بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
بلاشبہ ایمان والے کامیاب ہوئے
1۔ (افلح) کی اصلل ح ہے جس کے معنی ہیں پھاڑنا یعنی شق کرنا ، یہی وجہ ہے کہ زمین ہل چلانے کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور کسان کو ” فلاح “ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور ” فلاح “ کامیابی اور مطلوب کو پالینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، جس طرح ہل چلانے سے زمین کی مخفی قوتیں ‘ طاقتیں اور اصلی جوہر زمین سے باہر نکل آتے ہیں اسی طرح قوائے انسانی کا بھی حال ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کے مخفی جوہروں کا باہر نکل آنا ہی حقیقت میں کامیابی ہے اور یہ بھی فلاح سے مراد صرف دنیوی ہی نہیں ہے بلکہ انسان کے مخفی قوی کا ظہور پذیر ہونا ہے بلکہ فلاح کے معنی الفوز والخیر کے ہیں یعنی دنیوی اور دینی دونوں کامیابیوں کو حاصل کرنا ہی فلاح کہلاتا ہے چناچہ تاج العروس میں ہے کہ ائمہ لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ عربی زبان میں ” فلاح “ کے لفظ سے بڑھ کر دین اور دنیاوی دونوں بھلائیوں کو شامل رکھنے والا اور کوئی لفظ نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ دینی ودنیوی ترقی کی اصل بنیاد اخلاق پر ہے اور اس جگہ اسی کا بیان ہے ۔ گویا قرآن کریم کی آغوش تربیت میں پرورش پانے والا انسان جن خوبیوں کا حامل ہوتا ہے ان ہی خوبیوں کے بیان سے اس سورت کا مضمون شروع ہو رہا ہے ۔ غور کیجئے کہ جو شخص بارگاہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام حاضر ہو کر ادب ونیاز کا پیکر بن جائے اور وہ اپنی دینی مصروفیات میں ایسا گھرا ہوا ہو کہ اسے بیکار اور بیہودہ مشاغل میں شرکت کی فرصت ہی نہ ملے اور جو اپنے مال اور نفس کے تزکیہ میں ہمہ وقت مشغول ومصروف ہو اور اپنی نفسانی اور شہوانی خواہشات کی تکمیل میں کسی بےراہ روی کا شکار نہ ہو جس امانت کی حفاظت اور جو دینی وملی ذمہ داری اسے سونپی جائے اس میں وہ خیانت کا مرتکب نہ ہو اور جو عہد و پیمان وہ خود کرے اس کو وہ ہر وقت اور ہر قیمت پر نبھانے کی کوشش کرے اس کے سر پر اگر فلاح و کامیابی کا تاج نہیں رکھا جائے گا تو اور کون ہے جو اس کا مستحق قرار پائے گا ؟ بلاشبہ فردوس بریں کی بہاریں اسی کے لئے چشم براہ ہوں گی ۔ لاریب اسلام اپنے ماننے والوں کو سیرت کے اس سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی آمد کا منشاء بھی اس گری ہوئی اور پٹی ہوئی انسانیت کو نظریاتی پستیوں سے نکال کر عروج بام تک پہنچانا تھا اور بحمد اللہ آپ نے یہی کام سرانجام دیا جس کا تذکرہ آج بھی اپنے اور پرائے کرنے پر مجبور ہیں اور دنیا نے دیکھا کہ فلاح و کامیابی اسی امت کے لئے لازم ہوئی جس کو نبی اعظم وآخر ﷺ نے تیار کیا تھا ۔ مزید تفصیل کے لئے سورة البقرہ کی آیت 5 کی تفسیر ملاحظہ کریں ۔ زیر نظر آیت میں بھی ایمان لانے والوں کی کامیابی کا ذکر کیا گیا ہے اور ایمان لانے والوں کے نشانات آنے والی آیات میں گنوائے گئے ہیں اور اس جگہ بیان کئے گئے نشانات کی تعدادساتھ ہے ۔
Top