Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہم نے ہر امت کے لیے ایک طور طریقہ ٹھہرا دیا ہے جس پر وہ چل رہے ہیں پس لوگوں کو اس معاملہ میں تجھ سے جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں ، تو اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو دعوت دے یقینا تو ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن ہے
ہر امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر ہے آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے جائیں : 67۔ (منسک) کے متعلق سورة ہذا کی آیت 34 میں ذکر گزر چکا ہے اور سورة البقرہ کی آیت 200 سے 256 تک مناسک حج کا ذکر کیا جا چکا ہے وہاں پوری تفصیل کردی گئی ہے اس جگہ پر لفظ شریعت اسلامی کے قواعد و ضوابط کے لئے بیان کیا گیا ہے اور یہ بات گویا تمام امتوں اور جماعتوں کو مخاطب کر کے کہی جا رہی ہے جو قرآن کریم کے نزول کے وقت مذہب کے نام سے معرض وجود میں آچکی تھی اور خصوصا یہود ونصاری جو بزعم خویش اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہونے کے دعویدار تھے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی مخالفت کے باعث قریش مکہ کے کان بھرتے رہتے تھے اور مناظرہ کے لئے ان کو تیار کرتے رہتے تھے بہرحال ان سب کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ جس طرح ساری جماعتیں اپنی اپنی جگہ کوئی طریقہ عبادت رکھتی ہیں اگرچہ ان میں زیادہ تر وہی باتیں ہیں جو ان کی اختراعی ہیں تاہم کسی نہ کسی طریقہ پر وہ عبادت کرنے کی مدعی ہیں اس طرح اہل اسلام کے لئے بھی ہم نے ایک طریقہ عبادت مقرر کردیا ہے ۔ پھر اس میں اختلاف کر کے خواہ مخواہ کا جھگڑا کردینا کہاں کی عقل مندی ہے اور خصوصا جب کہ یہ بات اپنی جگہ واضح ہے کہ پہلے آئے ہوئے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شریعتوں اور طریقوں میں ان کے ماننے والوں نے کسی حد تک ان میں ردوبدل کردیا لیکن محمد رسول اللہ ﷺ چونکہ ان سب کے بعد آئے ہیں اس لئے لوگوں کی ملاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا خالص دین لوگوں تک پہنچایا اور وہ بھی اس طریقہ سے کہ کسی جماعت وفرد کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں کیا بلکہ خاموشی کے ساتھ وہ کرلیا جو صحیح تھا اور اس کو چھوڑ دیا جو صحیح نہیں تھا تاکہ کسی کاتنازع اور جھگڑا کھڑا نہ ہو بلکہ جو اس حق کو قبول کرنا چاہے وہ بخوشی کرلے اور جو نہ چاہے اس سے مناظرہ اور مباحثہ کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ مناظرہ اور مباحثہ سے حق کو تسلیم نہیں کرایا جاسکتا بلکہ فریقین کے درمیان بعد اور دوری مزید بڑھ جاتی ہے ۔ ہم نے اس مضمون کو سورة البقرہ کی آیت 148 اور سورة المائدہ کی آیت 48 کے تحت تفصیل سے بیان کردیا ہے وہاں سے ملاحظہ کریں اور آج بھی حقیقت یہی ہے قرآن کریم کے الفاظ زیر نظر آیت میں جو بیان ہوئے ہیں ان پر اچھی طرح غور کرو کہ حق کی طرف سے کبھی یہ جھگڑا پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ تو بغیر کسی جھگڑا کے بیان کیا جاتا ہے اور باطل کے پاس جب کوئی حق کا جواب نہیں ہوتا تو وہ آستیں چڑھا کر لڑنے کو آتا ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جب دونوں طرف آستینیں چڑھائی جائیں تو حق دونوں طرف نہیں ہوتا بلکہ یہ باطل کی باطل کے ساتھ ٹکر ہوتی ہے کاش کہ یہ بات آج ہم مسلمانوں کے مختلف گروہوں کی سمجھ میں بھی آجائے تو کم از کم مزید تنازعات تو نہ بڑھیں جو دن رات ترقی پذیر ہیں ۔ حق پر قائم رہتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنا اور باطل کے ساتھ تنازع وجھگڑا شروع کردینا دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ حق کے مطابق عمل جاری رکھو اور باطل سے الجھنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اس سے اجتناب کرو اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اجتناب بیزاری کا اظہار ہے نہ کہ اظہار رواداری لیکن ہمارے مذہبی راہنماؤں کی ایسی مت ماری جا چکی ہے کہ بیزاری کو اظہار رواداری سمجھتے ہیں الجھاؤ نہ کرنے والوں کو جاہل قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جاہل نے اپنی جہالت کا کبھی اقرار نہیں کیا اگر وہ اقرار کرلے تو آخر جاہل کیوں رہے اس طرح وہ اپنی جہالت کا اقرار کرنے کے لئے تیار نہیں حالانکہ وہ قرآن کریم کی اس آیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو حق کے مطابق عمل جاری رکھو اور باطل سے الجھنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اس سے اجتناب کرو اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اجتناب بیزاری کا اظہار ہے نہ کہ ظہارا رواداری لیکن ہمارے مذہبی راہنماؤں کی ایسی مت ماری جا چکی ہے کہ بیزاری کو اظہار رواداری سمجھتے ہیں الجھاؤ نہ کرنے والوں کو جاہل قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جاہل نے اپنی جہالت کا اقرار کرنے کے لئے تیار نہیں حالانکہ وہ قرآن کریم کی اس آیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو حق کے مطابق رواں دواں ہونے کی کوشش کرتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ باطل کو جھکنے پر وہ مجبور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (آیت) ” انک لعلی ھدی مستقیم “۔ ” بلاشبہ تو ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن ہے ۔ “ اب غور کرو کہ ہدایت کا سیدھا راستہ کیا ہوا ؟ یہی کہ کسی کے ساتھ بغیر الجھاؤ کئے راہ حق کے مطابق عملا ہدایت دیتے چلے جانا اور حق پر قائمرہنا اور عام فہم مطلب یہ ہے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے کہ جب فریقین میں سے دونوں ایک دوسرے کے مخالف بات کریں گے تو حق پر قائم رہنے والے فریق کمزور ہے تو دوسرا فریق اپنے طاقتور ہونے کے باعث جھگڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ حق کو نیچا دکھا دے اور حالات اس وقت کر اب ہوجاتے ہیں جب حق بھی اپنی ایسی صورتحال کے باوجود جھگڑنے لگے اور اگر بات دوسری ہو کہ حق پر قائم رہنے والا فریق طاقت وقوت کے لحاظ سے بھی بھاری ہو تو باطل کبھی ھق کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوگا یہ بات ہزار بار آزمائی ہوئی ہے اور سو فصدی صحیح ہے اور قرآن کریم اس کی طرف راہنمائی کر رہا ہے ، آیت کا ترجمہ ایک بار پھر غور کے ساتھ پڑھ لو فرمایا اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہم نے ہر امت کے لئے ایک طور طریقہ ٹھہرا دیا ہے جس پر وہ چل رہی ہے پس لوگوں کو اس معاملہ میں تجھ سے جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں تو اپنے پروردگار کی طرف سے لوگوں کو دعوت دے یقینا تو ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن ہے ۔ “ پورے مضمون پر غور کرو کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ تو اپنے پروردگار کی طرف سے لوگوں کو دعوت دے ۔ “ مضمون کا سارا زور اور خلاصہ اسی فقرہ کے اندر موجود ہے ، پیغام پہنچانے والے پہنچانا ہے ‘ فقط جن کو پیغام پہنچایا جا رہا ہے وہ اس پیغام کو مانیں نہ مانیں پیغام دینے والے کی بلا سے ۔ اس طرح اب اگر وہ نہیں مانین گے تو ان کا جھگڑا کس سے ہوگا جس نے پیغام دیا یا جس نے پیغام بھیجا ؟ ظاہر ہے کہ ان کا جھگڑا پڑے گا تو اس سے جس نے پیغام بھیجا اور وہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ تو پھر وہ جانین اور ان کا اللہ ‘ پیغام دینے والے کو الجھنے کی آخر ضرورت ؟ اس کی وضاحت آنے والی آیت میں بیان کی جارہی ہے ۔
Top