Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 6
اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ
اِلَّا : مگر عَلٰٓي : پر۔ سے اَزْوَاجِهِمْ : اپنی بیویاں اَوْ : یا مَا مَلَكَتْ : جو مالک ہوئے اَيْمَانُهُمْ : ان کے دائیں ہاتھ فَاِنَّهُمْ : پس بیشک وہ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ : کوئی ملامت نہیں
ہاں ! اپنی بیبیوں سے زنا شوئی کا علاقہ رکھتے ہیں یا ان سے جو ان کی ملکیت میں آگئیں تو ان سے علاقہ رکھنے پر ان کے لیے کوئی ممانعت نہیں
اس استثناء کا ذکر جس کا بیان پیچھے گزر چکا یعنی ازالہ خواہشات کی جائز صورت : 6۔ زیر نظر آیت میں اس طریقہ استثناء کا بیان ہے جو نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے جائز اور روا رکھا گیا ہے وہ ایک اور صرف ایک ہے جس کا نام اسلامی قانون میں نکاح ہے اور چونکہ نکاح میں آنے والی عورتیں دو قسم کی موجود تھیں اس لئے ان دونوں قسم کی عورتوں کو اس سے مستثنی کردیا گیا ایک وہ جو آزاد عورتیں ہیں اور دوسری وہ جو مملوکہ عورتیں ہیں جب ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح ہوگیا اور وہ ازدواجی زندگی کے لئے مخصوص ہوگئیں تو اب ان کے علاوہ اگر ازالہ کے لئے مختص ہیں جہاں اس خواہش کا پورا کرنا جائز اور درست ٹھہرا ۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہوئی کہ اکثر مفسرین نے اور علمائے اسلام نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کوئی عورت جب ملک یمین ہوگئی تو اب نکاح کئے بغیر بھی خواہش نفسانی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے حالانکہ ان کی یہ بات قطعا درست نہیں اور اس کی تفصیل ہم پیچھے سورة النساء کی آیت 3 کے تحت میں بیان کر آئے ہیں وہاں سے ملاحظہ کرلیں ۔ اس جگہ اتنی بات مزید عرض ہے کہ قرآن کریم نے لونڈیوں کا ذکر الگ کرکے ان کے ساتھ آزاد مردوں کے نکاح کو حرام تو نہیں کہا لیکن سخت شرائط کے ساتھ مشروط کر کے یہ بتا دیا ہے کہ ان کی حیثیت آزاد عورتوں سے الگ ہے اس لئے سوائے سخت مجبوری کے ان کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے کیوں ؟ اس لئے کہ جب نکاح ہوا تو پھر اولاد بھی ہوگی اور لونڈی غلام تو بکاؤ مال ہے اگر اس کو بیچ دیا گیا تو زیادہ سے زیادہ نکاح فسخ ہوگیا لیکن اس اولاد کا کیا ہوگا اور اس کی پرورش کے لئے بہت سی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی اور یہ بھی کہ اولاد کو جو آزاد مرد سے ہے فروخت بھی نہیں کیا جاسکے گا اور اس ماں کی مامتا کا کیا بنے گا اس طرح کی اور بھی بہت سی قباحتیں پیدا ہوں گی لہذا اس سے پرہیز بہتر ہے ہاں ! خوبی کی بات یہ ہے جس مملوکہ سے نکاح کے لئے خیال پیدا ہوا اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلیا جائے تو یہ ایک نیکی اور خوبی کی بات ہوگی چناچہ سورة النور میں اس کی مزید وضاحت بیان کی گئی ہے ، سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ جب قرآن کریم ہم کو مساوات اسلامی کی ہدایت دیتا ہے تو نکاح کے لئے اس کو سوائے اشد ضرورت کے ممانعت کیوں یا کم از کم یہ کہ اس کو پسند نہیں کیا ؟ کیا اسلام میں لونڈی اور غلام کو تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ؟ ہرگز نہیں اسلام تو تحقیر کی نظر سے دیکھے جانے کی ممانعت کرتا ہے اور اس ممانعت کے باعث اس نے پسند نہیں کیا کہ ایک آزاد مرد کسی لونڈی سے نکاح نہ کرے تو یہ بہتر ہے اس لئے کہ نکاح کرنے والے کی اگر وہ ملک یمین ہے تو نکاح کرنے سے پہلے وہ اس کو آزاد کردے تاکہ اس کو صحیح حقوق مل سکیں اور کسی دوسرے سے اس کا نکاح کرنے پر وہ تیار ہو تو اس کو کسی دوسرے سے نکاح میں دینے کی بجائے اس کو آزاد کردے تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ازدواجی زندگی حاصل کرے اس غرض وغایت کا پتہ ہم کو نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی لونڈی کو لونڈی رکھ کر نکاح نہیں کیا بلکہ اس کو آزاد کر کے اس سے نکاح کیا ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ ام المومنین صفیہ ؓ ملک یمین میں داخل تھیں لیکن آپ ﷺ نے ان کو آزاد کرکے نکاح فرمایا اور قریشی خاندان کی بیبیوں کے برابر ان کو حقوق دیئے اور یہ حالت سیدہ ماریہ قبطیہ کی تھی جن کے بطن سے آپ ﷺ کے بیٹے سیدنا ابراہیم پیدا ہوئے تھے بلاشبہ شاہ مصر نے انہیں بطور ایک لونڈی کے آپ ﷺ کی طرف بھیجا تھا اور آپ ﷺ نے ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح فرمایا وہ حجاب میں رہتی تھیں اور ان کے نکاح میں آنے کے باعث ہی وہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد نکاح ثانی نہ کرسکیں اور ان کی وفات تک ان کو باقاعدہ ازواج مطہرات کے ساتھ نان ونفقہ دیا گیا اور یہی حال سیدہ ریحانہ کا تھا گویا اس طرح آپ ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے ثابت کردیا کہ ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ملک یمین کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرے اور اس کو باقاعدہ آزاد بیوی کے حقوق دے چناچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں بیان ہوا کہ ” الرجل تکون لہ امہ فیعلمھا فیحسن تعلیمھا ویودبھا ثم یعتقھا فیتزوجھا فلہ اجران “۔ ” جس شخص کے پاس لونڈی ہو پھر وہ اس کو تعلیم دے اور اچھی تعلیم دے اور اس کو آداب سکھائے اور اچھے آداب سکھائے اور اسے آزاد کرے اور اس سے نکاح کرے تو اس کے لئے دوگنا اجر ہے ۔ “ اس لئے واضح ہو گای کہ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے میں جو ناپسندیدگی تھی وہ اس باعث تھی کہ ان کو آزاد کیا جائے اور مسلمان ان کو آزاد کرنے کے بعد ان کو زوجیت میں لیں تاکہ ان عورتوں کے برابر حقوق ملیں اور وہ لونڈی رہ کر تحقیر کا باعث نہ ہوں اور یہ قدروقیمت آپ ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے لوگوں کو سکھائی لیکن ہمارے مفسرین نے اس حکمت کو سمجھنے کی کوشش نہ کی اور لونڈی کے ساتھ بغیر نکاح کئے ہیں ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت کا مفہوم سمجھا سمجھایا گیا جو اسلامی تعلیمات کے سخت خلاف تھا لیکن رواج کا سیلاب اتنا سخت ہے کہ یہ بڑوں بڑوں کو بہاکر لے جاتا ہے اور جس طرح بہت سی باتوں میں ایسا ہوا اس میں بھی رواج کے سیلاب نے اپنا کام کر دکھایا اور اس رواج کے خلاف دینے والوں کو ٹیڑھی نظر سے دیکھا گیا والی اللہ المشتکی ۔ واللہ المستعان علی ما یصفون :
Top