Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 23
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا١ؕ وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُدْخِلُ : داخل کرے گا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : صالح (نیک) جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں يُحَلَّوْنَ فِيْهَا : وہ پہنائے جائیں گے اس میں مِنْ اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ ذَهَبٍ : سونے کے وَّلُؤْلُؤًا : اور موتی وَلِبَاسُهُمْ : اور ان کا لباس فِيْهَا : اس میں حَرِيْرٌ : ریشم
جو فریق ایمان لایا اور نیک عمل ہوا تو یقینا اللہ اسے (نعیم ابدی کے) باغوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں (ان پر کبھی خزاں نہیں آئے گی) انہیں وہاں سونے کے کنگن اور موتیوں کے ہار پہنائے جائیں گے اور لباس ان کا ریشمی ہو گا
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو باغات میں داخل فرمائے گا اور ان پر انعامات وافر کرے گا : 23۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ جنت اس مقام کا نام ہے جو نیکوکار انسانوں کا دائمی گھر ہوگا قرآن کریم میں عموما (الجنۃ) (باغ) اور (جنت) (باغات) کا لفظ آیا ہے اور کبھی کبھی مناسب اضافتوں کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے جیسے (جنۃ النعیم) (نعمت کا باغ) (جنۃ الخلد) (بقائے دوام کا باغ) (جنت عدن) دائمی سکونت کے باغ) (جنۃ الماوی) (پناہ کا باغ) وغیرہ پھر جنت کے انعامات کا ذکر بھی مختلف مقامات میں مختلف الفاظ اور مختلف اشیاء دیئے جانے کے ساتھ آیا ہے ، دنیا میں شخصی راحت و آرام کا بلند سے بلند تخیل ایک لفظ ” بادشاہی “ کے اندر بخوبی آسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر مانگنے والا جب مانگے گا تو وہ کہے گا ” بادشاہی قائم “ گویا انسان کی کوئی آرزو کامیابی سے محروم نہ رہے ۔ سامان راحت اور اسباب شادمانی کی فراوانی سے اس کی مسرت میں کسی غم کا شائبہ نہ ہو ۔ یعنی بادشاہی اس کیفیت کے نام ہے جس میں بہتی نہریں ‘ سرسبز و شاداب فصلیں ‘ سونے چاندی کے اسباب و سامان ‘ زروجواہر کے برتن ‘ زریں کمر غلام و خدام ‘ ریشمی لباس ‘ طلائی تخت ‘ موتیوں کے ہار ‘ سونے کے کنگن ‘ شراب کے زمردیں اور بلوریں پیالے ‘ حسین ومہ جبین بیگمات یہ سب کچھ ایک لفظ ” بادشاہی “ کے ضروری لوازمات ہیں اور یہ سچی تعریف تم کو ہمارے ابدی دشمن شیطان نے سنائی ہے اور جو دشمن کے منہ کی تعریف ہو اس کی حقیقت میں کیا کوئی شک وشبہ کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے اس نے ہمارے باوا آدم کو مخاطب کرکے بتایا تھا کہ تیرے لئے وہ بادشاہی ہے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ۔ (وملک لا یبلی) آنے والی زندگی کے اس غیر فانی عیش ومسرت کے لئے ” غیر فانی بادشاہی “ کے تصور نے باقی کیا رہنے دیا جس کو کسی اور رنگ میں بیان کیا جائے ؟ اور وہ کیا چیز ہے جو اس لفظ کے اندر نہیں آجاتی ؟ یہ بات بار بار دہرائی جا چکی ہے کہ عالم آخرت کی اشیاء کو جن دنیاوی الفاظ سے ادا کیا گیا ہے ان سے مقصود بالکل وہی نہیں ہیں جو ان لفظوں سے سمجھنے کے ہم عادی ہیں بلکہ ان اخروی اشیاء کو ان دنیاوی الفاظ سے اس لئے ادا کیا گیا ہے کہ اس کے سوا کوئی ایسے الفاظ نہیں تھے جن میں اس کو بیان کیا جاتا تو ہم سمجھ سکتے اور ہماری تفہیم اور ہماری سمجھ کے لئے ضروری تھا کہ ان اشیاء کو انہیں ناموں سے پکارا جائے جن کی لذت ولطف اور آرام سے ہم واقف ہیں گویا یہ ایک پیرایہ بیان ہے تاکہ ان ان دیکھی اشیاء کو ہم سمجھ سکیں اور ان کو حاصل کرنے کی ہمارے اندر رغبت پیدا ہو ۔ چناچہ زیر نظر آیت میں بھی ارشاد فرمایا گیا کہ ” جو فریق ایمان لایا اور نیک عمل ہوا تو یقینا اللہ تعالیٰ اسے باغوں میں داخل کرے گا کہ ان کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں انہیں وہاں سونے کے کنگن اور موتیوں کے ہار پہنائے جائیں گے اور لباس اس کا ریشمی ہوگا ۔ “
Top