Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 8
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِاَمٰنٰتِهِمْ : اپنی امانتیں وَعَهْدِهِمْ : اور اپنے عہد رٰعُوْنَ : رعایت کرنے والے
نیز جن کا حال یہ ہے کہ اپنی امانتوں اور عہدوں کا پاس رکھتے ہیں
ایمان والوں کی پانچویں نشانی یہ ہے کہ وہ امانت اور عہد کو پورا کرتے ہیں : 8۔ آپس میں لین دین کے معاملوں میں جو اخلاقی جوہر مرکزی حیثیت رکھتا ہے وہ امانت ودیانت ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے کاروبار میں ایماندار ہو اور جس کا حق جس کسی پر جتنا ہو اس کو پوری دیانت سے رتی رتی دے دے اس کو عربی میں امانت کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی شرعی تکلیف کو جسے اس نے نوع انسانی کے سپرد کیا ہے امانت کے لفظ سے ادا کیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ ” ہم نے اپنی امانت آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے وہ ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بلاشبہ وہ ظالم اور نادان ہے ۔ “ (الاحزاب 33 : 73) اس سے ظاہر ہوگیا کہ یہ پوری شریعت ایک اللہ رب العزت کی امانت ہے جو ہم انسانوں کے سپرد ہوئی ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے مطابق اپنے مالک کا پورا پورا حق ادا کریں اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو بلاشبہ خائن ٹھہریں گے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ” جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں ۔ “ (کنزالعمال ج 2 ص 15) ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جس سے مشورہ طلب کیا گیا اس کو امانت سپرد کی گئی ۔ “ (ادب المفرد بخاری) اس طرح نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا کہ ” مجلس میں جو باتیں ہوں وہ ایک طرح کی امانت ہیں “ (ابوداؤد باب فی نقل الحدیث) ایک حدیث میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص کسی سے بات کرتے وقت احتیاط ادھر ادھر دیکھے اور اس کی غرض یہ ہو کہ کوئی اور تو اس کو سن نہیں رہا تو وہ بات امانت ہوگی ۔ “ (ابوداؤد کتاب الادب) امانت میں خیانت کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا کہ ” جو شخص امانت میں خیانت کرتا ہے وہ نفاق سے کام لیتا ہے ۔ “ (صحیح بخاری کتاب ال ایمان باب علامات المنافق) حجۃ الوداع کے مشہور ومعروف خطبہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” عورتوں کے متعلق اللہ ڈرو کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امانت اور عہد کے ساتھ اپنی زوجیت میں لیا ہے ۔ “ (صحیح مسلم حجۃ الوداع) دوسری بات جو اس جگہ اس آیت میں بیان کی گئی وہ عہد کی پابندی ہے اور عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول وقرار کے سمجھتے ہیں لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے وہ اخلاق ‘ معاشرت ‘ مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلا ‘ شرعا ‘ قانونا اور اخلاقا فرض ہے اور اس لحاظ سے یہ مختصر سا لفظ انسان کے بہت سے عقلی ‘ شرعی ‘ قانونی ‘ اخلاقی اور معاشرتی فضائل کا مجموعہ ہے اس لئے قرآن کریم میں بار بار اس کا ذکر آیا ہے اور مختلف حیثیتوں سے آیا ہے اور تمام عہدوں میں سب سے پہلے انسان پر اس عہد کا پورا کرنا واجب ہے جو اللہ اور بندوں کے درمیان ہوا ہے یہ عہد ایک تو وہ فطری معاہدہ ہے جو روز الست بندوں نے اپنے رب سے باندھا اور جس کا پورا کرنا انسانوں کی زندگی کا پہلا فرض ہے اور اس کے بعد آپس کے عہد و پیمان ہیں ۔ گویا ہر وہ قول وقرار جو بندہ اللہ سے کرتا ہے یا بندہ بندہ سے کرتا ہے پورا کرنا حق العباد کو ادا کرنا ہے جس کے مجموعہ کا نام دین ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ جو ان عہدوں کو پورا نہیں کرتا وہ دین کی روح سے محروم ہے لیکن افسوس کہ آج کل نہ حقوق اللہ کی کوئی پروا کی جاتی ہے اور نہ ہی حقوق العباد کی اور نہ ہی ان باتوں کو کوئی عہد و پیمان سمجھنے کے لئے تیار ہے ۔ بلاشبہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق یہ مسلمانوں کا امتیازی نشان ہے لیکن اس وقت اس کا عکس مسلمانوں کا امتیازی نشان سمجھا جانے لگا ہے اور اس پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا ہی کم ہے ۔ آیت 2 سے آیت 8 تک کا خلاصہ ایک بار پھر ذہن نشین کرلیجئے پھر آگے بڑھیں گے کیونکہ ان آیات میں اسلامی زندگی کے نقش ونگار بیان کئے گئے ہیں ذرا غور کرو کہ اسلامی زندگی کے نقش ونگار کیا ہیں ؟ ا : نماز کی محافظت اور اس کا خشوع و خضوع سے ادا کرنا ” خشوع “ کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا تم کسی باہیبت واجلالی مقام پر کھڑے ہوجاؤ تو تمہارے ذہن پر جسم پر کیسی حالت طاری ہوجائے گی ؟ ایسی ہی حالت کو عربی زبان میں ” خشوع “ کی حالت کہتے ہیں ۔ ب : ہر اس بات سے مجتنب رہنا جو نکمی اور گھٹیا ہو صرف انہی باتوں کا اشتعال رکھنا جو دین و دنیا میں نافع ہوں ۔ ج : اپنی کمائی اپنے بھائیوں کیلئے خرچ کرنا جو محتاج ہوں اور بھائیوں سے مراد جنس انسانیت کے لوگ ہیں ۔ د : زنا سے کبھی آلودہ نہ ہونا اور نہ کوئی ایسی حرکت کرنا جو خلاف اصول اسلامی ہے ۔ ہ : امانت ودیانت کے ساتھ اپنے عہدوں کو پورا کرنا ۔ آیت سات ‘ آٹھ سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے نزدیک اتحاد وتناسل کا جائز طریقہ ایک اور صرف ایک ہی ہے اور وہ ازدواج کا طریقہ ہے علاوہ ازیں جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے گا ‘ ناجائز ہوگا خواہ کسی شکل اور کسی نوعیت کا ہو ۔ تمام دنیا کی طرح عرب میں بھی اس وقت غلامی کی رسم جاری تھی اور لونڈی غلاموں کے معاملہ کو ملک یمین سے تعبیر کرتے تھے یعنی کسی چیز پر قابض ہوجانے سے یہاں فرمایا وہ زناشوئی کا علاقہ بجز منکوحہ عورتوں کے اور کسی سے نہیں رکھتے ان کی بیبیاں ہوں جو سوسائٹی کے آزاد افراد میں سے ہیں یا لونڈیاں ہوں جوان کے نکاح میں آگئی ہوں چونکہ وقت کی سوسائٹی میں آزاد اور غلام افراد کی یہ دو قسمیں پیدا ہوگئی تھیں اس لئے اس کا ذکر ناگزیر تھا باقی رہی یہ بات کہ خود قرآن کریم نے رسم غلامی کے باب میں کیا حکم دیا اور کس طرح اسے مٹانا چاہا ؟ تو اس کا جواب سورة محمد کی تشریحات میں ملے گا ۔ انشاء اللہ :
Top