Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 75
وَ اَدْخَلْنٰهُ فِیْ رَحْمَتِنَا١ؕ اِنَّهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۠   ۧ
وَاَدْخَلْنٰهُ : اور ہم نے داخل کیا اسے فِيْ رَحْمَتِنَا : اپنی رحمت میں اِنَّهٗ : بیشک وہ مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : (جمع) صالح (نیکو کار)
اور ہم نے اس کو اپنی رحمت میں لے لیا یقینا وہ نیک کردار انسانوں میں سے تھا
لوط (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت میں لینے کا ذکر فرمایا : 75۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت ہی کے سہارے سارا نظام چل رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں پر یقینا رحمت الہی بھی خاص ہی طریقہ سے ہوتی ہے اس جگہ جس رحمت الہی کا ذکر ہے وہ یقینا رحمت الہی ہجرت ہی ہو سکتی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب عذاب الہی کا وقت آیا اور اس مخصوص رات کی ابتدا ہوئی تو ملائکہ کے اشارہ پر حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے خاندان سمیت دوسری جانب سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے اور ان کی بیوی نے جو یقینا دوسری بیوی تھی آپ کی رفاقت سے انکار کردیا اور راستہ ہی سے لوٹ کر سدوم واپس آگئی اور آخر رات ہوئی تو اول ایک ہیبت ناک چیخ نے اہل سدوم کو تہ وبالا کردیا اور پھر آبادی کا تختہ ایک نہایت ہی سخت قسم کے زلزلہ نے الٹ کر رکھ دیا اور ازیں بعد طوفان باد نے پتھروں کی بارش ان پر برسائی اور زمین کو کہیں نیچے ہی نیچے دبا کر رکھ دیا اور جہاں وہ بستیاں آباد تھیں وہاں گہرا سمندر بنا دیا گیا ۔ اس طرح وہ یعنی لوط (علیہ السلام) اور ان کو سچے دل سے نبی تسلیم کرنے والے جنہوں نے آپ کا کہا مان کر ہجرت کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیا ، اس جگہ ذکر اگرچہ فقط آپ ہی کا کیا گیا ہے لیکن دوسری جگہ (آیت) ” فنجینہ واھلہ اجمعین “۔ ” پھر بچالیا ہم نے اس کو اور اس کے تسلیم کرنے والوں سب کو ۔ “ (الشعراء 26 : 170) اس طرح ذکر کیا گیا ہے ۔
Top