Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 94
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهٖ١ۚ وَ اِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ
فَمَنْ : پس جو يَّعْمَلْ : کرے مِنَ : کچھ الصّٰلِحٰتِ : نیک کام وَهُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : ایمان والا فَلَا كُفْرَانَ : تو ناقدری (اکارت) نہیں لِسَعْيِهٖ : اس کی کوشش وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے كٰتِبُوْنَ : لکھ لینے والے
پس جس کسی نے نیک کام کیے اور وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کی کوشش اکارت جانے والی نہیں ، ہم اس کی نیکیاں لکھ لینے والے ہیں
اللہ پر ایمان لانے کے بعد نیک عمل کرنے والوں کے کبھی اعمال ضائع نہیں ہوں گے : 94۔ پھر اس ایک ہی آیت کے اندر صاف واضح کردیا کہ نجات وسعادت کا قانون کیا ہے ؟ یعنی قوموں کے اس تقطع اور گروہوں کے اس تفرق کے بعد بھی قانون نجات وسعادت کیا ہے ؟ فرمایا وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی یہی ہے کہ (آیت) ” فمن یعمل من الصالحات وھو مؤمن فلا کفران لسعیہ “۔ نجات کی شرط صرف دو باتیں ہیں ایمان اور عمل صالح جس انسان نے نیک عمل کئے اور اس کے اندر ایمان بھی ہوا تو اس کی سعی کبھی رائیگاں جانے والی نہیں ضروری ہے کہ مقبول ہو فمن کے زور پر غور کرو یہودی کہتے تھے کہ ” کونوا ھودا “ اور نصاری کہتے تھے ” کو نو نصاری “ قرآن کریم کہتا ہے نہیں (آیت) ” فمن یعمل من الصالحات وھو مؤمن “۔ کوئی ہو لیکن اگر وہ مومن ہو اور اس نے نیک عمل کی راہ اختیار کی تو اس کا ایمان وعمل کبھی ضائع نہیں ہو سکتا وہ اپنا اجر ضرور پائے گا (وانا لہ کاتبون) یہ ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون ہے ہم اس کا ایمان وعمل لکھ دینے والے ہیں پھر کون ہے جو اسے رائیگاں ٹھہرا سکتا ہے ؟ دنیا کا ہر انسان ٹھہرا دے لیکن ہمارے دفتر میں وہ ثبت ہوجائے گا ۔ مضمون کی اہمیت کے لئے یہ سطریں کافی نہیں ہیں لیکن اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے ۔
Top