Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 104
تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ
تَلْفَحُ : جھلس دے گی وُجُوْهَهُمُ : ان کے چہرے النَّارُ : آگ وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں كٰلِحُوْنَ : تیوری چڑھائے ہوئے
آگ کے شعلوں کی لپٹ ان کے چہروں کو جھلستی ہوگی وہ ان پر منہ بگاڑے پڑے ہوں گے
آگ کے شعلوں کی لپٹ ان کے چہروں کو جھلستی ہوگی ‘ وہ ناگفتہ بہ حالت میں ہوں گے : 104۔ (کالحون) اسم فاعل جمع مذکر مرفوع کالح واحد اور کلح ماضی کلوح وکلاح مصدر باب فتح ہے ۔ منہ بگاڑنے والے ‘ منہ بنا کر دانت نکال دینے والے ۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کالح وہ شخص ہے جو ہونٹوں کو سکیڑ کر دانت باہر کر نکال دے اس لئے کہ کلحہ منہ کے گول حلقے کو کہتے ہیں ۔ ” تلفح “ لفح سے ہے اور یہ آگ یا سموم کے باعث چہرے کو جھلس دینے پر بولا جاتا ہے اور عذاب کو دیکھ کر یہ ان بداعمال لوگوں کی حالت کا بیان ہے کہ جب وہ دیکھیں گے کہ ان کے اعمال کا تو کوئی وزن نہیں ہے اور پھر اس کے نتیجہ پر جب ان کی نظر جائے گی تو ان کی حالت ایسی ہوگئی جو یہاں بیان کی گئی ہے ، یہاں بھی چہرے کے تاثرات سے مکمل طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس شخص کے اندر کی حالت کیا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اندر کے حالت کا اثر چہرہ سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے ، کلح اور عبس دونوں حالتیں چہرے کی بیان ہوئی ہیں اور بلاشبہ ہر عابس کالح ہوتا ہے اور ہر کالح عابس بھی اور یہ دونوں چیزیں لازم وملزوم ہیں ۔ لیکن افسوس کے ہمارے مفسرین نے نبی اعظم وآخر ﷺ کو عابس تحریر کیا حالانکہ خاکم بدہن کہ میں ایسا خیال بھی دل میں لاؤں کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی اس حالت کو اختیار کیا ہو ۔ کسی بات کی ناگواری کے باعث اثر ہونا فطری چیز ہے اور آپ ﷺ پر جو اثرہوتا وہ فقط یہ تھا کہ بعض اوقات آپ ﷺ کا چہرہ سرخ ہوجاتا جس سے آنکھوں میں سرخی آجاتی اور علاوہ ازیں آپ ﷺ پر کبھی کسی ناگوار بات کا اثر بھی ایسا نہیں ہوا کہ اس پر عبس یا کلح کا لفظ بولا جاسکے ۔ دنیا میں یہ دنیا دار لوگوں کی نشانی ہے اور آخرت میں یہ دوزخیوں کی حالت کا بیان ہے اور بلاشبہ اس وقت ان کی حالت دیدنی ہوگی ۔
Top