجاتے ہیں ۔ یہ مختلف قسم کے فرق واختلاف جو رات اور دن میں پائے جاتے ہیں اور ان سے جو عظیم حکمتیں وابستہ ہیں وہ اس بات کی صریح علامت ہیں کہ سورج اور زمین اور موجودات زمین کا خالق ایک ہی ہے اور ان دونوں کروں کو ایک ہی زبردست اقتدار نے قابو میں کر رکھا ہے اور وہ کوئی اندھا بہرا ‘ بےحکمت اقتدار نہیں ہے بلکہ ایسا حکیمانہ اقتدار ہے جس نے یہ اٹل حساب قائم کرکے اپنی زمین کو زندگی کی ان بیشمار انواع کے لئے موزوں جگہ بنا دیا ہے جو نباتات حیوانات اور انسان کی شکل میں اس نے یہاں پیدا کی ہیں۔ سورج اور چاند یعنی دن اور رات میں جو نشانیاں ہیں ان کا ذکر تو کیا جا چکا اب ان سب کے ایک غلق میں تیرنے کی نشانی کیا ہے ؟ فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء (آسمان) کے مفہوم سے مختلف ہے یہ ارشاد کہ ” سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں “ چار حقیقتوں کی نشاندہی کرتا ہے ایک یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں ان کی حرکت خواہ کوئی صورت تسلیم کی جائے لٹو کی طرح ایک جگہ یا ریل کی طرح مختلف جگہوں پر دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک فلق یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لئے ہوئے گردش نہیں کر رہے بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہو رہی ہے جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو یا تیل جیسی کسی چیز میں کسی شے کو گھما دیا گیا ہو۔ ان آیات کے مضامین کا اصل مقصد علم ہئیت کے حقائق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے خدا کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بیحد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی ، ہماری یہ زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز سورج زمین سے تین لاکھ گنا بڑا ہے اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم دو ارب 79 کروڑ 30 لاکھ میل ہے بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے 14 ارب 60 کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے تاہم اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے ، جس کہکشاں میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریبا تین ہزار ملین (تین ارب) آفتاب پائے جاتے ہیں اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں چار سال صرف ہوتے ہیں پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے بلکہ اب تک کے مشاہدات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریبا بیس لاکھ کو کبی سحابیوں میں سے ایک ہے اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی دس لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے اور یہ سارے حساب سائنس کے علم کے مطابق بیان کئے گئے ہیں نہ کہ کسی حدیث رسول ﷺ کے مطابق اور علوم جدیدہ ترقی کی طرف گامزن ہیں ممکن ہے کہ ابھی بہت کچھ اور ظاہر ہوجائے جو ابھی تک ظاہر نہیں ہوا اور قرآن کریم کی ان آیات کی مزید وضاحت ہوجائے ۔
Top