Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 40
بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّهَا وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ
بَلْ : بلکہ تَاْتِيْهِمْ : آئے گی ان پر بَغْتَةً : اچانک فَتَبْهَتُهُمْ : تو حیران کردے گی انہیں فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : پس نہ انہیں سکت ہوگی رَدَّهَا : اس کو لوٹانا وَ : اور لَا هُمْ : نہ انہیں يُنْظَرُوْنَ : مہلت دی جائے گی
بلکہ وہ گھڑی تو ان پر اچانک آموجود ہوگی اور انہیں مبہوت کر دے گی پھر نہ تو اس وقت کو پھرا سکیں گے اور نہ ہی مہلت پائیں گے
عذاب ان کو اچانک دبوچ لے گا ‘ ان کے لئے مہلت بھی نہیں ہوگی : 40۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکروں میں آپ پیچھے پڑھتے چلے آ رہے ہیں کہ مجرمین مطالبہ عذاب کرتے رہے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کے آنے کا ان کو کبھی یقین نہیں آیا لیکن جب بھی وہ گھڑی کسی قوم پر آئی تو اس نے اس وقت اس کو آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد یقین کیا لیکن اس یقین نے ان کو کچھ فائدہ نہ دیا ‘ ایسا کیوں ہوا ؟ فرمایا اس لئے کہ عذاب کو سامنے دیکھ کر ہی مجرموں کو یقین آیا کرتا ہے کہ واقعی پیغمبر نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا ۔ اس وقت وہ حسرت کے ساتھ ہاتھ مل کر کہتے ہیں کہ کاش ہمیں اب کچھ مہلت مل جائے حالانکہ مہلت کا وقت گزر چکا ہوتا ہے تب ہی عذاب کی گھڑی آتی ہے اور جب وہ آتی ہے تو کسی قوم کے لئے اس کے بعد سنبھلنے کا وقت نہیں ہوتا ۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں بار بار بیان کیا گیا ہے چناچہ یہی مضمون سورة الانعام کی آیت 31 ‘ 44 ‘ 47 میں بیان ہوا اور سورة الاعراف کی آیت 95 ‘ 187 میں اور سورة یوسف کی آیت 107 میں اور سورة الحج کی آیت 55 میں اور سورة الشعراء کی آیت 202 میں اور سورة العنکبوت کی آیت 53 میں اور سورة الزمر کی آیت 55 میں اور سورة الزخرف کی آیت 66 میں اور پھر سورة محمد کی آیت 18 میں بیان ہوا ہے اور اس طرح اچانک دبوچ لینے والی چیز سے مراد موت بھی لی گئی ہے اور قیامت کی گھڑی بھی اور دونوں ہی کافروں کے لئے عذاب کی گھڑیاں ہیں کیونکہ دونوں ہی گھڑیوں کے بعد کفار کے لئے عذاب ہی عذاب ہے ۔
Top