Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 47
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ١ؕ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالْعَذَابِ : عذاب وَلَنْ : اور ہرگز نہیں يُّخْلِفَ : خلاف کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاِنَّ : اور بیشک يَوْمًا : ایک دن عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے ہاں كَاَلْفِ سَنَةٍ : ہزار سال کے مانند مِّمَّا : اس سے جو تَعُدُّوْنَ : تم گنتے ہو
اور یہ لوگ تجھ سے عذاب کے مطالبہ میں جلدی مچا رہے ہیں اور اللہ کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے مگر تیرے پروردگار کے یہاں ایک دن کی مقدار ایسی ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ایک ہزار برس
یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ اللہ کے ہاں ہرچیز کا ایک وقت مقرر ہے : 47۔ ” یہ لوگ آپ ﷺ سے عذاب کے لئے جلدی مچا رہے ہیں “ بلاشبہ آپ ﷺ نے اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہمارے حکم سے ان کو کہا کہ اگر تم نے میرے لائے ہوئے دین کو قبول نہ کیا اور اپنے باپ دادا کی باتوں پر جمے رہے تو اللہ کا عذاب تم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۔ ان لوگوں نے آپ کی یہ بات سنی تو آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن ایسے انکار کے باوجود وہ زندہ ہیں اور اپنی من مانیاں کر رہے ہیں اور آپ کو نہایت دریدہ دہنی سے یہ بات کہتے ہیں کہ تم نے تو ہم کو عذاب الہی آجانے کی دھمکی دی ہے اور ہم تیری مخالفت کر رہے ہیں اور تیرے لائے ہوئے دین کو قبول نہیں کر رہے تو پھر وہ تیرا موعود عذاب آکیوں نہیں گیا ؟ جس طرح تیری یہ بات صحیح نہیں اسی طرح تیرا سارا ہی لایا ہوا دین جس کا نام تو نے اسلام رکھا ہے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ کفار کی یہ باتیں سن کر آپ ﷺ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکو جواب یہ دیا گیا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ان سے کہئے کہ جلدی نہ کرو میں نے تم سے کوئی عذاب آنے کا وقت تو مقرر نہیں کیا تھا کہ فلاں تاریخ اور فلاں وقت عذاب الہی تم کو اپنی گرفت میں لے لے گا فقط عذاب آنے کا وعدہ کیا ہے اور وہ بھی میں نے نہیں بلکہ اللہ نے مجھے کہا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کی کہی ہوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی میں اب کہتا ہوں کہ اگر تم اپنی مخالفت پر اسی طرح ڈٹے رہے اور اس دعوت کو قبول نہ کیا تو یقینا عذاب الہی تم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا ‘ کیونکہ اللہ کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہو سکتا ، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک دن بعض حالات کے لحاظ سے ایک ہزار برس کا ہوتا ہے اور بعض لحاظ سے پچاس ہزار سال کا ہوتا ہے جن دنوں کو تم گنتے اور ان سے سال بناتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ! ہرچیز کا اور ہر بات کا ایک وقت متعین ہے جس کو وہی جانتا ہے اور اس کے سوا اس مقرر وقت کو کوئی نہیں جانتا اور جب وہ وقت آجائے گا اس کے بعد ایک پل پھر کسی کو ڈھیل نہیں دی جائے گی اور نہ ہی دی جاتی ہے لیکن جس طرح اس کے ہاں ڈھیل نہ دیئے جانے کا فیصلہ ہے اسی طرح اس کے وقت آنے میں تقدیم بھی ممکن نہیں ، کیونکہ جہاں ڈھیل نہیں دی جاتی وہاں پہل بھی نہیں کی جاسکتی ، قرآن کریم نے بار بار یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ” اللہ کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ وہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے “ اس نے فرمایا ہے کہ ” ہر جان مرے گی “۔ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی مخلوق ہو لیکن زندہ ہی رہے کبھی نہ مرے ، اس نے فرمایا ہے کہ ” میں اس دنیا میں دوبارہ کسی کو نہیں لوٹاؤں گا “ اور اب ممکن نہیں کہ اس دنیوی زندگی میں ایک بار ختم ہونے کے بعد کوئی شخص دوبارہ زندہ ہو کر آجائے “ تخلیق انسانی کے بعد اس نے فرمایا ہے کہ میں انسانوں کو زوجین سے پیدا کروں گا اور ممکن نہیں کہ کبھی کوئی انسان زوجین کے علاوہ پیدا ہو کر اس دنیا میں آجائے ‘ زوجین عرف اسلام کے مطابق جائز ہوں یا ناجائز ۔ آنے والا بچہ حلال کا ہو یا حرام کا ۔ ہاں ! نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق ضروری ہے کہ نبی ورسول ہونے والا انسان حلال اور جائز طریقہ سے آیا ہو ناجائز اور حرام طریقہ سے نہ آیا ہو اس لئے کہ کسی نبی کا نسب ناجائز نہیں ہو سکتا ۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ نیکوکاروں کو جنت میں اور بدکاروں کو دوزخ میں ڈالے گا لہذا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی نیکو کار جہنم میں اور کوئی بدکردار بہشت میں چلا جائے بشرطیکہ وہ اپنی اس نیکو کاری یا اس بدکاری وبدکرداری پر مرجائے ، ہاں ! جب تک انسان زندہ ہے اس وقت تک کسی نیک کے بد ہونے اور کسی بد کے نیک ہونے کا اصول اس نے پہلے واضح فرما دیا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ جملہ سنتے ہی کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کرتا “ بعض چہروں پر بل پڑجاتے ہیں اور وہ ایک نہیں بیسیوں باتیں کریں گے اور لوگوں کو بتائیں گے کہ دیکھو اللہ کے فلاں رسول نے فلاں فلاں مردہ کو زندہ کیا تھا ‘ فلاں کو پیدا کیا تھا ‘ فلاں کو بینا کیا تھا اس لئے اللہ قادر مطلق بھی چاہے وہ کچھ کرے کون ہے جو اس کے متعلق یہ کہے کہ وہ اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کرتا ، اس کی تشریح ہم کتنے مقامات پر پیچھے کر آئے ہیں اور اب زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کسی دوسرے نے اس کے متعلق ایسا نہیں کہا اور بلاشبہ ” وہ کبھی اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کرتا “ تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی سورة البقرہ آیت 80 ‘ سورة آل عمران آیت 9 ‘ 194 اور سورة الرعد آیت 31 ‘ سورة ابراہیم آیت 47 کی تفسیر ملاحظہ کریں ۔
Top