Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 38
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب ھٰذَا : یہ الْوَعْدُ : وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
اور (وہ مستقبل کا انتظار کرنا نہیں چاہتے) کہتے ہیں ، اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ یہ وعدہ کب ظہور میں آئے گا ؟
معاندین و مخالفین کی بےجا ضد کا مختصر بیان : 38۔ وعدہ سے مراد وعدہ قہر و عذاب الہی سے مشرکین و مخالفین یہ سوال خود نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں سے تمسخر اور بےیقینی کے لہجہ میں کرتے تھے آپ ﷺ نے ہمیشہ اس کا یہی جواب دیا کہ میں نے تم سے یہ کب کہا ہے کہ یہ فیصلہ میں چکاؤں گا اور نہ ماننے والوں کو میں عذاب دوں گا اس لئے مجھ سے یہ کیوں پوچھتے ہو کہ فیصلہ چکائے جانے کی دھمکی کب پوری ہوگی ؟ دھمکی تو اللہ نے دی ہے وہی فیصلہ چکائے گا اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ فیصلہ کب کرے اور کس صورت میں اس کو تمہارے سامنے لائے ۔ میں تو فقط یہ جانتا ہوں کہ اللہ جلد باز نہیں ہے اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ جس وقت رسول کی دعوت کسی شخص یا گروہ کو پہنچی اسی وقت جو ایمان لے آیا بس وہ تو رحمت کا مستحق قرار دیا اور جس کسی نے اس کو ماننے سے انکار کیا یا ماننے میں تامل کیا اس پر فورا عذاب کا فیصلہ نافذ کردیا ؟ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ قانون الہی یہ ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کے بعد وہ ہر فرد کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق اور ہر گروہ کو اس کی اجتماعی حیثیت کے مطابق سوچنے ‘ سمجھنے اور سنبھلنے کے لئے کافی وقت دیتا ہے یہ مہلت کا زمانہ بسا اوقات صدیوں تک دراز ہوتا ہے اور اس بات کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت ملنی چاہئے پھر وہ مہلت جو سراسر انصاف کے ساتھ اس کے لئے رکھی گئی ہے پوری ہوجاتی ہے اور وہ شخص یا گروہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہیں آتا تب اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فیصلہ نافذ کردیتا ہے اور یہ فیصلہ کا وقت اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی مدت سے نہ ایک گھڑی پہلے آسکتا ہے اور نہ وقت آجانے کے بعد ایک لمحہ کے لئے ٹل سکتا ہے ، اس کی تفصیل کے لئے سورة یونس کی آیت 48 تا 50 کا مطالعہ کریں اور اسی طرح سورة بنی اسرائیل کی آیت 51 ‘ 52 کی تفسیر بھی دیکھ لیں ۔ اور یہی بات سورة النحل کی آیت 71 میں کی گئی کہ (آیت) ” ویقولون متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین “۔ (27 : 71) اور پھر اس کا جواب اس طرح دیا گیا کہ (آیت) ” قل عسی ان یکون ردف لکم بعض الذی تستعجلون “۔ (27 : 72) ۔ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ جس عذاب کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو اس کا ایک حصہ تمہارے قریب ہی آلگا ہے ۔ یہ گویا شاہانہ انداز کلام میں ان کو جواب دیا گیا ہے اور قادر مطلق کے کلام میں جب ” شاید “ اور ” کیا عجب “ اور ” کیا بعید ہے “ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو ان میں شک کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ان سے شان بےنیازی کا اظہار ہوتا ہے اس کی قدرت ایسی غالب ہے کہ اس کا کسی چیز کو چاہنا اور اس چیز کا گویا ہوجانا ایک ہی بات ہے اس کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کوئی کام کرنا چاہے اور وہ نہ ہو سکے اس لئے اس کلام کا مطلب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ یقینا ایسا ہی ہوگا ۔ لیکن اس کا وقت بھی وہی جانتا ہے کہ کب ہوگا ؟ ہٹ دھرم لوگوں کو بےجا ضد نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جب وہ وقت آجائے گا تو اس کا آنا انکے لئے پھر مفید ثابت نہیں ہوگا کیونکہ جب وہ دھر لئے گئے تو اس کی پکڑ سے کوئی چھڑانے والا نہیں ہوگا ۔
Top