Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشگی نہیں دی پھر اگر تجھے مرنا ہے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟
یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے کوئی پیدا نہیں ہوا تو مرے گا تو کیا وہ ہمیشہ رہیں گے ؟ : 34۔ زیر نظر آیت میں کفار مکہ کی ساری سازشوں اور خفیہ تدبیروں کا جواب دے دیا گیا کہ تم یہ سارا کچھ کیوں کر رہے ہو ؟ محض اس لئے کہ اس رسول ﷺ کو ٹھکانے لگا دیا جائے ۔ اس طرح ایک طرف تو رسول اللہ ﷺ کو ان کی ہر طرح کی سازشوں اور خفیہ سے خفیہ تدبیروں کی ناکامی کی خبر دی گئی اور دوسری طرف آپ ﷺ کو یہ بتا دیا گیا کہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ آپ ﷺ کو موت آنا یقینی ہے اس لئے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا وہ مرنے ہی کے لئے آیا یہاں کسی کو ہمیشہ نہیں رہنا ہے اور پھر آپ ﷺ کے ذریعہ سے آپ ﷺ کے مخالفین کو بھی یہ بات سنا دی کہ اگر ہمارے رسول اللہ ﷺ کے لئے مرنا ہے تو کیا تم یہاں ہمیشہ رہو گے جو اس طرح کی سازشیں کر رہے ہو ؟ اور ان کو یہ پیغام اس طرح سنانے کا حکم دیا کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہمیشگی تو ہم نے آپ ﷺ سے پہلے بھی کسی انسان کے لئے نہیں رکھی ہے اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے ؟ “ اس طرح یہاں سے تقریر کا رخ اس کش مکش کی طرف موڑ دیا جو نبی اعظم وآخر ﷺ اور آپ ﷺ کے مخالفین کے درمیان برپا تھی ۔ یہاں اتنی بات مزید سمجھ لینا ہوگی کہ آپ ﷺ کی وفات 12 ۔ ربیع الاول 11 ہجری بیان کی جاتی ہے جو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ صحیح روایات میں آپ ﷺ کی وفات کا دن دو شنبہ یعنی سوموار معروف ہے جو صحیح بخاری اور مسلم کی روایات سے بھی ثابت ہے اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ اس سے پہلے 10 ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو جمعۃ المبارک کا دن تھا جیسا کہ صحیح بخاری اور مسلم کی روایات سے ثابت ہے ۔ اب ذی الحجہ کی 9 تاریخ کو جمعہ ہو تو 12 ۔ ربیع الاول 11 ھ کسی صورت میں بھی دو شنبہ یعنی سوار کا دن نہیں پڑ سکتا ۔ اسلامی مہینہ تین یا انتیس دن کا ہوتا ہے اور اس واقعہ میں تین مہینوں کا تعلق قائم ہوتا ہے ذی الحجہ ‘ محرم اور صفر کا اب ان تینوں مہینوں کو 29 دن کے تسلیم کرلیا جائے ‘ تینوں مہینوں کو 30 دن کے مہینے مان لیا جائے تین مہینوں سے دو کو 30 کا اور ایک 29 کا تسلیم کیا جائے یا ایک کو 30 دن کا اور دو کو 29 دن کا کہا جائے کسی صورت میں بھی دو شنبہ نہیں ہو سکتا لہذا کوئی صورت اس طرح ابھی پیدا نہیں ہوئی کہ یہ مان لیا جائے کہ آپ ﷺ کی وفات حسرت آیات 12 ، ربیع الاول کو ہوئی بعض روایات میں جو ہر لحاظ سے ثقہ اور صحیح تسلیم کی جاتی ہیں 9 ذی الحجہ 10 کے بعد 81 ویں روز آپ ﷺ کی وفات دو شنبہ کو ہوئی بیان کیا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھ کر دو مہینے 29 دن کے اور ایک تیس دن کا مان لیا جائے تو یکم ربیع الاول کو دو شنبہ کا دن بنتا ہے اور یہی صحیح اور درست ہے کیونکہ یہ روایتا بھی درست ہے اور درایتا بھی ، مزید تفصیل انشاء اللہ العزیز کسی مناسب مقام پر کی جائے گی ۔
Top