Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 28
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ٘
لِّيَشْهَدُوْا : تاکہ وہ آموجود ہوں مَنَافِعَ : فائدوں کی جگہ لَهُمْ : اپنے وَيَذْكُرُوا : وہ یاد کریں (لیں) اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام فِيْٓ : میں اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ : جانے پہچانے (مقررہ) دن عَلٰي : پر مَا : جو رَزَقَهُمْ : ہم نے انہیں دیا مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِنْهَا : اس سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْبَآئِسَ : بدحال الْفَقِيْرَ : محتاج
وہ اس لیے آئیں گے کہ اپنے فائدے پانے کی جگہ حاضر ہوجائیں اور ہم نے جو پالتو چارپائے ان کے لیے مہیا کردیئے ہیں ان کی قربانی کرتے ہوئے مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں ، پس قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ
حج کی غرض سے بیت اللہ کی طرف آنے والوں کی غرض بھی واضح کردی : 28۔ لوگوں کے حج کرنے کی طرف والہانہ چلے آنے کی غرض بھی بیان کردی گئی فرمایا کہ انسان جہاں جاتا ہے اس کی ضروریات بھی اس کے ساتھ ہی جاتی ہیں جب وہاں لوگ اکٹھے ہوں گے تو ان لوگوں کی ضروریات بھی ہوں گی اور وہ ان کو پورا کرنے کے لئے اپنی ضروریات کی اشیاء کو خریدیں گے اور پھر جب خریدنے والے ہوں گے تو کیسے ہو سکتا ہے وہاں بیچنے والے نہ ہوں اور اس خریدنے اور بیچنے میں لوگوں کے لئے منافع رکھا گیا ہے بلاشبہ یہ دنیوی فوائد ہیں اور مذہبی فریضہ ادا کرنے سے اس فریضہ کو ادا کرنے والوں کے گناہ بھی رب ذوالجلال والاکرام معاف فرمائے گا اس طرح جہاں لوگوں کے دینی اور دنیوی دونوں قسم کے فوائد وابستہ ہوں گے وہاں لوگوں کا جانا یقینی ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہاں لوگ اکٹھے نہ ہوں ۔ اب تم خود غور کرو کہ آج فی زماننا ہمارے ملک سے پچپن ‘ ساٹھ ہزار روپے فی کس خرچہ ادا کیا جا رہا لیکن لوگ ہیں کہ حج کے لئے رواں دواں ہیں اور سعودیہ کی منڈیوں میں مال اس طرح دھڑا دھڑ پہنچ رہا ہے کہ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جو وہاں سے مل نہ رہی ہو حالانکہ سعودیہ کا آج بھی بیشتر حصہ بدستور اسی طرح غیر ذی ذرع پڑا ہے ۔ وہاں کا منظر دیکھ کر آج بھی انسان کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے کہ جو غرض رب ذوالجلال والاکرام نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے وہ کس طرح پوری کی جا رہی ہے کہ یہاں لوگ آتے ہیں تو روحانی برکتوں کے ساتھ ساتھ دنیاوی نعمتوں سے بھی مالا مال ہو کر جاتے ہیں ، دینی نعمت و برکت تو یہ ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” جس شخص نے اللہ کی رضا کے لئے حج کیا اور اثنائے حج میں فحش کلامی اور برائی سے بچتا رہا وہ جب واپس لوٹے گا تو گناہوں سے اس طرح پاک ہوگا جس طرح اس دن پاک تھا جب اس کی ماں نے اس کو جنا تھا اور دنیوی منفعت یہ کہ لوگ کاروبار کرتے ہیں اور خوب نفع کماتے ہیں اور دور دراز ملکوں سے آنے والے لوگ اپنی ضروریات کی چیزیں خرید کرلے جاتے ہیں ۔ اگر آپ مزید غور کریں گے تو یقینا آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ حج دنیاء اسلام کی ایک عالمی کانفرنس بھی ہے اور ذکر و عبادت ‘ حج وقربانی کے علاوہ دنیائے اسلام کے سارے مسائل پر غور فکر کرنے کا ایک زریں موقع بھی ، خلافت راشدہ کے زمانہ میں ایام حج میں مملکت اسلامیہ کے تمام صوبوں کے گورنر اور دیگر اعلی حکام مکہ میں جمع ہوتے تھے اور مقامی دشواریوں اور مشکلات کو دور کرنے کے مشورے کئے جاتے تھے لیکن افسوس کہ اس وقت مسلمانوں نے اس کی ساری افادیت کو نسیان طاق پر رکھ دیا ہے اور سوائے ایک رسم پوری کرنے کے جو اصل غرض وغایت اسلام تھی وہ پوری ہوتی نظر نہیں آتی ۔ اللہ تعالیٰ اسلامی مملکتوں کے حکمرانوں کو ان دنوں میں بیت اللہ میں جو جائے امن وسلامتی ہے جمع ہو کر اپنی اپنی مشکلات ودشواریوں کو ایک دوسرے سے بیان کرکے اس کا اجتماعی حل تلاش کرنا چاہئے بلکہ وہاں کی حکومت کو اپنا پیشوا ومقتدا مان کر اس کے تابع رہ کر اپنے اپنے ملکوں کا نظام چلانا چاہئے ‘ اسی طرح کہ سب مسلمان مل کر ایک قوم ہیں اور ایک قوم کا ایک امام و پیشوا ہونا بھی ضروریات دین میں سے ہے اس طرح سارے اسلامی ممالک کا ایک قانون اور ایک لائحہ عمل ہوجائے تو آج بھی دنیا کی کوئی قوم ان کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتی لیکن افسوس کہ ” ایں خیال است ومحال است وجنون۔ “ حج کے معلوم دونوں کی تفصیل ‘ ذبح ونحر کا طریقہ اور اس کی افادیت ‘ بہیمۃ الانعام کی وضاحت ‘ قربانی کی پیش کرنے کی غرض وغایت ‘ قربانی کا طریقہ اس وقت جو کچھ وہاں کیا جارہا ہے اس کا مکمل بیان بھی سورة البقرہ کی آیات 124 میں کیا گیا ہے اس کے لئے تفسیر عروۃ الوثقی کی مذکورہ آیات کو بغور مطالعہ کرنے سے سب کچھ معلوم ہوگا انشاء اللہ ۔ (البائس الفقیر) سے بدحال محتاج ہے یعنی سخت محتاج اس سے محتاجوں تک گوشت کا پہنچانا لازم آتا ہے نہ کہ جلا دینا۔
Top