Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 60
قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُؕ
قَالُوْا : وہ بولے سَمِعْنَا : ہم نے سنا ہے فَتًى : ایک جوان يَّذْكُرُهُمْ : وہ ان کے بارے میں باتیں کرتا ہے يُقَالُ : کہا جاتا ہے لَهٗٓ : اس کو اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم
بعض آدمیوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کو ان کے بارے میں کچھ کہتے سنا تھا ، اسے ابراہیم (علیہ السلام) کہہ کر پکارتے ہیں
انہوں نے آپس میں کہا کہ ایک ابراہیم نام کا نوجوان کچھ اس طرح کی باتیں کرتا ہے : 60۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کسی معمولی خاندان کے ایک فرد نہیں تھے بلکہ ایک بہت بڑے گھرانے کے فرد تھے جو مذہبی حیثیت سے بھی اور سیاسی حیثیت سے بھی ایک بہت مضبوط گھرانہ تھا اس کے ایک فرد تھے اس لئے باقاعدہ مشورہ طے کرنے کے بعد بالآخر یہ بات کہی گئی کہ ایک نوجوان جس کو ابراہیم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس کے رجحانات ایسے ایسے تھے اور اس اس طرح کا چیلنج کیا کرتا ہے ممکن ہے کہ یہ اس کی حرکت ہو کیونکہ وہی ایک ہے جو ہمارے ان معبودوں کا نام تحقیر کے ساتھ لیتا ہوا سنا گیا ہے بلکہ وہ یہ چیلنج اس سے قبل کرچکا ہے ۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے معبودوں کے ساتھ کچھ کر گزرنے کی دھمکی جو دی تھی وہ بقسم دی تھی اور زور دار الفاظ میں دی تھی اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی اور ان کی دعوت توحید بھی بالکل آشکارا اور برملا تھی ، کتنے ہی لوگ تھے جو ان کی ان باتوں سے خوب اچھی طرح واقف تھے لیکن ایک تو وہ ابھی تک ابراہیم کو ایک نوجوان آدمی سمجھ کر ان کی ان باتوں کو سنتے تھے تو ٹال دیتے تھے اور ان کے ٹالنے کا اصل باعث سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک بڑے گھرانے کے فرد ہونے کے باعث تھا اور فی الواقعہ ان کو اتنا بڑا قدم اٹھا دینے کی ایسی امید بھی نہیں تھی ۔ بہرحال انہوں نے اس وقت بھی دبی زبان سے بات کی اور نشاندہی کرتے ہوئے اتنا کہا کہ اس نوجوان کو ابراہیم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خود کیا ہوا کام ہے یا کسی اپنے حواری سے اس نے ایسا کرایا ہے کیونکہ وہی ایک ایسا سر پھیرا نظر آتا ہے جو جوانی کے نشہ میں آ کر اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے ۔
Top