Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 43
اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا١ؕ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَ اَنْفُسِهِمْ وَ لَا هُمْ مِّنَّا یُصْحَبُوْنَ
اَمْ : کیا لَهُمْ : ان کے لیے اٰلِهَةٌ : کچھ معبود تَمْنَعُهُمْ : انہیں بچاتے ہیں مِّنْ دُوْنِنَا : ہمارے سوا لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ سکت نہیں رکھتے نَصْرَ : مدد اَنْفُسِهِمْ : اپنے آپ وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ مِّنَّا : ہم سے يُصْحَبُوْنَ : وہ ساتھی پائیں گے
پھر کیا ان لوگوں کے لیے معبود ہیں جو ہم سے انہیں بچا سکتے ہیں ؟ (حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے) وہ خود اپنی مدد تو کر نہیں سکتے اور نہ ہماری ہی طرف سے حفاظت پا سکتے ہیں
وہ معبود کون ہیں جو ہم سے ان کو بچائے ہوئے ہیں ؟ : 43۔ کوئی شخص کسی بت کو اپنا حاجت روا سمجھتا ہو یا کسی قبر کو دونوں میں فرق کیا ہے ؟ صرف یہ کہ ایک نے پتھر کو گھڑ کر اس شخصیت کی شکل دے لی ہے جس کو وہ اپنا حاجت روا اور مشکل کشا جانتا ہے اور دوسرے نے ایک مٹی کے ڈھیر کو چونا وکچ کرکے سمجھ لیا ہے کہ اس مٹی کے ڈھیر کے اندر اس کا حاجت روا اور مشکل کشا موجود ہے گویا فرق جو کچھ ہے وہ اس کی ظاہر داری میں ہے حقیقت میں ذرا بھر بھی فرق نہیں ہے کیا انکی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر یہ لوگ حاجت روا اور مشکل کشا ہوتے تو آخر مرتے ہی کیوں ؟ کہ ان کے ماننے والوں کو یہ سب کچھ کرنا پڑتا انہوں نے اپنے آپ کو زندہ ہی کیوں نہ رکھا ؟ اور اگر وہ اپنے آپ کو زندہ بھی نہیں رکھ سکے تو معلوم ہوا کہ وہ خود کسی کے بندھن میں بندھے ہوئے تھے تو وہ جس نے ان کو اس بندھن میں باندھ رکھا تھا اس کو چھوڑ کر یہ لوگ ان فانی شخصیتوں کی طرف جو دوڑے جا رہے ہیں تو کیا ان کی مت ماری نہیں گئی ؟ اتنی بات کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھیں جس کو کبھی موت نہیں ہے اور ان کے سارے مشکل کشاؤں کا بھی مشکل کشا ہے اور جو اپنے وجود تک کی حفاظت نہیں کرسکے وہ انکی حفاظت کیسے کریں گے ؟ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے والا نہ کوئی تھا ‘ نہ ہے اور نہ ہوگا لیکن تعجب ہے کہ یہ غلطی دنیا کی ساری قوموں کو لگی اور ایک قوم بھی ایسی نہیں جس کو اس سے مستثنی تسلیم کرلیا جائے ‘ یہاں تک کہ آج ہماری قوم مسلم کی اکثریت بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا ہے اور ان کی شاید ہی کوئی مذہبی مجلس قرار پائی ہو جس میں یہ نہ گایا جاتا ہو کہ ۔ پکڑے خدا تو چھڑائے محمد ﷺ محمد ﷺ کے پکڑے چھڑا کجوئی نہیں سکدا : لیکن زیر نظر آیت میں ان سب سے پوچھا جا رہا ہے کہ ” کیا ان لوگوں کے پاس ایسے معبود ہیں جو ہم سے انہیں بچا سکتے ہیں ؟ وہ خود اپنی مدد تو کر نہیں سکتے اور نہ ہی ہماری طرف سے ان کو یہ تائید حاصل ہے ۔ “ کہ وہ ان لوگوں کی حفاظت کے لئے ہم سے کوئی پٹا لکھوا چکے ہوں کہ تم چاہو جس کو بچا سکتے ہو ہم نے کسی ایک کو بھی ایسی تحریر لکھ کر نہیں دی اور نہ ہی ایسی کوئی سند دی جاسکتی ہے کہ الوہیت کے کاموں کو دوسروں میں تقسیم کردیا جائے ، یہ ساری خیام خیالیاں ہیں جو پہلوں کو بھی تھیں اور ان کو بھی ہیں جو اپنے آپ کو سواد اعظم کے نام سے یاد کر کے بہت خوش ہیں ۔ اس کی مزید تشریح دیکھنا مطلوب ہو تو سورة الکہف کے آخری رکوع کی آیات کی تفسیر دیکھیں وہاں آپ کو پوری وضاحت مل جائے گی ۔
Top