Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 7
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے اِلَّا : مگر رِجَالًا : مرد نُّوْحِيْٓ : ہم وحی بھیجتے تھے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھ لو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : مگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور [ ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ آدمی تھے ان پر ہماری وحی اترتی تھی ، اگر تمہیں یہ بات معلوم نہیں تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو اہل کتاب ہیں
کفار کے اس مطالبہ کا جواب کہ یہ رسول تو ایک بشر ہے اور بشر رسول کب ہوتا ہے ؟ 7۔ آپ غور کریں گے تو یقینا اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ جب سے اس دنیا میں کفر آیا تو یہ نظریہ بھی ساتھ ہی آگیا کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا انبیاء کرام میں سے پہلے رسول ونبی نسل انسانی میں سے نوح (علیہ السلام) ہیں اس لئے کہ آدم (علیہ السلام) بھی انسان تھے لیکن نسل انسانی کے طور پر نہیں بلکہ اصل انسانی کے طور پر بہرحال نوح (علیہ السلام) کی قوم کے کفار کا سوال یہی تھا کہ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ : (آیت) ” وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحاً إِلَی قَوْمِہِ فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَہٍ غَیْْرُہُ أَفَلَا تَتَّقُونَ (23) فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِن قَوْمِہِ مَا ہَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُرِیْدُ أَن یَتَفَضَّلَ عَلَیْْکُمْ وَلَوْ شَاء اللَّہُ لَأَنزَلَ مَلَائِکَۃً مَّا سَمِعْنَا بِہَذَا فِیْ آبَائِنَا الْأَوَّلِیْنَ (24) (المومنون 23 : 23 ، 24) ” اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا اس نے کہا تھا بھائیو ! اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں ۔ اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی وہ یہ سن کر کہنے لگے یہ آدمی اس کے سوا کیا ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے ؟ مگر چاہتا ہے کہ تم پر اپنی بڑائی جتائے اگر اللہ کو کوئی ایسی بات منظور ہوتی تو کیا وہ فرشتے نہ اتار دیتا ؟ ہم نے اپنے اگلے بزرگوں سے تو کوئی ایسی بات کبھی سنی نہیں تھی ، “ (کہ انسان بھی کبھی رسول ونبی ہوتا ہے) اور حقیقت واصلیت اس کی ہے کہ ابلیس جو انسان کو ابدی دشمن ہے اس نے چونکہ آدم (علیہ السلام) کی فوقیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا تو انکار کی اصل وجہ اس نے یہی بتائی تھی کہ کیا میں آدم کی اپنے اوپر فوقیت تسلیم کرلو یہ نہیں ہوسکتا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ ایک بشر ہے جس کی اصل مٹی سے ہے چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” قال یا ابلیس مالک الا تکون مع السجدین ، قال لم اکن لاسجد لبشر خلقتہ من صلصال من حماء مسنون “۔ (الحجر 15 : 32 ، 33) ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس ! تجھے کیا ہوا کہ سجدہ شکر ادا کرنے والوں میں تو شامل نہ ہوا ؟ اس نے کہا مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بشر کے لئے سجدہ کروں جسے تو نے خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا ہے جو سوکھ کر بجنے لگتا تھا لہذا اس نے یہ شرارت نکالی لیکن تعجب ہے کہ انسانوں کو کیا ہوا کہ انہوں نے بھی ابلیس کی پیروی اور دوستی میں اپنی ہی جنس کے ایک ” بشر “ کے نبی ہونے سے انکار کردیا اور اس طرح ابلیس نے اپنی دشمنی اور مخالفت کے باعث ان کو اپنے دام فریب میں لے لیا ۔ معلوم ہوگیا کہ جن لوگوں نے بھی ” بشر “ کے رسول ہونے سے انکار کیا دراصل وہ ابلیس کے داؤ میں آگئے اور ایسے آئے کہ بس اس کے بعد وہ کبھی اس کے اسی فریب سے نہ نکل سکے اور کتنے ہیں جو آج بھی اس کے مکروفریب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ بہرحال شیطان کے ان انکار کے بعد کہ اس نے ” بشر “ کے نبی ورسول ہونے سے انکار کیا اور اس کی فوقیت کو ماننے سے انکار کردیا اس کے بعد نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں کا ذکر آپ پڑھ اور سن چکے اور ازیں بعد کوئی قوم ایسی نہیں آئی جس کے اکثر لوگوں نے اس طرح بشر کے رسول ہونے سے انکار نہ کیا ہو ؟ قرآن کریم کا مطالبہ کرنے والا یقینا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ فی الواقعہ یہ بیماری ہر قوم کی اکثریت کو لاحق ہوئی اور وہ اس دنیا سے مٹ گئے بلکہ سزا مٹا دیئے گئے لیکن اس بات کو انہوں نے تسلیم نہیں کیا کہ ” بشر “ بھی نبی ورسول ہو سکتا ہے ۔ قرآن کریم نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد کتنے ہی نبی ورسول اللہ نے مبعوث فرمائے اور نبی ورسول کو قوم نے ٹھکرا دیا اور انکار کیا اور انکار کا سبب جو بیان کیا تو وہ یہی تھا کہ : (آیت) ” قَالُواْ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِیْدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (10) قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلَـکِنَّ اللّہَ یَمُنُّ عَلَی مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ “ (ابراہیم 14 : 10 ‘ 11) ” ساری قوموں کے لوگوں نے (اپنے اپنے وقت میں یہی جواب دیا کہ) تم اس کے سوا کیا کہ ہماری ہی طرح کے ایک بشر ہو اور چاہتے ہو کہ جن معبودوں کو ہمارے باپ دادا مانتے آئے ہیں ان کو ماننے اور ان کی عبادت کرنے سے ہمیں روک دو ‘ اچھا کوئی واضح دلیل پیش کرو ۔ ان کے رسولوں نے جواب میں کہا ہم اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ تمہاری ہی طرح آدمی ہیں لیکن اللہ جس بندہ کو چاہتا ہے اپنے فضل و احسان کے لئے چن لیتا ہے “ دوسری جگہ ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ : (آیت) ” وَمَا قَدَرُواْ اللّہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّہُ عَلَی بَشَرٍ مِّن شَیْْء ٍ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِیْ جَاء بِہِ مُوسَی نُوراً وَہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَہُ قَرَاطِیْسَ تُبْدُونَہَا وَتُخْفُونَ کَثِیْراً وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ آبَاؤُکُمْ قُلِ اللّہُ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِیْ خَوْضِہِمْ یَلْعَبُونَ (91) (الانعام 6 : 91) ” اور انہوں نے خدا کی خدائی کا جو اندازہ کرنا چاہے تھا نہیں کیا جب ان لوگوں نے کہا کہ خدا نے کسی ’ بشر “ یعنی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری ہے تم کہو اے پیغمبر اسلام ! کس نے وہ کتاب اتاری جسے موسیٰ (علیہ السلام) لایا تھا ؟ جو لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت ہے اور جسے تم اوراق کا مجموعہ بنا کر لوگوں کو دکھاتے ہو اور بہت سی باتیں پوشیدہ رکھتے ہو ؟ نیز تمہیں وہ وہ باتیں سکھائی گئیں جو پہلے نہ تو تم جانتے تھے اور نہ ہی تمہارے باپ دادا جانتے تھے ؟ اے پیغمبر اسلام ! تم کہو اللہ نے اور پھر انہیں ان کی کاوشوں میں چھوڑ دو کہ کھیلتے رہیں ۔ “ مزید وضاحت کے لئے عروۃ الوثقی جلد سوم سورة الانعام کی آیت 91 کی تفسیر دیکھیں اور یہ مضمون قرآن کریم میں الکھف 8 : 110 ‘ المومنون 23 : 33 ‘ 47 ‘ الشعر 261 : 154 ‘ 186 ‘ یس 36 : 15 ، فصلت 41 : 6 ‘ التغابن 64 : 6 ‘ سورة الکہف 18 : 110 اور ابراہیم 14 : 10 ‘ 11 عروۃ الوثقی ‘ جلد چہارم میں سورة الحجر 15 : 33 ‘ سورة النحل 16 : 103 ‘ سورة الکہف 18 : 110 اور الانبیاء 21 : 3 ‘ 34 کو اس جلد کی محولہ سورتوں کی گئی آیات کی تفسیر میں دیکھ سکتے ہیں ۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا کہ آج بھی ہم مسلمانوں میں سواد اعظم کہلانے والے رضائی بھائیوں کے سارے گروہ یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور خصوصا نبی اعظم وآخر ﷺ کو ” بشریت سے ماوراء بیان کرکے اس ابلیس لعین کی پیروی کرتے ہیں جس نے گھمنڈ میں آ کر ” بشریت “ کو گھٹیا بیان کرنے کی کوشش کی تھی اور ازیں بعد دنیا کی ساری کافر اور انبیاء ورسول کرنے والی جماعتیں کرتی آئی ہیں جیسا کہ ان کی کتابوں میں یہ بات سورج سے بھی زیادہ روشن نظر آتی ہے چناچہ تحریر ہے کہ : ” رسول ﷺ اللہ کے نور سے ہیں اور ساری مخلوق آپ کے نور سے “ (فتاوی افریقہ ص 85 مطبوعہ 1236 ئ) گویا ہر شے اللہ ہی اللہ ہے ۔ ” بیشک اللہ ذات کریم نے صورت محمدی کو اپنے نام پاک بدیع سے پیدا کیا اور کروڑہا سال ذات کریم اس صورت محمدی کو دیکھتا رہا ۔ اپنے اسم مبارک ” منان اور قاہر سے پھر تجلی فرمائی اس پر اپنے اسم پاک لطیف غافر سے ۔ “ (فتوی نعیمیہ ص 37) ” فرشتے آپ ہی کے نور سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہر ایک چیز میرے ہی نور سے پیدا فرمائی ۔ “ (صلوۃ الصفاء مجموعہ رسائل بریلوی ج اول ص 37) ” قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ہے اور درحقیقت انبیاء کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے ۔ “ (تفسیر مولانا محمد نعیم الدین صاحب مطبوعہ تاج کمپنی ص 5) لیکن اللہ تعالیٰ کی شان جلالی دیکھئے کہ اس نے انہی صاحب کی قلم سے یہ بھی تحریر کرا دیا کہ : ” یہ آیت ان کفار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ بشر کیسے رسول ہو سکتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے وہ انسانوں میں سے بھی رسول (مثل حضرت ابراہیم ‘ حضرت موسیٰ ‘ حضرت عیسیٰ وحضرت سید عالم صلوۃ اللہ تعالیٰ علیہم وسلامہ) بناتا ہے اور ملائکہ میں سے بھی (مثل جبریل ومیکائل وغیرہ کے) جنہیں چاہے ۔ “ (تفسیر مولانا سید محمد نعیم صاح مطبوعہ تاج کمپنی ص 493) قارئین عروۃ الوثقی سے درخواست ہے کہ ان دونوں عبارتوں کو پڑھ کر خود ہی فیصلہ فرما لیں کہ جناب سید محمد نعیم مراد آبادی (رح) کا کونسا مفہوم صحیح ہے اور کونسا غلط کیونکہ دونوں تفسیریں ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں ۔ پہلی تفسیر سورة البقرہ کی آیت 8 کے تحت درج ہے اور دوسری تفسیر سورة الحج کی آیت 25 کے تحت ہماری سمجھ میں جو کچھ آیا ہے وہ یہ ہے کہ مولانا نے پہلی تفسیر میں ” انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بشر کہنے والوں کو کافر “ کہا ہے اور دوسری آیت کی تفسیر میں ” کے بشر نہ کہنے والوں کو کافر کہا گیا ہے “ گویا جو لوگ انبیائیکرام (علیہ السلام) کو بشر کہیں وہ بھی کافر اور جو انبیائے کرام کو بشر نہ مانیں وہ بھی کافر اور اب مسلمان کون ہیں ؟ اگر کوئی ان سے یا ان کی ذریت روحانی سے پوچھ سکتا ہے تو پوچھ کر ہمیں بھی بتا دے پتہ تفسیر کے ٹائٹل پر موجود ہے ۔
Top