Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 14
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ١ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر خَلَقْنَا : ہم نے بنایا النُّطْفَةَ : نطفہ عَلَقَةً : جما ہوا خون فَخَلَقْنَا : پس ہم نے بنایا الْعَلَقَةَ : جما ہوا خون مُضْغَةً : بوٹی فَخَلَقْنَا : پھر ہم نے بنایا الْمُضْغَةَ : بوٹی عِظٰمًا : ہڈیاں فَكَسَوْنَا : پھر ہم پہنایا الْعِظٰمَ : ہڈیاں لَحْمًا : گوشت ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنٰهُ : ہم نے اسے اٹھایا خَلْقًا : صورت اٰخَرَ : نئی فَتَبٰرَكَ : پس برکت والا اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنُ : بہترین الْخٰلِقِيْنَ : پید ا کرنے والا
پھر ” نطفہ “ کو ہم نے ” علقہ “ بنایا پھر ” علقہ “ کو ایک گوشت کا لوتھڑا سا کردیا ، پھر اس میں ہڈیوں کا ڈھانچہ پیدا کیا ، پھر ڈھانچے پر گوشت کی تہ چڑھا دی ، پھر کس طرح اسے بالکل ایک دوسری ہی طرح کی مخلوق بنا کر نمودار کردیا ؟ تو کیا ہی برکتوں والی ہستی ہے اللہ کی ، پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر پیدا کرنے والا
دوسری پیدائش انسانی کے ضابطہ کی مزید تشریح جو اس وقت تک تشنہ تھی : 14۔ یہ تو پہلی پیدائش ہوئی اس کے بعد پیدائش کا سلسلہ کس طرح جاری ہوا ؟ توالد وتناسل سے چناچہ پہلے نطفہ رحم مادر میں جگہ پکڑتا ہے پھر اس پر نشو ونما کے مختلف دور طاری ہوتے ہیں قرآن کریم نے اس جگہ اور دوسرے مقامات پر تشکیل جنین کے جو مراتب خمسہ بیان کئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ : ا : (نطفۃ) لغت میں پانی کے ایک قطرہ کو کہتے ہیں چونکہ جنین کی تکوین کا ابتدائی مادہ پانی کے چند قطروں کی طرح ہوتا ہے اس لئے اسے نطفہ کہنے لگے ۔ ب : (علقۃ) جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کو بھی کہتے ہیں اور جونک کو بھی ۔ ج : (مضغۃ) گوشت کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں جس میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی ۔ د : (عظاما) ہڈیاں گویا اب وہ لوتھڑا ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تشکیل پا گیا اور اس سلسلہ کو دوسری جگہ (مخلقۃ) بھی کہا گیا ہے جیسا کہ سورة الحج کی آیت 5 میں گزر چکا جہاں بتایا گیا کہ کبھی (مخلقۃ) کی صورت (غیر مخلقۃ) بھی ہوجاتی ہے یعنی بگڑ کر رہ جاتی ہے اور متشکل نہیں ہوتی ۔ ہ : (فکسونا العظام لحما) پھر اس ڈھانچہ پر گوشت کی ایک تہ جما دی جاتی ہے یعنی متشکل ہونے کے بعد اس کو گوشت پہنایا جاتا ہے جو ہڈیوں کے اوپر ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ انسان کی ایک عجیب و غریب تصویر معرض وجود میں آجاتی ہے اور اس طرح جنین کی تکمیل کے بعد ایک شکل و صورت کے ساتھ بچہ تولد ہوجاتا ہے ۔ ان مراتب خمسہ کی مزید تشریح گزشتہ زمانہ میں پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی کیونکہ علم تشریح جنین ناقص حالت میں تھا لیکن اس ہمارے زمانہ میں تقریبا تمام پردے اٹھادیئے گئے ہیں اور ان سے پوری طرح ان تصورات کی تصدیق ہوگئی ہے اور (آیت) ” ثم انشانہ خلقا اخر “ سے پوری طرح پردہ اٹھ چکا ہے ہم نے پہلی تقسیم کو 1 سے ہ تک بیان کردیا ہے اور موجودہ تفہیم میں جو قرآن کریم کے ان اشارات سے سمجھا گیا وہ پیش خدمت ہے ۔ مختصرا اس آخری حالت کو قرآن کریم نے (خلقا اخر) سے تعبیر کیا ہے یعنی اس مرتبہ میں پہنچ کر کوئی ایسا انقلاب طاری ہوجاتا ہے کہ بالکل ایک دوسری ہی طرح کی خلقت ظہور میں آجاتی ہے گویا مرتبہ ا سے لے کر مرتبہ ہ تک جنین کی جو حالتیں رہیں اور جس نوعیت کی مخلوق بنتی رہی وہ کوئی دوسری قسم کی چیز تھی اور اب اس مرتبہ میں آکر بالکل ایک دوسری ہی قسم کی چیز نمایاں ہوگئی ۔ چونکہ مراتب پیدائش کی کوئی ایسی انقلابی حالت ہمارے مفسرین کے سامنے نہ تھی اس لئے قدرتی طور پر اس کی کوئی دل میں جمتی ہوئی تفسیر ان سے بن نہ آئی اور وہ مختلف وادیوں میں نکل گئے بعض نے کہا کہ اس سے مقصود نفخ روح ہے کیونکہ اس مرتبہ سے پہلے روح نہیں ہوتی ‘ بعض نے کہا یہ شکم مادر سے باہر نکلنے کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ وضع حمل اس کے بعد ہوتا ہے ، بعض نے کہا اس سے مقصود بالوں کا پیدا ہونا ہے اس سے پہلے بال نہیں ہوتے ‘ بعض نے کہا نہیں ! اس سے مقصود تو دانت ہیں کہ دانت اس مرتبہ میں پیدا ہوتے ہیں ‘ بعض نے جمع وتطبیق آراء کی راہ اختیار کرنی چاہی تو انہوں نے کہا کہ دراصل مقصود تمام قوی کی تکمیل ہے ، اس میں بال بھی آگئے ‘ دانت بھی آگئے تاہم ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی تفسیر بھی (خلقا اخر) کا تقاضا پورا نہیں کرتی منطوق کے اعتبار سے بھی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی بعینہ پچھلے مراتب تطور کی بھی حقیقت واضح نہ ہوسکی (علقۃ) کو جمے ہوئے خون کے معنوں میں لے گئے اور (مضغۃ) کو گوشت بن جانے کے معنوں میں اور ترتیب نشتہ یوں سمجھی گئی کہ نطفہ سے پہلے خون پیدا ہوتا ہے اور وہ کلیجی کی طرح جما ہوا ہوتا ہے پھر یہ منجمد خون گوشت بن جاتا ہیں پھر اس گوشت بن جاتا ہے پھر اس گوشت میں ہڈیاں پیدا ہوجاتی ہیں پھر ہڈیوں پر چمڑا چڑھ جاتا ہے اس چمڑے کو (آیت) ” کسونا العظام لحما) میں مجازا لحم کہا ہے ۔ لیکن اس مقام کی شرح وتحقیق کا حق ادا نہ ہوسکا تو اسے مفسروں کے قصور فہم پر محمول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس باب میں وہ یقینا معذور تھے ، علم وتحقیق کا یہ گوشہ تمام تر زمانہ حال کی پیداوار ہے اور زمانہ حال کی پیداوار میں بھی سب سے آخری عہد کی پیداوار ‘ انیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ جو تمام علوم حدیثیہ کے انکشاف وتکمیل کا سب سے زیادہ شاندار زمانہ ہے پورا گزر گیا اور کارخانہ فطرت کے اس گوشہ مستور کے تمام حجاب نہ اٹھ سکے پس اگر اٹھارویں صدی کے حکماء معذور تصور کئے جاسکتے ہیں کہ اس بارے میں بالکل غلط رخ پر جا رہے تھے حالانکہ خوردبین ایجاد ہوچکی تھی اور انسانی نعش کی تشریح کا باب مسدود کھل چکا تھا ‘ تو ظاہر ہے نویں اور دسویں صدی کے مفسرین قرآن کیوں معذور تصور نہ کئے جائیں جن کے سامنے اس سے زیادہ کچھ نہ تھا جتنا ارسطو اپنی کتاب الحیوانات میں اور جالینوس اپنے مقالات میں لکھ چکا ہے ۔ علم الجنین کی مختصر تاریخ : دراصل پیدائش حیوانات کے بارے میں گزشتہ دو ہزار سال تک انسانی علم کی پرواز اسی حد تک رہی ‘ علم ونظر کی تمام شاخوں کی طرح علم الجنین (Emlryology) میں بھی ارسطو ہی کی تحقیقات پر تمام تر دارومدار تھا ‘ سترھیوں صدی میں جب خوردبین کی ایجاد ایک خاص حد تک طرقی پذیر ہوئی تو پرندوں کے انڈوں کا خوردبینی مطالعہ شروع ہوا اور بتدریج ایک نئے نظریہ کی بنیاد پڑگئی جسے اس وقت نظریہ ارتقاء سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن اب ” نمودوبروز “ کے نظریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی (Preformation Theory) سے ۔ اس نظریہ کا ماحصل یہ تھا کہ اصل پیدائش جنس اناث کا بیض (Query) ہے ۔ جنین پر تطورات کی کوئی نئی حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ بیض میں جو کامل وجود موجود ہوتا ہے وہی کھلنے اور بڑھنے لگتا ہے ‘ مثلا انسان کے تخم حیات میں ایک کامل انسان اپنے تمام خارجی وداخلی اعضاء کے ساتھ موجود ہوتا ہے ‘ لیکن اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ خوردبین سے بھی اس کا ادراک نہیں کیا جاسکتا ‘ اسی کامل ومتشکل ذرہ وجود کا بڑھ جانا ‘ نطفہ کا انسان بن جانا ہے ۔ 1690 ء میں جب ایک ڈچ عالم خوردبین لینون ہاک (Leenwen Hock) نے جنس رجال کے مادہ منویہ کے جراثیم کا انکشاف کیا تو ایک گروہ پیدا ہوگیا جس نے بیض اناث کی جگہ جراثیم منویہ کو اصل حیات قرار دیا ، تاہم اس رائے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کہ جنین پر تطور کی نہیں بلکہ محض برورز ونمو کی حالت طاری ہوتی ہے ‘ اٹھارویں صدی کے وسط تک یہی رائے وقت کی مقبول ومعتمد رائے رہی ‘ یہاں تک کہ 1759 ء میں ایک جرمن محقق ‘ فریڈرک ولف نے یہ پورا نظریہ غلط ٹھہرایا اور تولید وتطور کے اصل پر زور دیا ۔ پھر 1817 ء میں پانڈرنے اور 1828 ء میں بیر نے اسے مزید ترقی دی اس کے بعد سے اسی رخ پر قدم اٹھنا شروع ہوگئے ، پھر جب 1859 ء میں ڈارون کی کتاب ” اصلیت انواع “ شائع ہوئی تو اس نے علم کے تمام گوشوں کی طرح اس گوشہ کے لئے بھی ایک نئی روشنی مہیا کردی اور بالآخر انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ارنسٹ ہیکل (Earnst Hacckel) کے ہاتھوں یہ تحقیقات تکمیل تک پہنچ گئیں ‘ اب علم الجنین کا ہر گوشہ نظریوں اور قیاسوں کے سہاروں سے بالکل بےپروا ہوگیا ہے اور جو کچھ ہے تمام تر استقراء ومشاہدات پر مبنی ہے یہ اب فلسفہ کی بحث وتعلیل کا محتاج نہیں کیونکہ خود علم کی ایک حقیقت ہے ۔ اس باب میں سب سے زیادہ معتمد خود ارنسٹ ہیکل کی دو کتابیں ہیں ۔ ” نیچرل ہسٹری آف کری ایشن ‘ ؓ اور ” ریو ولیوشن آف مین “ اس مبحث میں ہمارا اعتماد انہی پر ہے ۔ قبل اس کے کہ قرائن کے بیان کردہ مراتب پر نظر ڈالی جائے معلوم کرلینا چاہئے کہ انسانی وجود کی پیدائش اور اس کے جنین کے احوال وتطورات کے باب میں علم کے حقائق کیا ہیں ؟ اس بحث کی تفصیل کے لئے اصل کتابوں کی طرف رجوع کریں اس جگہ ہم مختصرا اشارات ہی دیں گے ۔ تمام حیوانات کی طرح انسان کی بھی پیدائش ایک بیضہ سے ہوتی ہے جسے اصطلاح میں (Qvum) کہتے ہیں خلیہ تخم (خلیہ یعنی Cell) یہ خلیہ تخم جنس اناث میں بھی پیدا ہوتا ہے اور جنس رجال میں بھی ، فعل تلقیح اس وقت واقع ہوتا ہے جب جنس رجال کے خلیات تخم اناث کے بیضہ میں پہنچ جاتے ہیں ‘ یہ خلیہ تخم ایک بہت ہی دقیق ذرہ کا ساحجم رکھتا ہے ‘ یعنی اس کا قطر ایک انچ کا ایک سو بیسواں حصہ بلکہ اس سے بھی کم ہوتا ہے یہی خلیہ زندگی اور وجود کا اصل تخم ہے ۔ نطفہ کے قرار پانے کے معنی یہ ہیں کہ جنس رجال کا خلیہ تخم جنس اناث کے بیض میں جگہ پائے استقرار کے بعد جنین تطور شروع ہوتا ہے ابتدا میں وہ محض خلیات کا ایک کروی مجموعہ ہوتا ہے پھر ایک مجوف گیند کی سی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف کی دیوار خلیات سے مرکب ہوتی ہے ‘ اس کے بعد یہ خلیات ایک دوسرے سے بالکل مل جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان میں طولانیت پیدا ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ بالکل ایک فعل نما (Soleshaped) صورت اختیار کرلیتے ہیں ‘ اب ان میں ایک ایسی ہیکلی ہیت پیدا ہوجاتی ہے جیسی مچھلی کی ہوتی ہے ۔ پھر یہ ہئیت حیوانات تو ازب (Amphibib) کا ساہیکل اختیار کرلیتی ہے اس کے بعد حیوانات لبونہ (Mammals) کا ہیکل نمایاں ہوتا ہے ‘ لیکن پہلے ادنی درجہ کے حیوانات لبونہ کا مثلا ایسا جیسا آسٹریلیا کے خلد آبی (Duck Bill) کا ہوتا ہے یا ان حیوانات کا جنہیں ذوات الکیس (Massupils) کہتے ہیں پھر اونچے درجہ کے حیوانات لبونہ کا مثلا گھوڑا ‘ کتا ‘ بیل پھر یہ مرتبہ ترقی کر کے ایک ایسے ہیکل تک پہنچتا ہے جو ٹھیک ٹھیک بندر کا سا ہوتا ہے ‘ دم بھی موجود ہوتی ہے پھر اس میں تبدیلی شروع ہوتی ہے اور بندر کے ترقی یافتہ اعلی اقسام کا ساہیکل نمایاں ہونے لگتا ہے یعنی گوریلا ‘ شمپازی ‘ گیبون وغیرہ اقسام کا اب اس کے بعد آخری مرتبہ تطور آتا ہے اور اچانک ایک انقلابی حالت طاری ہونے لگتی ہے یعنی تمام حیوانی ومیمونی خصوصیات مفقود ہوجاتی ہے ‘ ایک نئی نوعیت کا ہیکل نمایاں ہوجاتا ہے اور وجود انسانی اپنی ساری خصوصیتوں اور رعنائیوں کے ساتھ ابھر آتا ہے ۔ ابتدا کے تمام تطورات ایک مہینے کے اندر طاری ہوجاتے ہیں ‘ آخری تطورات دوسرے مہینے کے اندر اور پھر حمل کا بقیہ زمانہ جس قدر گزرتا ہے صورت انسانی ہی کی تکمیل پر گزرتا ہے ۔ اس سلسلہ میں جو حقیقت سب سے زیادہ اہم نمایاں ہوئی ہے اور جس نے علم ونظر کے بہت سے گوشوں میں انقلاب پیدا کردیا وہ پیدائش حیات کے قانون کی عالمگیر وحدت ہے ، نباتات سے لے کر وجود انسانی تک ‘ اصل وبنیاد حیات ایک ہی ہے اور جس قدر امتیازی اختلافات پیدا ہوتے ہیں ٹھیک ٹھیک انی حدود کے اندر اور انہی ترتیبات سے جو قانون نشو وارتقا کی بنا پر ضروری ہیں ‘ اس اعتبار سے اگر انسان کے جنین پر نظر ڈالی جائے تو حسب ذلیل مدارج اور ان کے احکام سامنے آئیں گے : ا : پہلا درجہ وہ ہے جس میں خلیہ تخم کی حالت ٹھیک ٹھیک ویسی ہی ہوتی ہے جیسی تمام نباتات اور حیوانات کی گویا اس ابتدائی درجہ میں ایک انسان کا جنین بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ ایک درخت کا ‘ ایک مچھلی کا ‘ ایک چارپائے گا ایک پرند کا ۔۔۔۔۔ یہ حالت نطفہ کی ابتدائی حالت ہوتی ہے ۔ ب : پھر خلیات کا کروی مجموعہ ایک دوسرے درجہ میں داخل ہوتا ہے ‘ اس درجہ میں پہلا امتیاز نمایاں ہوتا ہے یعنی اب جنین نباتات کے دائرہ سے بلند ہو کر صرف حیوانات کے دائرہ کی چیز بن جاتا ہے ‘ ہم تمام حیوانات کا جنین ایسا ہی پاتے ہیں مگر نباتات کا نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ حالت دو ہفتہ کے اندر طاری ہوجاتی ہے ۔ ج : تیسرے ہفتہ میں جنین دوگنی طوالت پیدا کرلیتا ہے اور نعل کی سی شکل بن جاتا ہے نیز ایک نشان ظاہر ہوجاتا ہے جو آگے چل کر سر بننے والا ہوتا ہے یہی نشان تین بنیادی حالتوں کی پہلی داغ بیل ہے ۔ اس درجہ میں دوسرا امتیاز نمایاں ہوتا ہے یعنی اب جنین حیوانات کے دائرہ سے نکل کر حیوانات لبونہ کے خاص دائرہ میں آجاتا ہے لیکن ادنی درجہ کے دائرہ میں ۔ د : چوتھے ہفتہ میں سرکا نشان ایک غیر متشکل گنبد کی سی ہئیت پیدا کرنے لگتا ہے ‘ اس کے اندر بھیجے کے خانے بھی نمایاں ہوجاتے ہیں ‘ عنصری نالیاں بھی ابھر آتی ہیں ‘ دل کے چاروں حصے بھی وجود پذیر ہوجاتے ہیں اور سب سے زیادہ یہ کہ ریڑھ کی ہڈی کا ڈھانچہ پوری طرح نشو ونما پانے لگتا ہے ۔ اس درجہ میں پہنچ کا جنین اعلی درجہ کے حیوانات لبونہ کی خصوصیات پیدا کرلیتا ہے ‘ یعنی اب انسان کا جنین ایسا ہوجاتا ہے جیسا گھوڑے ‘ بیل ‘ کتے وغیرہ شیر خوار جانوروں کا ہوتا ہے ۔ اب حمل کا پہلا مہینہ ختم ہوگیا ۔ ہ : پانچویں ہفتہ سے صورت آرائی کا زیادہ مشخص دور شروع ہوتا ہے لیکن یہ بندر کے سے ہیکل کا ہوتا ہے اس درجہ کے جنین کی تصویر بندر کی تصویر کے ساتھ رکھی جائے تو دونوں میں کوئی نمایاں فرق دکھائی نہیں دے گا ۔ و : پھر یہ ہیکل بندر کی اونچی قسم کے ہیکلوں کی طرف بڑھتا ہے اور گوریلا اور شمپازی وغیرہ کے جنین کی سی ہیئت پیدا کرنے لگتا ہے ۔ ز : اس کے بعد ایک آخری انقلاب طاری ہوتا ہے اور انسانی جسم و صورت کی خصوصیات یکایک ابھرنے لگتی ہیں حتی کہ بالکل ایک نئی قسم کا تناسب و اعتدال ظہور میں آجاتا ہے ، دوسرے مہینے کے اختتام پر یہ درجہ پوری طرح صورت پذیر ہوجاتا ہے ۔ ح : اس کے بعد فطرت کی نقاشی زیادہ دقیق قسم کے امتیازات کی نوک پلک درست کرنے لگتی ہے یعنی نوع انسانی کی مختلف وطنی ‘ موسمی اور معنوی اختلافات ابھرنے اور بننے لگتے ہیں پھر جدی اور آبائی اثرات کی نمود شروع ہوتی ہے اور ہر والدین کو اپنی قوم ‘ اپنے ملک ‘ اپنی نسل اور اپنے ماحول مؤثرات کا مولود میسر آجاتا ہے ۔ یہ آخری انسانی دور سب سے بڑا دور ہے یعنی ابتدا کے دو مہینے چھوڑ کر باقی تمام ایام حمل جن میں مدت چار سے ساتھ مہینوں تک پہنچ جاتی ہے اسی دور میں بسر ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم کی تصریحات جو اس نے پیش کیں اب ان تمام تفصیلات کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی تصریحات پر غور کرو اور پچھلی تفاسیر پر بھی ایک نظر ڈال لو ‘ جس وقت تک انسانی جنین کے یہ تمام حقائق منکشف نہیں ہوئے تھے ‘ قرآن کے بیان کردہ مدارج ستہ کی تشریح کس درجہ دشوار تھی ؟ قدیم نظریوں کا ساتھ دینے کے لئے مفسروں کو کیسی کیسی توجیہیں ڈھونڈنی پڑیں اور پھر بھی بات بنی نہیں ؟ لیکن اب ان انکشافات کے بعد کس طرح سارا معاملہ صاف ہوگیا ہے ؟ کس طرح دونوں بیان ٹھیک ٹھیک ایک دوسرے کے مطابق ہیں اور ایک کے اجمال کی دوسرا تفصیل کر رہا ہے ؟ کس طرح آج علم کی آنکھیں بھی وہی دیکھ رہی ہیں جو وحی کی زبان نے آشکارا کردیا تھا ؟ وحی کی یہ صدا کس زبان سے نکلی تھی ؟ ساتویں صدی عیسوی کے ایک امی کی زبان سے ‘ جو ریگستان عرب کے بادیہ نشنیوں میں پیدا ہوا اور جس کی ساری زندگی انہی بادیہ نشینوں میں بسر ہوئی تھی ۔ قرآن کا سترھویں صدی کے نظریہ سے انکار : سترہویں صدی میں خوردبینی مطالعہ سے جراثیم حیات کا انکشاف ہوا لیکن حکماء عہد اصل حقیقت پر مطلع نہ ہو سکے اور ” مذہب ظہور وبروز “ کا نظریہ قائم کرلیا گیا ۔ اب دیکھو جس طرح قدیم قیاسات قرآن کا ساتھ نہیں دیتے تھے ‘ اسی طرح یہ مذہب بھی ساتھ چلنے سے صاف انکار کر رہا تھا ‘ قرآن جنین کے تمام تغیرات کو صاف صاف ایک انقلابی تطور قرار دے رہا ہے ۔ (آیت) ” ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم من مغضۃ “۔ (22 : 5) اور (آیت) ” ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ “۔ (23 : 14) یعنی تخلیق کی ایک حالت نطفہ کی ہوتی ہے پھر تخلیق کی دوسری حالت علقہ کی ہوتی ہے پھر تخلیق کی تیسری حالت مضغہ کی ہوتی ہے پس یہ محض کسی ایسے کیڑے کا نشو ونما بروز نہیں ہوسکتا جس کے اندر وجود انسانی اپنے تمام اصول وجزئیات کے ساتھ موجود ہے بلکہ ایک حالت کے بعد صریح دوسری حالت کی پیدائش اور دوسرے کے بعد تیسرے کی اور تیسرے کے بعد چوتھے کی پیدائش ہے اور ہر پیدائش تخلق وتطور کی نوعیت ظاہر ہوئی ہے ضروری ہے کہ یکے بعد دیگرے طرح طرح کے تطورات طاری ہوں ۔ ضروری ہے کہ ہر تطور ایک نئی پیدائش کا حکم رکھتا ہو۔ چونکہ انیسویں صدی کے اواخر تک یہی نظریہ ” ظہور وبروز “ عام طور پر تسلیم کیا جاتا تھا اور فن طب وتشریح نے بھی اسی کو اختیار کرلیا تھا اس لئے جس طرح قدیم مفسروں کی شرح وتحقیق آیت میں دشواریاں پیش آئیں اور طرح طرح کی توجیہات کرنی پڑیں اسی طرح مصر اور پاک وہند کے بعض نئے مفسروں کو بھی ٹھوکر لگی اور رفاعہ بک ‘ طنطاوی ‘ حسن پاشا محمود ‘ سرسید احمد خاں ‘ شیخ محمد عبدہ وغیرہم اسی نظریہ کی وادیوں میں گم ہوگئے ‘ انہوں نے کوشش کی کہ قرآن کی تصریحات کو اس کے مطابق کر دکھائیں ‘ مطابق ہو نہیں سکتی تھیں اس لئے ہر طرح کا تجوز و تکلف جو لغت و زبان سے کیا جاسکتا ہے ‘ جائز کرلیا گیا اور نہیں سمجھے کہ یہ تمام قطع وبرید یکسر بیکار ہوجائے گی ۔ قرآن اپنی جگہ سے نہیں ہلا مگر علم کو ہلنا پڑا : قرآن کی تصریحات اپنی جگہ بدستور قائم رہیں ‘ جس طرح قدیم جامہ ان پر راست نہیں آیا تھا اسی طرح نئے جامے سے بھی انہوں نے انکار کردیا یہاں تک کہ جمال حقیقت بےپردہ ہوا اور نظریوں کی شب کو ری کی جگہ انکشاف ومشاہدہ کی صبح نمودار ہوگئی ‘ اب ہر نگاہ دیکھ سکتی ہے کہ قرآن کو اپنی جگہ سے ہلنے کی ضرورت نہ تھی ‘ یہ علم کا نقص تھا کہ صحیح جگہ نہ پا سکا ۔ آخر اسے اپنی جگہ چھوڑنی پڑی اور وہیں آگیا جہاں تیرہ صدیوں سے قرآن کی صداقت جمی کھڑی ہے ۔ (آیت) ” لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید “۔ (41 : 42) تم علم کی ذرا سی نمود دیکھ کر مرعوب ہوجاتے ہو اور چاہتے ہو قرآن کو فورا اس کی جگہ سے ہٹا دو ‘ لیکن اگر تم جلدی نہ کرو ‘ تو قرآن کو ہلنے کی ضرورت کبھی نہ ہوگی ‘ جلد یا بدیر ‘ علم اپنی جگہ چھوڑے گا اور آگے بڑھ کر قرآن کی تصدیق کرے گا ۔ قرآن کے مدارج ستہ : اب غور کرو ‘ علم کی روشنی میں کس طرح قرآن کی تمام تصریحات واضح ہو رہی ہیں بغیر اس کے نہ لغت و زبان کے قدرتی مقتضیات سے رائی برابر انحراف کیا جائے ؟ 1۔ سب سے پہلے (جعلناہ نطفہ فی قرار مکین) “۔ پر غور کرو ‘ استقرار حمل یوں ہوتا ہے کہ جنس رجال کا جنسی خلیہ جنس اناث کے بیض میں پہنچتا ہے اور اس طرح ٹک جاتا ہے گویا اپنے اصلی مکان میں پہنچ گیا ‘ اس صورت حال کے لئے (فی قرار مکین) کی ترکیب کس درجہ صحیح اور اوفق ہے ؟ دو لفظوں کے اندر ہی پوری وضاحت کے ساتھ دونوں حالتیں آگئیں ۔ اس کا ٹھہر جانا اور تمکن کے ساتھ قرار پا جانا ‘ یہ استقرار وتمکن کس طرح پیدا ہوا ؟ دونوں جنسوں کے خلیوں کے اتحاد سے ‘ اس اتحاد وامتزاج کی ان میں قدرتی طلب تھی ‘ بغیر اس کے قرار نہیں پاس سکتے تھے ۔ اس وقت تک ہم نے ایک اس کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ نطفہ رحم میں قرار پا جاتا ہے لیکن فی الحقیقت بات پوری طرح جمتی نہ تھی ‘ رحم تو ایک طرح کا مجوف خول ہے ‘ اس میں ایک ذرہ تخم کا پڑجانا (فی قرار مکین) سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ تعبیر کہہ رہی ہے کہ کوئی نطفہ کی ہی طرح کا دقیق محل ہونا چاہئے ‘ جہان وہ پہنچ کر اس طرح ٹک جائے جیسے ٹھیک اپنے حجم اور اپنی نوعیت کے مطابق ایک جگہ اسے مل گئی ‘ پس یقینا اس سے مقصود بیض کا خلیہ ہے ‘ نہ کہ پورا عضو رحم۔ 2۔ اس کے بعد ” نطفہ “ پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں لیکن سب سے پہلی انقلابی حالت کونسی ہوتی ہے جو بالکل ایک نئی قسم کی نوعیت پیدا کردیتی ہے اور جو تمام آئندہ انقلابوں کے لئے سنگ بنیاد کا کام دیتی ہے ؟ وہ حالت جب خلیات کا کروی مجموعہ اچانک طول میں بڑھنے لگتا ہے اور پھر اس طرح کی لمبی چیز بن جاتا ہے جس کے دونوں سرے کسی قدر پھیلے ہوئے ہوتے ہیں ‘ پروفیسر ہیکل نے اس مرتبہ کی ابتدائی حالت کو (Sole.Shaped) سے اور پختہ حالت کو (Sandal.Shaped) سے تعبیر کیا ہے اور ہم نے اس کے لئے صرف ’ نعل نما “ حالت کی تعبیر اختیار کی ہے ۔ اسی مرتبہ تحول کو قرآن نے (علقہ) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔ (علقہ) کی تعبیر اس مرتبہ کے لئے ہر اعتبار سے اتنی صاف اور چسپاں ہوتی ہے کہ جونہی میری پہلی نظر اس نعل نما جنین کی تصویر پر پڑی تھی ‘ میری زبان سے بےاختیار (خلق الانسان من علق) نکل گیا ۔ (دی ریولیشن آف مین ترجمہ جو زف مکب ج اول ص 254) جونک کے لئے علوق ‘ علوقہ ‘ عولق ‘ علقہ ساری زبانوں کی نہایت قدیم تعبیر ہے ‘ عبرانی میں اسے علوقہ کہتے ہیں اور بجنسہ علقہ کا نام بھی ملتا ہے ۔ چناچہ سفر امثال میں ایک جگہ آیا ہے ” جونک کی دوبیٹیاں ہیں جو چلاتی رہتی ہیں کہ لاؤ ‘ لاؤ ۔ “ (30 : 15) عبرانی نسخہ میں یہاں ” جونک “ کے لئے علوقہ کا لفظ آیا ہے یہی علوقہ عربی میں علق اور علقہ ہے اور جونک کین لئے مستعمل ہے ، اب جونک کی حالت اور صورت کا معائنہ کرو ۔ اس میں ہڈی نہیں ہوتی ، محض ایک لوتھڑے کی لمبان ہوتی ہے اور خون پی کر جب سیراب ہوجاتی ہے تو ٹھیک ٹھیک ویسی ہی صورت ہوجاتی ہے جیسی اس مرتبہ جنین کی تصویر میں نظر آتی ہے ۔ ہیکل نے اس حالت کو محض اس کی جزئی مشابہت کی بنا پر ” نعل نماصورت “ سے تشبیہہ دی ہے ‘ لیکن قرآن نے (علقہ) سے دی جو خود سلسلہ حیوانات کی ایک خاص زندہ کڑی ہے اور اس طرح عجب نہیں کہ ایک دوسری مخفی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کردیا ہو۔ پیدائش انسانی کے مختلف مدارج کی جو تفصیلات اوپر گزر چکی ہیں ان سے تمہیں پتہ لگ گیا ہوگا کہ قانون نشو وارتقاء کے مختلف مدارج کس طرح نطفہ انسانی کے مدارج میں جمع ہوگئے ہیں اور کس طرح ہر انسان کا جنین اب بھی ان مدارج سے گزر کر انسان بنتا ہے جن مدارج سے گزر کر انسان اپنے موجود مرتبہ خلقت تک پہنچتا ہے ‘ اچھا اب غور کرو ‘ ان مدارج خلقت میں ابتدائی مخلوقات کا درجہ کونسا ہے ؟ آبی مخلوقات کا یعنی (آیت) ” وجعلنا من الماء کل شء حی “۔ زندگی کا سب سے پہلا ظہور پانی میں ہوا اور پہلی مخلوقات آبی مخلوقات ہوئی ‘ اس کے بعد خشکی کی مخلوقات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اچھا آبی مخلوقات میں ابتدائی مراتب کی مخلوقات کونسی ہیں ؟ جونک کی قسم کی غیر عظمی مخلوقات ‘ انہی کے ارتقاء سے تمام اونچی قسم کی آبی کڑیاں وجود پذیر ہوئیں پس اگر حیوانی نطفہ اپنے تمام ارتقائی تطورات سے گزر کر آخری درجہ تک پہنچا کرتا ہے تو کیا ضروری نہیں کہ اس کا ابتدائی درجہ آبی مخلوقات کی حالت کا درجہ کا ہوا ؟ اور اس میں بھی سب سے پہلے جونک کی قسم کی نوعیت اپنی نمود دکھائے ؟ یقینا ضروری ہے اور یقینا یہی نوعیت ہے جو اس نعل نما صورت کے درجہ میں نمایاں ہوتی ہے پس اسے ” علقہ “ سے تعبیر کرنا گویا اس کے درجہ خلقت کو ٹھیک ٹھیک اس کے اصلی نام سے پکار دینا ہے ۔ 3۔ اس کے بعد تیسرا انقلابی تطور وہ ہے ‘ جب یہ نعل نما چیز اور زیادہ بڑھتی ہے اور اس کے مادہ میں گوشت کی صلابت پیدا ہوجاتی ہے ‘ اسی حالت کو قرآن نے (مضغۃ) سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اب جنین بوٹی کی طرح بن جاتا ہے اور چونکہ یہی مرتبہ ہے جس میں ارتسام وانقسام اعضاء کی پہلی داغ بیل پڑتی ہے اس لئے سورة حج میں اشارہ کردیا کہ (مخلقۃ وغیر مخلقۃ) (22 : 5) یعنی یہی (مضغۃ) کا درجہ ہے جس میں یا تو داغ بیل پڑجاتی ہے یا بگڑ کے رہ جاتا ہے ۔ 4۔ چوتھا درجہ وہ ہے جب اس (مضغۃ) کی ہڈی کا ڈھانچہ نشو ونما پانے لگتا ہے اور ایک ایسا ہیکل نمایاں ہوجاتا ہے جسے مچھلی سے مشابہ کہا گیا ہے ‘ اسی کو (آیت) ” فخلقنا المغضۃ عظاما “۔ سے تعبیر کیا ہے اسی درجہ میں آکر جنین حیوانات فقاریہ (Vertebrate) کی امتیازی خصوصیت پیدا کرلیتا ہے ۔ 5۔ پھر اس کے بعد ہڈیوں اور گوشت پوست کا الحاق تکمیل تک پہنچتا اور ایک حیوانی صورت متشکل ہو کر نمایاں ہوجاتی ہے ‘ اسی کو (آیت) ” فکسونا العظام لحما “۔ کے درجہ سے تعبیر کیا ہے ۔ 6۔ لیکن جو صورت اب بنتی ہے وہ کیا انسان کی صورت ہوتی ہے ؟ نہیں ایسی جو تمام حیوانات لبونہ کی مشترک صورت ہوتی ہے وہ ترقی بھی کرتی ہے تو بندر کی صورت کی طرف لیکن اس کے بعد نقاش قدرت کی دستکاری اچانک ایک نیا انقلاب وتحول پیدا کردیتی ہے ۔ وہی جنین جو محض (مضغۃ) تھا وہی (مضغۃ) جو مچھلی کی طرح کا ایک ڈھانچہ تھا ۔ وہی ڈھانچہ جس نے عام حیوانی ہیکل کی شکل اختیار کرلی تھی ۔ وہی حیوانی ہیکل جو بندر کی سی صورت میں ابھر آیا تھا ‘ اچانک انسانی جسم و صورت کی ساری خصوصیتیں اور رعنائیاں پیدا کرلیتا ہے ۔ (آیت) ” فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ یہی آخری مرتبہ تحول ہے جسے (آیت) ” ثم انشاناہ خلقا اخر “ سے تعبیر کیا ہے ۔ زیر نظر آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا (آیت) ” فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ ” کیا ہی برکتوں والی ہستی ہے اللہ کی ذات کی جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے ۔ “ کے جملہ نے ایک معرکۃ الآ را بحث پیدا کردی اور مفسرین نے اس پر صفحات کے صفحات تحریر کر ڈالے ، بحث کیا تھی ؟ بحث یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا بھی کوئی اور خالق ہے ؟ کیا قرآن کریم مخلوق ہے ؟ پہلے سوال کا جواب تفصیل کے ساتھ ہم پیچھے سورة آل عمران کی آیت 49 میں اور سورة المائدہ کی آیت 110 میں بیان کرچکے ہیں اس لئے وہاں سے ملاحظہ کرلیں اور اس پر مزید یہ عرض کریں گے کہ عربی زبان کا یہ اسلوب ہے کہ (افعل) کا صیغہ بالخصوص جب وہ جمع کی طرف مضاف ہو تو وہ اکثر اوقات تفصیل وترجیح کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض اعلی مرتبہ صفت کے اظہار کے لئے آتا ہے اسی وجہ سے (آیت) ” احسن الخالقین “ کے معنی ہوں گے کہ وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ ایک بہترین خالق ہے اس نے انسان کو جیسا تیسا پیدا نہیں کردیا بلکہ بہترین ساخت اور بہترین صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اس لئے اس اسلوب سے چشم پوشی کے باعث یہ بحث پیدا کرلی گئی ہے حالانکہ اس میں اس قسم کی کوئی بحث پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی نیز یہ بات اپنی جگہ محقق ہے کہ ” خلق “ کا فعل جب غیر اللہ کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنی اندازہ کرنے اور بنانے کے ہوتے ہیں نہ کہ بغیر کسی مادہ کے پیدا کرنے کے اور دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور دوسرا سوال اس لئے پیدا ہوا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک کاتب وحی اس کو لکھ رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ اس وحی کو لکھوا رہے تھے وہ کاتب جب (آیت) ” ثم انشانہ خلقا اخر “ پر پہنچا تو اس کی زبان سے خود بخود یہ جملہ زبان پر جاری ہوگیا اور اس نے (آیت) ” فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ کے الفاظ کہے جب آپ ﷺ نے اس کو لکھوائے تو وہ اپنے دل میں یہ سمجھا کہ آپ ﷺ بھی اسی طرح لکھوا رہے ہیں جس طرح میرے بولے ہوئے جملہ کو پسند کرکے آپ نے لکھوا دیا ۔ پھر اس کا ترجمہ ہوا سو ہوا بحث یہ پیدا ہوگئی کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم بھی مخلوق ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں پھر اس کا جواب بڑا دیا گیا وہ یہ کہ قرآن کریم کی پوری آیت تو مخلوق نہیں البتہ آیت کا کچھ حصہ مخلوق ہو سکتا ہے حالانکہ جواب بالکل بچوں کا سا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں لیکن چونکہ اس طرح کی باتیں ہماری نہایت معتبر تفاسیر میں درج ہوچکی ہیں اس لئے ان باتوں کو وہ مقام حاصل ہوگیا ہے ان کے ذکر کے سوا تکمیل تفسیر نہیں سمجھی جاسکتی اور ایسی روایتوں کی جو حیثیت ہے وہ اہل علم پر روشن ہے ہمارے نزدیک یہ سوال ہی قابل بحث نہیں ہے ۔
Top