Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 50
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠   ۧ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے (عیسی) کو وَاُمَّهٗٓ : اور ان کی ماں اٰيَةً : ایک نشانی وَّاٰوَيْنٰهُمَآ : اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا اِلٰى : طرف رَبْوَةٍ : ایک بلند ٹیلہ ذَاتِ قَرَارٍ : ٹھہرنے کا مقام وَّمَعِيْنٍ : اور جاری پانی
اور ابن مریم اور اس کی ماں کو ایک بڑی نشانی بنایا اور انہیں ایک مرتفع مقام میں پناہ دی جو بسنے کے قابل اور شاداب تھی
سیدہ مریم (علیہ السلام) اور ابن مریم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اچھا ٹھکانا عطا کرنے کی طرف اشارہ : 50۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات وواقعات قرآن کریم میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سارے نبیوں سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں اس لئے آپ بھی ان کی تفصیلات پیچھے سورة آل عمران ‘ سورة النساء ‘ سورة المائدہ ‘ سورة الانعام ‘ سورة التوبہ اور سورة مریم میں پڑھ چکے ہیں اور سورة مریم میں تو سید مریم (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت میں اختصار کے ساتھ ان کی زندگیوں کے سارے واقعات ذکر کردیئے گئے ہیں وہاں ہم نے اس آیت کے متعلق بھی عرض کردیا ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں ہاں ! یہ سچ ہے کہ ” بزرگوں کی نبوت معلوم ومسلم ہے ان میں سب سے بڑھ کر ظلم سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر کیا گیا ہے ۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے سب انسان ہوا کرتے ہیں ، بشریت کی تمام خصوصیتیں ان میں بھی اسی طرح موجود تھیں جس طرح ہر انسان میں ہوتی ہیں فرق صرف اتنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمت ونبوت اور اعجاز کی قوتیں عطا فرما کر ایک بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کے لئے مامور کیا تھا لیکن اول تو ان کی قوم نے انکو جھٹلایا اور پورے تین سال بھی ان کے وجود مسعود کو برداشت نہ کرسکی یہاں تک کہ عین عالم شباب میں انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کردیا اور پھر جب وہ ان کے بعد انکی عظمت کی قائل ہوئی تو اس قدر حد سے تجاوز کرگئی کہ انکو خدا کا بیٹا بلکہ عین خدا بنا دیا ۔ “ بلاشبہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات پر سب سے زیادہ ظلم ان کے معتقدین ہی نے کیا ہے انہوں نے ان کی ذات پر اپنے تخیلات وادہام کے اتنے پردے ڈال دئیے ہیں کہ ان کی شکل و صورت کو پہچاننا ہی محال ہوچکا ہے پھر صرف یہی نہیں کہ ان کی محرف شدہ کتابوں سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کہ ان کی اصل تعلیم کیا تھی ؟ بلکہ آج ہم یہ بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ وہ خود اصل میں کیا تھے ۔ “ ان کی پیدائش میں اعجوبگی ‘ طفولیت میں اعجوبگی انکی جوانی میں اعجوبگی ‘ بڑھاپے میں اعجوبگی اور اسی طرح ان کی زندگی کی ہر بات میں اعجوبگی ، غرض ابتداء سے لے کر انتہا تک وہ ایک افسانہ ہی افسانہ نظر آتے ہیں اور ان کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے یا خود خدا تھے اور خدائی میں وہ تیسرے حصہ کی حد تک شریک وسہیم تھے ۔ “ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انکو اور ان کی والدہ ماجدہ کو دنیا والوں کے لئے ایک بہت بڑی نشانی بنایا تھا کہ انکی والدہ ماجدہ نے قوم کے نظریہ کے خلاف رضائے الہی کے لئے وہ کام کر دکھایا جو بہت بڑے بڑے بہادر لوگ بھی نہیں کرسکتے تھے اور آپ کے بیٹے نے بچپن ہی میں قوم کے وڈیروں کو اس طرح مخاطب کیا کہ کوئی برابر کا آدمی بھی اس طرح مخاطب نہیں کرسکتا اور ان کے ساتھ اس طرح استعارات میں باتیں کیں کہ وہ آپ کو کسی ایک بات کا بھی جواب نہ دے سکے اور آپ کی باتوں سے تنگ آکر آپ کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی اور آپ کی والدہ ماجدہ کی مدد فرماتے ہوئے ایک اچھے مقام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم صادر فرمایا جس کا ذکر قرآن کریم کی زیر نظر آیت میں کیا گیا ہے ۔ تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیر نظر آیت میں آپ کے بچپن کی زندگی کی طرف اشارہ ہے اور اس سے مقصود وادی نیل کی بالائی سطح ہے یعنی مصر کا بالائی حصہ ۔ اناجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد مریم (علیہ السلام) کے شوہر یوسف نے ماں بیٹے کو ساتھ لیا اور فلسطین سے مصر چلا گیا چناچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا بچپن وہیں گزرا اور جب فلسطین سے واپس یروشلم آئے اس وقت آپ کی عمر 12 ‘ 13 برس کی تھی اور اس آیت میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے ، دریائے نیل کی پانی کی فراوانی اور اس کے سالانہ سیلابوں کی عجیب و غریب نوعیت سرزمین مصر کا ایک امتیازی وصف رہی ہے۔ اس کی آبادی وسیرابی یعنی اس کا ذات قرار ومعین ہونا ضرب المثل کی طرح زبان زد ہوگیا تھا چناچہ عبرانی کی یہ قدیم مثل آج تک ملتی ہے کہ ” فلاں ملک میں پانی کی اتنی فراوانی ہے جیسے مصر میں “ چونکہ یہ مصر کا ایک امتیازی وصف ہوگیا تھا اس لئے اسی وصف سے اسے یاد کیا گیا ۔ اس تعبیر میں یہ پہلو بھی پوشیدہ ہے کہ وہ فلسطین جیسا سرسبز ملک ترک کردینے پر مجبور ہوگئے لیکن اللہ کے فضل نے ایسی جگہ پناہ دے دی جو فلسطین ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ذات قرار ومعین تھی ! سیدہ مریم (علیہ السلام) اس سفر پر کیوں مجبور ہوئیں ؟ اناجیل میں اس کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہیرودیس حاکم شام کے ظلم وتشدد سے کہ اسے نجومیوں نے پیدائش مسیح کی خبر دے دی تھی اور وہ چاہتا کہ وہ انہیں قتل کر دے تب ” فرشتہ نے یوسف کو خواب میں حکم دیا اٹھ بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر بھاگ جا ۔ “ (متی 2 : 13) لیکن قرآن کریم نے فقط استعارہ کے طور پر یہ بات کی ہے اس کی وضاحت نہیں کی ۔
Top