Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 76
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ
وَنُوْحًا : اور نوح اِذْ نَادٰي : جب پکارا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَاسْتَجَبْنَا : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَنَجَّيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے نجات دی وَاَهْلَهٗ : اور اس کے لوگ مِنَ : سے الْكَرْبِ : بےچینی الْعَظِيْمِ : بڑی
اور نوح کا معاملہ جو ان سے پیشتر کا ہے جب اس نے ہمیں پکارا تھا تو ہم نے اس کی پکار سن لی ، اسے اور اس کے اہل کو ایک بڑی ہی سختی سے نجات دی
نوح (علیہ السلام) کی پکار اور اس کے الہی جواب کا ذکر : 76۔ نوح (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی ورسول ہیں جن کو رسالت سے نوازا گیا اور حدیث میں آپ کو (اول الرسل الی الارض) (صحیح مسلم باب الشفاعۃ) میں بیان کیا گیا ہے یعنی نوح (علیہ السلام) کو زمین پر سب سے پہلا رسول بنایا گیا ہے چونکہ پیچھے لوط (علیہ السلام) کا ذکر تھا اس لئے قرآن کریم (علیہ السلام) نے (من قبل) کے لفظ اختیار کئے تاکہ کسی کو یہ غلطی لاحق نہ ہو کہ لوط (علیہ السلام) کے بعد نوح (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا ہے کوئی یہ نہ سمجھے کہ شاید یہ کوئی اور نوح ہوں گے فرمایا نوح (علیہ السلام) نے ہم کو پکارا اس پکارنے سے کون سی پکار مراد ہے قرینہ یہ بتاتا ہے کہ یہ وہی ندا ہے جو نوح (علیہ السلام) نے قوم کی ہدایت سے بالکل مایوس ہو کر مانگی تھی اور جو نوح (علیہ السلام) کی ” بددعا “ کے نام سے موسوم کی جاتی ہے حالانکہ ایسا نہیں کہنا چاہئے بلکہ صرف اس کو دعا ہی کہنا صحیح ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا : (آیت) ” وقال نوح رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا ، انک ان تذر ھم یضلوا عبادک ولا یلدوا الا فاجرا کفارا “۔ (نوح 71 : 170) ” اور نوح نے دعا کی اے میرے رب ! تو زمین پر ان کافروں میں سے ایک کو بھی چلتا پھرتا نہ چھوڑ اگر تو ان کو چھوڑے رکھے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور صرف فاسقوں اور ناشکروں ہی کو جنم دیں گے ۔ “ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی دعا کو قبول فرمایا اور اپنے قانون جزائے اعمال کے مطابق سرکشوں کی سرکشی اور متمردوں کے تمرد کی سزا کا اعلان کردیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے نوح (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک کشتی تیار کریں تاکہ اسباب ظاہری کے طور پر وہ اور مومنین قانتین اس عذاب سے محفوظ رہیں جو اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں پر نازل ہونے والا ہے ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کشتی بنانی شروع کی تو کفار نے ہنسی اڑانا اور مذاق بنانا شروع کردیا اور جب ان کا ادھر سے گزر ہوتا تو کہتے خوب ! جب ہم غرق ہونے لگیں تو تو اور تیرے پیرو اس کشتی میں محفوظ رہ کر نجات پا جائیں گے ‘ کیسا احمقانہ خیال ہے یہ پہاڑی علاقہ ہے اور تیری کشتی اگر پانی آ بھی گیا تو یہ تو پانی کے پہلے ہی ریلے میں پاش پاش ہو کر رہ جائے گی پھر نتیجہ ظاہر ہے کہ کیا ہوگا ؟ قرآن کریم نے ” سنت اللہ “ کا ذکر فرمایا تاکہ لوگ اس تاریخی واقعہ کو فراموش نہ کردیں کہ آج سے ہزاروں سال قبل جن اقوام نے خدا کی نافرمانی کی تھی انہی اقوام میں سے ایک قوم حضرت نوح (علیہ السلام) کی بھی تھی جب انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی لائی ہوئی تعلیم کو ٹھکرایا تو ان کا حال کیا ہوا ؟ وہی جو سنت اللہ کے مطابق دوسری اقوام عالم کا ہوا جنہوں نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی تعلیم سے انحراف کیا تھا اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرکشوں اور متمردوں کو بھی طوفان باد و باراں میں غرق کر کے تباہ وبرباد کردیا اور آپ کے مخالفین میں سے اس وقت ایک بھی نہ بچا سب کے سب بھسم ہو کر رہ گئے حتی کہ ایک حقیقی بیٹا جو آپ کی لائی ہوئی تعلیم سے انحراف کرچکا تھا اور آپ کی زوجہ بھی عذاب الہی سے نہ بچ سکے بلکہ غرق ہونے میں ان کو پہلا نمبر دیا گیا تاکہ بعد میں آنے والوں کو عبرت حاصل ہوجائے کہ عذاب الہی کا جب فیصلہ ہوجائے تو وہاں نبی ورسول جیسی محترم شخصیتیں بھی کسی کے کچھ کام نہیں آسکتیں اگرچہ عذاب دیئے جانے والے ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ۔ کتنا عبرت انگیز درس ہے اگر کوئی اس کو حاصل کرنے والا بھی ہو ۔
Top