Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 24
وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ١ۖۚ وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ
وَهُدُوْٓا : اور انہیں ہدایت کی گئی اِلَى : طرف الطَّيِّبِ : پاکیزہ مِنَ : سے۔ کی الْقَوْلِ : بات وَهُدُوْٓا : اور انہیں ہدایت کی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطِ : راہ الْحَمِيْدِ : تعریفوں کا لائق
انہیں ایسی بات کی رہنمائی ملی جو نہایت پاکیزہ ہے انہیں ایسی راہ پر چلایا گیا جس کی ستائش کی گئی
انہیں پاکیزہ باتوں کی طرف راہنمائی ملی اور وہ ایسے راہ پر چلے : 24۔ فرمایا اہل جنت ‘ جنت تک کیسے پہنچ گئے ؟ اس لئے کہ ان کو دنیا میں پاکیزہ باتوں کے قبول کرنے کی توفیق بخشی گئی اور انہیں رب ذوالجلال والاکرام کے بتائے گئے راستہ کی طرف جب دعوت دی گئی تو انہوں نے اس کو فورا قبول کرلیا اور ان سعید روحوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن اس راستہ سے ہٹنا کبھی پسند نہ کیا اور آج اس رب ذوالجلال والاکرام نے جب جنت کے انعامات سے نوازا تو ان کے دلوں کی گہرائی سے یہی ترانہ گایا گیا ۔ (آیت) ” الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشآئ “۔ (الزمر 39 : 74) ” سب اچھی تعریفیں اس ذات کبریا کے لئے ہیں جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو اس جنت الارض کا وارث بنا دیا اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں ۔ “ یعنی ہم میں سے ہر ایک کو جنت بخشی گئی ہے وہ اب ہماری ملک ہے اور ہمیں اس میں پورے اختیارات حاصل ہیں اور ان کے اس طرح کے ترانہ کا ذکر دوسری جگہ اس طرح کیا گیا ہے : (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن ان ربنا لغفور شکور ، الذی احلنا دارالمقامۃ من فضلہ لا یمسنا فیھا نصب ولا یمسنا فیھا لغوب “۔ (فاطر 35 : 34 ‘ 35) ” الحمد للہ ! سب اچھی تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ہیں جس نے ہم سے غم دور کردیا بلاشبہ ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر دان ہے جس نے ہمیں اپنے فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھہرا دیا اب نہ ہمیں اس جگہ کوئی مشقت پیش آئے گی اور نہ ہی کوئی تکان لاحق ہوگی ۔ “ مثل ہے کہ جو برتن میں ڈالا گیا ہو وہی اس سے نکلتا ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے جسم کے برتنوں کو صاف رکھنے اور ان میں نیکیاں بھرنے کی توفیق دے تاکہ آنے والے کل ہم بھی ذات کی تعریف کے گیت گائیں ، یہاں سے مضمون بیت اللہ اور پھر اس کی نسبت سے اسلامی فریضہ حج کی طرف پھر رہا ہے ۔
Top