Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 92
اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً١ۖ٘ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ
اِنَّ : بیشک هٰذِهٖٓ : یہ ہے اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک (یکتا) ڮ وَّاَنَا : اور میں رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْنِ : پس میری عبادت کرو
یہ تم سب کی امت ایک ہی امت ہے اور میں ہی تم سب کا پروردگار ہوں ، پس چاہیے کہ میری بندگی کرو
سارے انبیاء ورسل ایک ہی امت وجماعت تھے سب اللہ کی بندگی کرتے تھے : 92۔ تمام انبیاء ورسل کا مختصر ذکر کرنے کے بعد بطور خلاصہ ارشاد فرمایا کہ ” بلاشبہ تم سب کی امت ایک ہی امت ہے اور میں ہی تم سب کا پروردگار ہوں “ اس سے یہ بات واضح کردی کہ اصل دین شروع سے لے کر آج تک ایک ہی چلا آرہا ہے اور فروعات کا اختلاف قدرتی ہے جس کو رہنا ضروری ہے اور یہ کہ اصولوں میں اختلاف شروع سے آج تک نہیں ہوا لیکن لوگوں نے اصولوں اور فروعات کو کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی اور جب یہ رسل وانبیاء سب ایک امت ہیں تو ان کی ساری قومیں کیونکر ایک امت نہ ہوں گی لیکن افسوس یہ کہ جن لوگوں کو یہ ہدایت دی گئی تھی آج وہی اس کے خلاف کرنے میں پیش پیش ہیں اور وہ مسلمان کہلانے کے باوجود ایک امت اور ایک جماعت بننے کے لئے تیار نہیں اور جب تک ان کی اختیار کردہ گروہ بندی کا نام نہ لیا جائے وہ فقط مسلمان کہلانے کے لئے تیار نظر نہیں آتے پھر تعجب بالائے تعجب یہ کہ ہر گروہ دوسرے گروہ کو مسلمان تصور کرنے کے لئے تیار نہیں یہی بات آئندہ آنے والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہے بشرطیکہ کوئی غور کرنے کے لئے تیار ہو ۔ تفصیل کے لئے دیکھو تفسیر عروۃ الوثقی میں سورة البقرہ آیت 130 تا 133 ‘ آل عمران 19 ‘ 20 ‘ 33 ‘ 34 ‘ 64 ‘ 79 تا 85 ‘ النساء 150 تا 152 ‘ الاعراف 59 ‘ 65 ‘ 85 ‘ سورة یوسف 37 تا 40 ‘ مریم 49 تا 59 وغیرہ ۔ اس آیت پر ذرا مزید رک جاؤ کیونکہ یہ تمام تذکرہ کا خلاصہ ہے جو انبیاء کرام کا اوپر گزر چکا ہے یعنی اللہ کے یہ تمام رسول جو مختلف اور قوموں میں ظاہر ہوئے ان سب کی دعوت کا ماحصل کیا تھا ؟ انہوں نے نسل انسانی کے مختلف عہدوں اور گروہوں کو کس بات کا پیغام پہنچایا ؟ وہ بات ایک ہی تھی یا ایک سے زیادہ ؟ یہ آیت اپنے نپے تلے لفظوں میں جواب دیتی ہے کہ ان سب کا پیغام ایک ہی تھا اور وہ یہی تھا کہ (آیت) ” ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون “۔ تم سب ایک ہی امت ہو تم سب کا پروردگار ایک ہی ہے ‘ پس الگ الگ نہ ہو ‘ اس کی بندگی کرو (آیت) ” وتقطعوا امرھم بینھم “۔ لیکن قوموں نے یہ تعلیم بھلا دی اور اپنے دین کا معاملہ آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا یعنی ایک ہی دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بہت سے دین بنا لئے اور ہر گروہ دوسرے گروہ سے کٹ کر الگ ہوگیا ۔ وحدت کی جگہ تفرقہ اور اجتماع کی جگہ اشتات ان کا شعار ہوا (آیت) ” کل الینا راجعون “۔ مگر بالآخر سب کو ہماری طرف لوٹنا ہے اس وقت حقیقت حال آشکارا ہوجائے گی ۔ ہر گروہ دیکھ لے گا کہ اس کی حقیقت فراموشیوں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ؟ سبحان اللہ ! قرآن کریم کی یہ معجزانہ بلاغت کہ ایک چھوٹی سی آیت کے اندر اس معاملہ کے سارے دفتر کس طرح سمیٹ دیئے ہیں ؟ پھر صرف امر وخبر ہی نہیں ہے بلکہ ترتیب بیان نے خود بخود استدلال کی روشنی بھی پیدا کردی ہے : 1۔ (آیت) ” ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ “۔ تم نے کتنے ہی تفرقے پیدا کر رکھے ہیں مگر تمہاری امت اصلا ایک ہی امت ہے ۔ 2۔ (آیت) ” وانا ربکم “۔ اور میں ہی تم سب کا تنہا پروردگار ہوں میرے سوا کوئی نہیں ہے ۔ 3۔ (آیت) ” فاعبدون “۔ جب تمام نوع انسانی ایک ہی امت ہوئی اور سب کا پروردگار بھی ایک ہی ہوا تو پھر سب کے لئے بندگی ونیاز کی چوکھٹ بھی ایک ہی کیوں نہ ہو ؟ ایک سے دو کیوں ہو ؟ پس اس ایک کی بندگی کرو کیونکہ تم سب ایک ہی ہو اور ایک ہی کے لئے ہو ۔ یہاں ایک کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں ہے ! پھر غور کرو کہ (فاعبدون) کی ”“ یہاں کس طرح بول رہی ہے ؟ کس طرح اس نے استدلال کا پہلو پکار دیا ہے ؟ اس طرح ایک آیت کے اندر تینوں توحیدوں کا بیان جمع ہوگیا۔ توحید امت ‘ توحید ربوبیت ‘ توحید دین و عبادت اور یہی تین توحیدیں دعوت قرآنی کا اصل الاصول ہیں وہ ہر جگہ انہی کی صدا بلند کرتا ہے اور انہی پر اپنی تعلیم وتذکیر کی ساری بنیادیں استوار کرتا ہے ۔ توحید امت سے مقصود کیا ہے ؟ توحید امت سے مقصود یہ ہے کہ افراد انسانی کی کثرت و انتشار کے پردے میں اس کی دعوت چھپی ہوئی ہے اسے مت بھولو ۔ تمہاری نسل ‘ تمہارا وطن ‘ تمہاری بولیاں کتنی ہی الگ الگ ہوگئی ہوں مگر تم سب ایک نسل انسانی کا گھرانا ہو اور تمہارا اگر وہ اصل میں ایک ہی گروہ ہے ۔ توحید ربوبیت سے مقصود یہ ہے کہ تم نے کتنے ہی مختلف نام رکھ لئے ہوں ‘ کتنی ہی مختلف عبادت گاہیں بنا رکھی ہوں ‘ کتنے ہی مختلف تصور گھڑ لئے ہوں مگر تمہارے پیدا کئے ہوئے اختلاف سے حقیقت مختلف نہیں ہوسکتی جس طرح تم سب کا گروہ ایک ہی ہے اسی طرح تمہارا پروردگار بھی ایک ہی ہے ۔ اس ایک کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ۔ توحید عبادت سے مقصود ہے کہ جب گروہ ایک ہی گروہ ہے اور پروردگار ایک ہی پروردگار ہے تو دین بھی ایک ہی ہونا چاہئے وہ ایک سے زیادہ نہیں ہو سکتا ۔ پس سچائی کی راہ یہ ہوئی کہ اسی ایک کی بندگی کرو اور اس راہ میں مختلف اور متفرق نہ ہوجاؤ ۔
Top