Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّعْبُدُ : بندگی کرتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر حَرْفٍ : ایک کنارہ فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَهٗ : اسے پہنچ گئی خَيْرُ : بھلائی ۨ اطْمَاَنَّ : تو اطمینان پالیا بِهٖ : اس سے وَاِنْ : اور اگر اَصَابَتْهُ : اسے پہنچی فِتْنَةُ : کوئی آزمائش ۨ انْقَلَبَ : تو پلٹ گیا عَلٰي : پر۔ بل وَجْهِهٖ : اپنا منہ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا : دنا کا فساد وَالْاٰخِرَةَ : اور آخرت ذٰلِكَ : یہ ہے هُوَ الْخُسْرَانُ : وہ گھاٹا الْمُبِيْنُ : کھلا
اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کی بندگی تو کرتے ہیں مگر دل کے جماؤ سے نہیں ، اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچ گیا تو مطمئن ہوگئے اگر کوئی آزمائش آ لگی تو الٹے پاؤں اپنی حالت پر لوٹ پڑے وہ دنیا میں بھی نامراد ہوئے اور آخرت میں بھی اور یہی ہے جو آشکارا نامرادی ہے
اب ان دوگلی پالیسی والوں کو ذکر ہورہا ہے جو انہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے : 11۔ اسلام کی نظر میں دنیا کے سارے لوگ تین گروہوں میں تقسیم کئے گئے ہیں ۔ ایک گروہ وہ ہے جو سچے دل سے اسلام کو قبول کرتا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو کھلا مخالف ہے اور اس کی مخالفت کوئی چھپی ہوئی بات نہیں بلکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کے خلاف ہیں لیکن ایک تیسرا گروہ وہ ہے جو بظاہر اسلام لے آتا ہے لیکن اندر سے وہ کفر کو پسند کرتا اور ان لوگوں کے ساتھ دلی تعلق رکھتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اس گروہ کے لوگ زبان سے اسلام کے اقراری ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ اس کی رسم و رواج اور عبادات تک میں شریک ہوتے ہیں لیکن ان کی یہ شرکت ان کو بھی تذبذب سے نکلنے نہیں دیتی ان کی حالت زیر نظر آیت میں بتائی جا رہی ہے کہ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں ان کی یہ اپنے زبانی اقرار اور دائرہ اسلام میں برائے نام شمولیت کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں اور جو فائدے کافر ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونے ممکن نہیں ان کی خاطر یہ کفار سے جا کر ملتے ہیں اور ہر طریقہ سے ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کوئی ” متعصب مسلمان “ نہیں نام کا تعلق مسلمانوں سے ضرور ہے مگر ہماری دلچسپیاں اور وفاداریاں تمہارے ساتھ ہیں اس طرح ان کو باور کرا کر اس سے فائدے بھی حاصل کرتے رہتے ہیں ، ان کی حالت کو اس جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرتے ہیں مگر دل کے جماؤ سے نہیں اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچ گیا تو مطمئن ہوگئے اور اگر کوئی آزمائش آلگی تو لگے منہ بسورنے اور الٹے پاؤں اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ پڑے ۔ ایسے لوگ اس وقت بھی موجود تھے اور آج بھی ان کی کوئی کمی نہیں ہے روایات میں جن بدوی دیہاتیوں کا ذکر آیا ہے ان کا بھی یہی حال تھا کہ مدینہ میں آتے اور مسلمان ہوجاتے اگر یہاں رہنے میں ان کو فائدہ معلوم ہوتا تو یہیں کے ہو کر رہ جاتے اور باور کراتے کہ ہمارا واپس جانے کو دل نہیں مانتا اور اگر کسی طرح کی کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو بدشگونی لینے لگتے اور کہتے کہ ہم کو یہ دین راس نہیں آیا اور اس طرح منہ پھیرجاتے ہیں اور واپس اپنے لوگوں کے پاس جا کر مسلمانوں کی کمزوریوں کا خوب پرچار کرتے اور ان کو کہتے کہ ہم نے تو اسلام کے اندر جا کر دیکھ لیا ہے کہ اس میں خیر کی کوئی بات نہیں ہے ۔ آج تک اسلام کے اندر جتنی گروہ بندیاں معرض وجود میں آئی ہیں سب انہی جیسے لوگوں کی مرہون منت ہیں اور آج خصوصا اس ملک عزیز پاکستان میں سارے وڈیروں کی یہی حالت ہے الا ماشاء اللہ کہ انہوں نے اسلام کا نام باقی رکھا ہے تو محض اس لئے کہ اس ملک میں رہ کر وہ کوئی دوسرا نام نہیں رکھ سکتے آج بھی ان کو مسلمانوں کی بجائے یہودیوں ‘ عیسائیوں اور مجوسیوں ‘ ہندوؤں اور سکھوں سے دوستی ہے ۔ انہی کے بتائے ہوئے پروگراموں کے مطابق سب کچھ کرتے ہیں انہی کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور اندرون خانہ انہی سے ملے ہوتے ہیں لیکن بظاہر اسلام اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن اسلام کے ساتھ قطعا مخلص نہیں اگر کوئی ان میں ہے تو وہ ان کے ساتھ وابستہ رہنے میں خیر سمجھتا ہے اور مصلحت سے کام لے کر انہیں مصلحت اندیشوں کے ساتھ ملنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے کہ اس ملک کی قسمت کے وہ مالک سمجھے جا چکے ہیں ، فرمایا اچھی طرح سمجھ لو کہ ” وہ دنیا میں بھی نامراد ہیں اور آخرت میں بھی “ دنیا میں ان کی نامرادی یہ ہے کہ ان کی یہ حالت سب پر واضح ہوچکی ہے جو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ان کی مثال بلی کی سی ہے کہ وہ سو چوہے کھا کر بھی حجن کی حجن ہی رہتی ہے اور اپنا منہ اپنے پاؤں سے صاف کرلیتی ہے اور انہوں نے کیا کچھ ہے کہ ہضم نہیں کرلیا اور باقی کو ہڑپ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں فرق ہے تو صرف یہ کہ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ شرم نام کی کوئی چیز ان کے وجود میں باقی نہیں رہی اور پورے ملک کے اندر ہر جگہ ‘ ہر قریہ وبستی میں ان کی اس حالت کا چرچا ہے اور وہ خود بھی ایک دوسرے کو ” لوٹا “ کے خطاب سے نوازتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص اس کی رسوائی نہیں سمجھتا بلکہ عزت خیال کرتا ہے تو وہی یہ بتا دے کہ رسوائی کس شے کا نام ہے ؟ یا یہ کہ رسوائی نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود ہی نہیں ۔ رہی عوام کے فوائد کی وابستگی تو عوام بھی اس مثل کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ضرورت کے تحت گدھے کو باپ کہا جاسکتا ہے ، فرمایا یہ تو ان کی اس دنیوی زندگی کا حال ہے اور رہی آخرت تو وہ اس دنیا سے بھی زیادہ خراب اور برباد ہوگئی کیونکہ نامرادی ان کا مقدر بن کر رہ گئی ہے ، اس کی مزید وضاحت دیکھنا ہو تو تفسیر عروۃ الوثقی میں سورة النساء کی آیت 141 تا 143 کی تفسیر ملاحظہ کریں اور اس طرح سورة الانعام کی آیت 68 کو دیکھیں ۔
Top