Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 41
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِنْ : اگر مَّكَّنّٰهُمْ : ہم دسترس دیں انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَقَامُوا : وہ قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَوُا : اور ادا کریں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاَمَرُوْا : اور حکم دیں بِالْمَعْرُوْفِ : نیک کاموں کا وَنَهَوْا : اور وہ روکیں عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے عَاقِبَةُ : انجام کار الْاُمُوْرِ : تمام کام
یہ وہ ہیں کہ اگر ہم نے زمین میں انہیں صاحب اقتدار کردیا تو وہ نماز قائم کریں گے زکوٰۃ کی ادائیگی میں سرگرم ہوں گے ، نیکیوں کا حکم دیں گے ، برائیاں روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ ہے
ان کو اقتدار حاصل ہوجائے تو وہ نظام صلوۃ اور نظام زکوۃ قائم کرتے ہیں : 41۔ کھانا کھایا جاتا اور پانی پیا جاتا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ بھوک وپیاس ختم ہو اور انسان اطمینان حاصل کرکے اور اپنا ایندھن حاصل کرکے یکسوئی کے ساتھ اپنی شبانہ روز محنت میں مصروف ہو سکے لیکن اگر کھانے سے بھوک نہ اترے اور پینے سے پیاس مزید بھڑک جائے پھر ؟ ظاہر ہے کہ پھر وہ انسان بیمار ہے اور اس کو اپنا علاج کرنے کی فکر کرنی چاہئے ورنہ وہی چیزیں جو اس کی زندگی کا باعث تھیں اس کی جان لیوا ہوجائیں گی ، یہی بات ان لوگوں کی ہے جن کا ذکر گزشتہ آیت میں بیان ہوا اور زیر نظر آیت میں فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوا قتدار میسر کر دے تو وہ اپنے دور اقتدار میں نظام صلوۃ قائم کرتے ہیں اور نظام زکوۃ رائج کرتے ہیں ۔ اس کی تشریح ہم اس سے پہلے مختلف مقامات پر کرچکے ہیں کہ نظام صلوۃ وہی ہوگا جس میں برائیاں مٹ جائیں اور نیکیاں جنم لیں کیونکہ نماز کی اصل حقیقت ہی یہ ہے کہ ” نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔ “ گویا جس نظام میں فحش کام رک جائیں اور برے کام ختم کرا دیئے جائیں وہ حکومت یقینا اسلامی حکومت ہے اور وہ نظام یقینا نظام صلوۃ کہلانے کا مستحق ہے اور جب تک کوئی حکمران اپنی حکمرانی کے دور میں یہ کام نہیں کر دکھاتا وہ دور اسلامی دور اور وہ سلطنت اسلامی سلطنت کہلانے کی حق دار نہیں ہے اور نظام زکوۃ وہ نظام ہے جس میں دولت کا بیلنس قائم ہو کر امیر و غریب کو کم از کم اس کی فطری ضروریات کے پورا کرنے کے مواقع میسر آئیں اور حکومت اسلامی اس کی ان ضروریات زندگی کی ذمہ دار قرار پائے اور کسی انسان کو دست سوال دراز کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے الا یہ کہ وہ اپنی ضروریات اگر بیان کرے تو فقط اس حکومت کے سامنے جس حکومت کو اللہ نے قائم کیا ہے اور وہ حکمران سمجھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عطا ہے اور میں اس کے متعلق اپنے رب ذوالجلال والاکرام کے ہاں جواب دہ ہوں جس معاشرہ میں یہ باتیں میسر آجائیں وہاں یہ سب کچھ اللہ کے خوف کے تحت اور قانون خداوندی کی حفاظت کے لئے کیا جا رہا ہے تو یقینا وہ حکومت اسلامی حکومت اور وہ ملک اسلامی مملکت کہلانے کا حق دار ہوگا اور جس ملک میں یہ کچھ میسر نہ ہو خواہ وہاں اسلام کا کتنا بھی شور ہو رہا ہو وہ حکومت اسلامی حکومت اور وہ مملکت اسلامی مملکت نہیں ہو سکتی ۔ بلاشبہ نماز کے انفرادی فوائد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا اجتماعی فائدہ یہی ہے کہ اخلاقی قوت حاصل ہو جس دور کی یہ بات ہو رہی ہے اس پر ذرا غور کرو کہ مکہ کے اس محالو میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں مادی طاقت وقوت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت وقوت درکار تھی اور اس اخلاقی قوت کی پیدائش اور اس کی نشو ونما کے لئے اس بات کی تلقین کی گئی ایک اقامت صلوۃ اور دوسری ادائیگی زکوۃ اس لئے کہ اقامت صلوۃ ہی وہ ذریعہ ہے جس سے لوگ ان برائیوں سے پاک ہو سکتے ہیں جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ مبتلا تھے اور جن میں اس وقت کی سوسائٹی جس میں اہل عرب گھرے ہوئے تھے مبتلا نظر آتی تھی اور ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھتا کہ یہ بجائے خود ان لوگوں کے لئے دنیا وآخرت میں نافع ہے جنہیں یہ پاکیزگی حاصل ہو بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان کو ان سب لوگوں پر برتری حاصل ہوجاتی ہے جو مختلف طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اس ناپاک نظام کو جو ان برائیوں کی پرورش کرتا ہے برقرار رکھنے کے لئے ان پاکیزہ انسانوں کے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں اور انجام کار وہ منہ کی کھائیں اور ایسے گریں کہ ان کو اٹھنے کی ہوش ہی نہ رہے ۔ غور کروتو اس آیت سے بہت کچھ حاصل ہوتا جائے گا ۔ احادیث میں ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا من لم تنہ صلوتہ عن الفحشاء والمنکر فلا صلوۃ لہ ” یعنی جس شخص کو اس کی نماز نے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے ۔ “ (ابن ابی حاتم عن عمران بن حصین) تفصیل کے لئے سورة البقرہ کی آیت 124 تا 128 پر ایک نظر ڈال لیں۔ مسلمانوں کے اقتدار کے ثمرات کو دیکھنا ہو تو اس دور کی طرف بڑھو جس کا آغاز حرم کی سرزمین سے ہوا تھا جس کی حیثیت ملت اسلامی کے قلب کی ہے اور کاش کہ آج بھی اہل اسلام اس کو حکومت اسلامی کا مرکز مان لیں اور ایک امام کے زیر سایہ ہو کر اپنی قوت کو جمع کریں اور اپنی اسلامی نظام صلوۃ اور نظام زکوۃ کو نافذ کرنے کی کوشش کریں اور یقینا آج بھی اللہ تعالیٰ ان کی اسی طرح مدد کرے جس طرح اس نے اس وقت کی تھی ۔ زیر نظر آیت کے آخری الفاظ پر بھی غور کرلو کہ ارشاد فرمایا ” نیکیوں کا حکم دو اور برائیوں سے روکو “ وہ اس وقت ممکن ہے جب نیکیوں کا حکم دینے والے خود نیک اور صالح انسان ہوں گے اور برائیوں سے وہ کوسوں دور بھاگیں گے اس طرح جب وہ دوسروں کو ان باتوں کا حکم دیں گے تو یقینا ان کے حکم دینے میں ایک اثر ہوگا اور اس طرح جو وہ چاہیں گے اس کا نتیجہ حاصل کریں گے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ ” تمام کاموں اور تمام باتوں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ “ اور یہ وہی بات ہے جس کو ہمارے ہاں اس طرح بھی ادا کیا جاتا ہے کہ ” جیسا کرو گے ویسا بھرو گے “ ” کر بھلا ہوبھلا “ اور ” جو بیجوگے وہی کاٹو گے “ نیکی کا ثمرہ برائی اور برائی کا ثمرہ نیکی نہیں ہو سکتا ۔ کاش کہ یہ بات ہمارے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کے ذہن تک بھی پہنچ جائے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بگڑنے سے سارا نظام بگڑ گیا ہے اور اگر ان کی اصلاح ہوجائے تو یقینا پورا اسلامی معاشرہ قائم ہوجائے اور اس میں ذرا بھی دیر نہ لگے ۔ بلاشبہ یہ وہی بات ہے جو ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” جسم کے اندر ایک ایسا عضو بھی ہے اگر وہ درست ہوجائے تو پورا جسم درست ہوجاتا ہے اور اگر وہ درست نہ ہو تو جسم کبھی درست نہیں ہو سکتا “۔ بعد میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ” الاوھی القلب “ خبردار وہ دل ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہبی راہنماء اور سیاسی لیڈر ہی ہر ایک ملک کا دل ہوتے ہیں اگر یہ خراب ہوجائیں تو معاشرہ کبھی درست نہیں ہو سکتا جیسا کہ آج کل مسلمانوں کا عموما اور پاکستانی مسلمانوں کا خصوصی طور پر حال ہو رہا ہے کہ یہی وہ عضو ہے جو مکمل طور پر خراب ہوچکا ہے ۔
Top