Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ فَعَلَه : اس نے کیا ہے كَبِيْرُهُمْ : ان کا بڑا ھٰذَا : یہ فَسْئَلُوْهُمْ : تو ان سے پوچھ لو اِنْ : اگر كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ : وہ بولتے ہیں
[ اس نے کہا بلکہ اس بت نے کی ، جو ان میں سب سے بڑا ہے اگر بت بول سکتے ہیں تو خود ان ہی سے دریافت کر لو
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو اس بڑے صاحب سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ؟ 63۔ پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ان معبودان باطل کے پرخچے اڑائے تھے اور ان کا قتل عام کیا ” اس نے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے لیکن ان کے ایک بڑے کو چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ اس کی طرف لوٹیں ۔ “ (21 : 58) اس طرح آپ نے جس مقصد کے لئے یہ کام کیا تھا اس کو حاصل کرنے کے لئے ان کو اس وقت یہ جواب دیا کہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو ان سب سے کیوں نہیں پوچھتے پھر یہ جو کچھ ہوا ہے اس بڑے ” شمس “ نے نہ کیا ہوگا جو خود ٹھیک ٹھاک کھڑا ہے ، چلو اس سے پوچھ لو تو اس سے سوال کرتے ہو اور کہتے ہو کہ اس نے ہمیں اس کا یہ جواب دیا ہے اگر فی الواقع یہ معبود تمہارے تم سے سوال و جواب کرتے ہیں ‘ تمہاری سنتے ہیں اور تم کو جواب دیتے ہیں تو یہ اب بھی اچھا بھلا تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہے اس سے پوچھ کیوں نہیں لیتے ؟ (ان کانوا ینطقون) اسی طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو جواب بھی دیا اور صاف صاف اور واضح الفاظ میں دیا جس کا ہر لفظ یہ بات کہہ رہا ہے کہ آپ نے جو کارنامہ سرانجام دیا تھا اس کا بالکل اقرار کیا اور انکار کا اس میں کوئی پہلو موجود نہیں البتہ اقرار کا طریقہ ایسا شاندار اختیار فرمایا کہ اقرار بھی ہوگیا اور ان سے ایک نہایت اہم سوال بھی کردیا کہ وہ جواب سن کر فی الواقع مبہوت ہوگئے اور ان کی آنکھوں کے سامنے رنگ رنگ کے تارے پھرنے لگے اور اس وقت جو ان کی حالت ہوئی ہوگی وہ دیدنی تھی جس کو قلم ادا نہیں کرسکتا گویا وہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ جواب سن کر شرمندگی سے ایک بار پانی پانی ہوگئے ۔ یہ جواب سنتے ہی سب پر سناٹا چھا گیا کیونکہ یہ جواب ایسا تھا جو اپنے اندر ایک بہت بڑا سوال بھی رکھتا تھا اور پھر ایسا سوال رکھتا تھا جس کا کوئی جواب ان کے پاس موجود نہیں تھا اور بجائے اس کے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پر پل پڑتے اور اس کی تکہ بوٹی کردیتے اس سوال نے فی الواقعہ ان کو حواس باختہ کردیا اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پر ہاتھ اٹھانے کی بجائے اپنا اپنا ماتھا پیٹ کر رہ گئے ، وہ نہ تو یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ ہمارے معبود بولتے کب ہیں جو ہم ان سے پوچھیں ؟ اور نہ ہی وہ ان سے پوچھ سکتے تھے گویا ان کی حالت اس طرح ہوگئی کہ ” پائے رفتن نہ جائے ماندن “۔ اس طرح انہوں نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو سرعام مجلس میں لانے کی جو اسکیم بنائی تھی وہ مکمل طور پر فیل ہو کر رہ گئی اور جو پروگرام انہوں نے بنایا تھا ایک دفعہ سارے کا سارا ہوا ہوگیا اور اس طرح جس بات کا وہ اعتراف نہیں کرنا چاہتے تھے اس کا اعتراف کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ کار نہ رہا اس کو کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے ۔ یہ بات تو بالکل صاف تھی اور جن کے متعلق تھی وہ اس کا کوئی جواب بھی نہ دے سکے تھے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس بات نے ایک نیاموضوع کھڑا کردیا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے (آیت) ” بل فعلہ کبیرھم ھذا “۔ ” بلکہ یوں سمجھو کہ اس نے کیا ہے جو ان سب میں بڑا ہے “ کہہ کر جھوٹ نہیں کہا جاسکتا ۔ بعض نے ثابت کیا کہ یہ تینوں تعریض وتوریہ ہیں اور تعریض وتوریہ جھوٹ نہیں ہوتا ۔ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے جھوٹ کو بعض اوقات لازم قرار دیا اور کہا کہ جھوٹ کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں بلکہ بعض اوقات جھوٹ بولنا ضروری ہوجاتا ہے لہذا جب ضروری ہوجائے تو جھوٹ بولنا ہی بہتر ہے بلکہ ایسے مواقع پر سچ بولنا گناہ ہے ، اس طرح کی کتنی ہی باتیں ہیں جنہوں نے اصل واقعہ کی حقیقت کو مستور کردیا اور اس حقیقت کو مستور کردیا جس کو حقیقت کی طرف توجہ دلانے کی وجہ سے وہ لوگ مبہوت ہو کر رہ گئے تھے اور ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ اس کا جواب ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو کیا دیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اس بات کو کہہ گئے جس کو کہنے کے لئے وہ کبھی تیار نہ تھے ، جس کے متعلق قرآن کریم نے ان کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے ہمیں بتایا ہے کہ انکی حالت ایسی ہوگئی کہ وہ اپنے اس قومی نظریہ پر سوچنے کے لئے مجبور ہوگئے کہ آج تک تو ہم کہتے آئے کہ یہ ہمارے معبود ہماری سنتے ہیں اور ہمیں جواب دیتے ہیں بلکہ یہ ہماری مشکل کشا اور حاجت روا ہیں لیکن اب جب کہ وہ اپنی اس مشکل کو حل نہ کرسکے اور ہمیں یہ بھی نہ بتا سکے کہ ہمارا یہ قتل عام کس نے کیا ہے تو ہم ابراہیم کو کیا جواب دیں ؟ قرآن کریم نے ان کی اس سراسیمگی کو چند لفظوں میں اس طرح بیان کیا ہے کہ (آیت) ” فرجعوا الی انفسھم فقالوا انکم انتم الظالمون “۔ آج وہ موجود نہیں ورنہ ہمارے مفسرین کا وہ شکریہ ادا کرتے کہ انہوں نے انکو اتنی بڑی شرمندگی سے نکالنے کیلئے ایک موضوع کھڑا کردیا اور ان کو بتایا کہ تم خواہ مخواہ گھبرا گئے ہو ابراہیم نے تو تم سے یہ سراسر جھوٹ بولا ہے اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ ضرورت کے وقت وہ اس طرح کے جھوٹ بولنے کا پہلے بھی عادی ہے دیکھو اس سے پہلے اس نے تو (انی سقیم) بھی کہا تھا جو اس کا ایک سفید جھوٹ تھا اور اس سے پہلے تمہارے بادشاہ کے سامنے اپنی بیوی کو بہن کہا تھا اور دل میں یہ بات رکھی تھی کہ بلاشبہ یہ میری دینی بہن ہے ۔ اب اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون نہ پڑھا جائے تو اور کیا کیا جائے ، ایسا کیوں ہوا ؟ صحیح بخاری اور دوسری احادیث میں ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے جس طرح دوسرے انبیاء کرام اور رسل عظام کا ذکر کرتے ہوئے ان الزامات کا ذکر فرمایا جو جو الزامات ان کے ماننے والوں اور نبی تسلیم کرنے والوں نے ان پر لگائے تھے تو اس طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر بھی فرمایا اور بتایا کہ یہود ونصاری اور مشرکین مکہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک جلیل القدر نبی ورسول بھی مانتے اور تسلیم کرتے ہیں اور ان کے متعلق یہ بھی بیان دیتے ہیں کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے تھے حالانکہ قرآن کریم آپ کو (انہ کان صدیقا نبیا) بلاشبہ وہ نہایت ہی سچا نبی تھا ان کی اس بات کی واضح تردید کردی ہے گویا حدیث کا مطلب یہ تھا کہ لم یکذب ابراھیم (بزعم الیھود والنصاری) الا ثلث کذبات (فتح الباری ص 233 پارہ 13 عن ابی ہریرہ ؓ کتاب الانبیائ) ظاہر ہے کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) فقط اسلام ہی کے نبی نہیں تھے بلکہ یہود ونصاری کے بھی نبی تھے اور اسی طرح دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا بھی حال ہے اور ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ نے جو دوسری اقوام کی معروفات تھیں ان کا بیان فرمایا تو اس سے یہ سمجھ لیا گیا کہ آپ ﷺ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ایسا بیان فرمایا ہے گویا جن جن باتوں کی آپ ﷺ نے تردید کی ان ہی باتوں کو آپ ﷺ کی طرف نسبت دے دی گئی اور آپ ﷺ کا بیان قرآن کریم کے بیان پر منطبق کرنے کی بجائے قرآن کریم کی آیت کو آپ کے تردید کردہ بیان پر منطبق کرنا شروع کردیا اور اس طرح ایک سیدھی اور صاف بات کو الجھا کر رکھ دیا گیا ۔ بعد میں آنے والوں نے قرآن کریم کی آیت کو بالکل پس پشت ڈال دیا اور آپ ﷺ کے تردید کردہ جملہ کو اصل سمجھ کر اس کی جو تشریح کرنا شروع کی تو وہ کہیں سے کہیں نکل گئے اور انجام کار نوبت یہ آئی کہ بڑے بڑے ذی علموں کو یہ لکھنا پڑا کہ : ا۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ کذب ہر حال میں حرام نہیں ۔ بسا اوقات ضرورتا شارع نے اس کی اجازت دی ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس “۔ (ترمذی) ب۔ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب انسان پوری صداقت کا اظہار نہیں کرسکتا ۔ اگر وہ اس کے اظہار پر اصرار کرے تو اس کی راہ میں مزید مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں جن میں دیانت کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کا قائم رکھنا ضروری ہے ۔ ج۔ تعریضات کی راہ زندگی کا ایسا لازمہ ہے کہ اس سے بچنا سخت مشکل ہے ۔ (مولانا محمد اسمعیل (رح) امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان ‘ بحوالہ حجیت حدیث ص 132) حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو چیزیں کذب (جھوٹ) کی تعریف میں ہی نہ آئیں انکو کذب (جھوٹ) میں بیان کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ بات اس طرح بنائے بنتی نظر نہیں آتی کذب (جھوٹ) کا تعلق تعریض و توریہ اور صداقت کے اظہار نہ کرنے سے قطعا نہیں ہے ۔ اگر کسی بات کو رسول کی زبان کہے تو آپ اور میں تو اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ دراصل یہ کذب نہیں تھا بلکہ تعریض وتوریہ تھا ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ نبی ورسول کی بات کا موازنہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نبی ورسول کی بات ہی سے کیا جاسکتا ہے اور کرنا چاہئے یہ کسی کو حق نہیں ہے کہ نبی ورسول کی بات کا مقابلہ وموازنہ آپ کی یا میری بات سے کرے ، ہمیں افسوس ہے کہ احادیث کے تراجم کرتے وقت مترجمین نے مطلق احتیاط سے کام نہیں لیا بلکہ اس بات کا لحاظ بھی نہیں رکھا کہ ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرتے وقت کن کن چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے اور آج ان تراجم کی وجہ سے جو فتنہ کھڑا کیا گیا ہے اس کی طرف کبھی کسی نے دھیان ہی نہیں دیا ۔ بلاشبہ یہ علماء اسلام کی ذمہ داری تھی لیکن وہ گروہ بندی کے شرک میں مبتلا ہو کر ایسے پٹری سے اترے ہیں کہ ان کو اپنے مکتب فکر کی ترجمانی سے آج تک فرصت نہیں ملی اور شاید قیامت تک نہیں ملے گی ، وہ کوئی اور لوگ آئیں گے جو اس معاملہ میں کوشش کرسکیں گے اور وہی ہوں گے جو سوائے مومن ومسلم کے کچھ اور نہ ہوئے ۔ ہاں ! آہستہ آہستہ حالات کا رخ اس طرف جا رہا ہے کہ اللہ ایسے لوگ پیدا فرمائے گا ۔ ہاں ! بلاشبہ اللہ کے سارے کام بتدریج ہی ہوتے ہیں اور جب وقت آتا ہے وہ معرض وجود میں آجاتے ہیں ۔ اس جگہ نہایت اختصار سے بیان کیا ہے اس لئے کہ ان واقعات کی تفصیل پیچھے سورة البقرہ کی آیت 124 ‘ 141 تفسیر عروۃ الوثقی جلد اول ص 525 تا 544 میں اور عروۃ الوثقی جلد سوم میں سورة الانعام کی آیت 74 تا 81 ‘ سورة ہود عروۃ الوثقی جلد چہارم میں 69 تا 76 ‘ سورة ابراہیم کی آیت 35 تا 41 جلد پنجم سورة النحل آیات 120 تا 123 میں بیان کردی گئی ہیں وہاں سے ملاحظہ فرما لیں ۔ اب قوم ابراہیم (علیہ السلام) کی خفت کے مضمون کو دیکھیں جو ان کو ابراہیم (علیہ السلام) کے اس مقابلہ میں اٹھانا پڑی ۔
Top