Urwatul-Wusqaa - At-Takaathur : 67
اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اُفٍّ : تف لَّكُمْ : تم پر وَلِمَا : اور اس پر جسے تَعْبُدُوْنَ : پرستش کرتے ہو تم مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَ : کیا فَلَا تَعْقِلُوْنَ : پھر تم نہیں سمجھتے
تمہاری حالت کتنی قابل افسوس ہے اور ان کی بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو کیا تم عقل سے بالکل کورے ہوگئے ؟
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) جواب نہ پا کر پھر گویا ہوئے کہ افسوس ہے تم پر تم تو عقل کے بالکل کورے نکلے : 67۔ (اف) نہایت ہی افسوس کا کلمہ ہے ۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا (اف لکم) تمہاری حالت کتنی ہی قابل افسوس ہے ، یہ کن لوگوں کو کہا جا رہا ہے ؟ انہی کو جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو سزا دینے کے لئے مجلس میں لائے تھے اور جن کا پروگرام یہ تھا کہ تم ساری مذہبی اور سیاسی پارٹیاں مل کر اس شخص کو ایسی سزا دو کہ آئندہ کوئی شخص اس طرح کی حرکت ہی نہ کرسکے لیکن سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے مجلس میں آتے ہی اور ان کا سوال سنتے ہی بات ایسے رخ پر چلا دی کہ ان کی سمجھ ہی میں کچھ نہ آیا اور وہ ایسے بوکھلائے کہ وہ ایک بات بھی اس سلسلہ میں نہ کہہ سکے جس سلسلہ میں وہ اس مجلس میں بیٹھے تھے اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اکیلا ہونے کے باوجود باتوں ہی باتوں میں ان کو ایسا دبایا کہ وہ دبتے ہی چلے گئے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں کہاں ! وہ جھوٹے تھے کیسے کھڑے رہ سکتے تھے ایسے ہی حالات کے لئے پنجابی زبان میں یہ مصرعہ بولا جاتا ہے کہ ع مارن والے موئے محمد قدرت رب دی ہوئی : سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تف ہے تم پر کہ تم کن کی پرستش کرنے لگ گئے کیا تم ایسے نادان اور ناسمجھ ہو ؟ اور مذہب اور سیاست کے ٹھیکہ دار بھی ہو ؟ اور اتنی سیدھی اور سادی بات بھی نہیں سمجھ رہے کہ جو خود مشکلات میں پھنس جاتے ہوں وہ دوسروں کے مشکل کشا اور حاجت روا کیسے ہو سکتے ہیں ؟
Top