Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 80
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ
وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے اسے سکھائی صَنْعَةَ : صنعت (کاریگر) لَبُوْسٍ : ایک لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے لِتُحْصِنَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں بچائے مِّنْ : سے بَاْسِكُمْ : تمہاری لڑائی فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم شٰكِرُوْنَ : شکر کرنے والے
اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو تمہارے لیے زرہیں بنانا سکھا دیا کہ تمہیں ایک دوسرے کی جنگ سے بچائیں پھر کیا تم شکر گزار ہو ؟
دادؤ (علیہ السلام) زرہیں بنانے کے کام میں بہت ماہر تھے : 80۔ زرہ کیا ہے ؟ زرہ لوہے کی کڑیاں بنا کر ان کو کرتہ کی شکل میں جوڑنے کا نام ہے اور یہ زرہیں پہن کر میدان جنگ میں لوگ نکلتے تھے تاکہ تیر وتلوار سے محفوظ رہیں ۔ اس جگہ اس کے ذکر کی یہاں اس لئے ضرورت پیش آئی کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) نبوت و رسالت کا پیغام بھی لوگوں تک پہنچاتے تھے اور اپنے ہاتھ سے محنت کرکے روزی بھی کماتے تھے جس پر ان کی گزران چلتی تھی لیکن نبیوں میں سے دادؤ (علیہ السلام) باوجود وقت کے بادشاہ ہونے کے بھی زرہیں بنانے کا کام کرتے تھے اور اس مزدوری سے وہ گزر اوقات کرتے تھے اور سلطنت ومملکت کے مالیہ سے ایک حبہ تک نہیں لیتے تھے اپنا اور اہل و عیال کی معاش کا بار بیت المال پر نہیں ڈالتے تھے بلکہ اپنی محنت اور ہاتھ کی کمائی سے حلال روزی حاصل کرتے اور اسی کو ذریعہ معاش بناتے تھے چناچہ دادؤ (علیہ السلام) کے اس وصف کو حدیث صحیح میں ان الفاظ کے ساتھ سراہا گیا ہے ۔ قال رسول اللہ ﷺ ما اکل احد طعاما قط خیرا من ان یا کل من عمل یدہ وان نبی اللہ داؤد (علیہ السلام) کان یا کل من عملہ یدہ “۔ (بخاری کتاب التجارۃ) ” رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی انسان کا بہترین رزق اس کے اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا ہوا رزق ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی محنت سے روزی کماتے تھے ۔ “ شارحین بخاری نے تحریر کیا ہے کہ سیدنا دادؤ (علیہ السلام) دعا مانگا کرتے تھے کہ خدایا ایسی صورت پیدا کر دے کہ میرے لئے ہاتھ کی کمائی آسمان ہوجائے کیونکہ میں بیت المال پر اپنی معاش کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا ۔ دراصل دادؤ (علیہ السلام) کا یہ پاک جذبہ اسی پیغمبرانہ امتیازات میں سے تھا جن کا ذکر قرآن کریم نے تمام اولوالعزم پیغمبروں کی رشد وہدایت کے سلسلہ میں کیا ہے کہ ہر نبی اپنی امت کو جب پیغام الہی سناتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ : (آیت) ” وما اسئلکم علیہ اجرا ان اجری الا علی اللہ “۔ ” اور میں اس خدمت کا کوئی معاوضہ تم سے نہیں چاہتا ، میرا معاوضہ تو اللہ کے ذمہ ہے ۔ “ حافظ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ حدیث بخاری کا مقصد یہ ہے کہ خلیفہ اسلام کو اگرچہ بیت المال سے بقدر کفاف وظیفہ لینا درست ہے لیکن افضل یہی ہے کہ اس پر بار نہ ڈالے چناچہ حضرت صدیق اکبر ؓ نے وفات کے وقت اس تمام رقم کو واپس کردیا تھا جو انہوں نے زمانہ خلافت میں بیت المال سے وظیفہ کی شکل میں لی تھی ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے دادؤ (علیہ السلام) کو اس کا یہ صلہ دیا کہ ایک تو ان کا نام اس سلسلہ میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا دوسرا ان کے ہاتھ پر لوہے کو اللہ نے اس قدر نرم کردیا تھا کہ وہ حدادی کے کام میں اتنے ماہر تھے کہ دوسروں کے مقابلہ میں کئی گنا کام زیادہ کرجاتے تھے اور ستھرا بھی کرتے اور انہوں نے لوہے کے کارخانے میں لوہا نرم کرنے کا کام بھی کیا اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دادؤ (علیہ السلام) سے قبل اس صنعت یعنی لوہے کے کاروبار نے اتنی ترقی کرلی تھی کہ فولاد کو پگھلا کر اس سے سپاٹ ٹکڑے بناتے اور ان کو جوڑ کر زرہ بنایا کرتے تھے لیکن یہ زرہ بہت بھاری ہوتی تھی اور چند قوی ہیکل انسانوں کے علاوہ عام طریقہ سے ان کا استعمال بہت مشکل اور دشوار سمجھا جاتا تھا اور میدان جنگ میں سبک خرامی دشوار ہوجاتی تھی سیدنا دادؤ (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت بخشی کہ انہوں نے ایسی زرہیں ایجاد کیں جو باریک اور نازک زنجیروں کے حلقوں سے بنائی جاتی تھیں اور ہلکی اور نرم ہونے کی وجہ سے میدان جنگ کا سپاہی ان کو پہن کر بآسانی نقل و حرکت بھی کرسکتا تھا اور دشمن سے محفوظ رہنے کے لئے بہت عمدہ ثابت ہوتی تھیں اور اس کو قرآن کریم کی زیر نظر آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو تمہارے لئے زرہیں بنانا سکھا دیا کہ تمہیں ایک دوسرے کی زد سے بچائیں پھر کیا تم شکر گزار ہو ۔ “ اور دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان کیا کہ ” اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے لئے لوہا نرم کردیا اور کشادہ زرہیں بناتے اور اندازہ کے ساتھ کڑیاں جوڑتے اور بلاشبہ تم جو کچھ کرتے ہو ‘ میں اس کو دیکھتا ہوں ۔ “
Top