Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 9
ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰهُمْ وَ مَنْ نَّشَآءُ وَ اَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِیْنَ
ثُمَّ : پھر صَدَقْنٰهُمُ : ہم نے سچا کردیا ان سے الْوَعْدَ : وعدہ فَاَنْجَيْنٰهُمْ : پس ہم نے بچا لیا انہیں وَمَنْ نَّشَآءُ : اور جس کو ہم نے چاہا وَاَهْلَكْنَا : اور ہم نے ہلاک کردیا الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر جس بات کا وعدہ کیا تھا وہ انہیں سچا کر دکھایا ، ہم نے انہیں اور جس کسی کو چاہا نجات دے دی اور حد سے نکل جانے والوں کو ہلاک کر ڈالا
وعدہ الہی سچا کر دکھانے اور بعض کو بچا کر بعض کو ہلاک کردینے کا ذکر : 9۔ وعدہ ہے اس جگہ کون سا وعدہ مراد ہے ؟ وہی وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے فرمایا تھا کہ اگر تمہاری تکذیب کریں گے تو ہم تمہاری تکذیب کرنے والوں کو ختم کرکے رکھ دیں گے لیکن اس کے لئے ایک متعین اور واضح قانون ہم نے بنا رکھا ہے جب اس دور تک پہنچ جائے گی اور ہمارا مقررہ قانون حرکت میں آئے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم ان کو تباہ وبرباد کردیں گے ۔ آپ کسی نبی ورسول کا تذکرہ پڑھ کر دیکھ لیں کیا ایسا نہیں ہوا ؟ اور اگر ہوا تو کب ؟ یہی وجہ ہے کہ ساری قوموں کے سارے رسولوں نے اپنی اپنی قوموں کو دو طرح کے عذابوں سے ڈرایا ایک اس دنیا کا عذاب اور دوسرا آخرت کا عذاب لیکن زیر نظر آیت میں پہلی قسم کا عذاب ہے جس کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ساتھ فرمایا جب وقت آیا تو ہم نے اپنے قانون کے مطابق ان لوگوں کو بچایا جو بچائے جانے کے قابل تھے اور زیادتی کرنے والوں کا ہم نے تیاپانچا کرکے رکھ دیا ۔ پھر یہ بھی کہ ان سے کہئے کہ تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں کہ وہ ہمارے منتخب بندے یعنی انبیاء ورسل بشر ہی تھے اور سب کے ساتھ وہ ضروریات لگی تھیں جو تمہارے ساتھ لگی ہیں اور غور کرو گے تو سمجھ لو گے کہ ہمیشہ ماضی سے حال تشکیل پاتا ہے اور حال سے مستقبل بنتا ہے اور انسانی زندگی کی یہی داستان ہے کہ جو شخص یا جماعت ماضی کی اصلاح کرکے حال کو درست کرلے انشاء اللہ اس کا مستقبل روشن ہوجاتا ہے اور جو حال کو ماضی سے بھی زیادہ بگاڑ دے اس کے مستقبل کے خراب ہوجانے کی پختہ دلیل ہے ۔
Top