Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 50
وَ هٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُ١ؕ اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ۠   ۧ
وَھٰذَا : اور یہ ذِكْرٌ : نصیحت مُّبٰرَكٌ : بابرکت اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اسے نازل کیا اَفَاَنْتُمْ : تو کیا تم لَهٗ : اس کے مُنْكِرُوْنَ : منکر (جمع)
اور یہ بھی نصیحت ہے ، برکت والی ، ہم نے اسے نازل کیا پھر کیا تمہیں اس سے انکار ہے ؟
قرآن کریم ایک نصیحت ہی تو ہے پھر تم انکار کیوں کرتے ہو ؟ 50۔ جس طرح دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ہم نے ہدایت نازل کی جیسے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات ‘ داؤد (علیہ السلام) پر زبور اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل اسی طرح یہ ” ذکر “ یعنی قرآن کریم ہم نے تم پر نازل کیا جو باران رحمت کی طرح یکسر خیروبرکت ہے لیکن اس برکت کو حاصل کرنے کے لئے زرخیز زمین کی بھی ضرورت ہے جس میں صلاحیت نمو موجود ہو وہ شور اور پتھر کی چٹان نہ ہو اس طرح یہ قرآن کریم بھی اس دل و دماغ کے لئے سراسر رحمت ہے جس کی ساری صلاحیتیں ختم نہ ہوچکی ہوں اس میں غور وفکر اور سمجھ وسوچ اور عقل سے کام لینے کی طاقت موجود ہو اور وہ ناپاکی کا ڈھیر بھی نہ بن چکا ہو کہ بارش روحانی سے اس پر تعفن پیدا ہونا شروع ہوجائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اے قریش مکہ ! تمہاری اکثریت کی حالت شور زمین ہی سے ملتی جلتی نظر آتی ہے کیونکہ تم سراسر انکار ہی انکار کئے جا رہے ہو ۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا بالکل مختصر سا ذکر کیا کیونکہ گزشتہ سورت میں وہ تفصیل کے ساتھ گزر چکا اور اس مختصر ذکر کے بعد جملہ معترضہ کے طور پر مخاطبین قرآن کریم کی طرف اشارہ کیا اور پھر دعوت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف رخ پھیر دیا ۔
Top