Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 3
اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً١٘ وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ١ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيْ : بدکار مرد لَا يَنْكِحُ : نکاح نہیں کرتا اِلَّا : سوا زَانِيَةً : بدکار عورت اَوْ مُشْرِكَةً : یا مشرکہ وَّالزَّانِيَةُ : اور بدکار عورت لَا يَنْكِحُهَآ : نکاح نہیں کرتی اِلَّا زَانٍ : سوا بدکار مرد اَوْ مُشْرِكٌ : یا شرک کرنیوالا مرد وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
بدکار مرد تو (عادۃً ) بدکار عورت یا مشرکہ سے نکاح کرلیتا ہے اور زانیہ سے مشرک یا زانی کے سوا کوئی نکاح نہیں کرتا اور یہ بات مومنوں پر حرام کردی گئی ہے (یقینا وہ اسے پسند نہیں کرتے)
بکروثیب کی تفریق یعنی دونوں کی سزا میں جو فرق روا رکھا گیا ہے : سورة النساء کی آیت 15 میں بیان کیا گیا تھا کہ ” تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدچلنی کی مرتکب ہوں تو چاہئے کہ اپنے آدمیوں میں سے چار آدمیوں کی اس پر گواہی لو اور اگر چار گواہ گواہی دے دیں تو پھر ایسی عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمر پوری کر دے یا ان کے لئے کوئی دوسری راہ پیدا کر دے ۔ “ پھر اس معاملہ میں جو راہ پیدا کردی گئی وہ یہی ہے کہ ” زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو “۔ (النور 24 : 2) ظاہر ہے کہ اس میں بکروثیب کی کوئی تفریق نہیں کی گئی لیکن بعض احادیث کی روشنی میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بکر کے لئے جلدہ یعنی درے لگانا ہے اور ثیب کے لئے رجم ہے ، رجم کیا ہے ؟ رجم کا لفظ سنگسار کرنے اور لعنت ملامت کرنے اور دھتکارنے کے معنوں میں آتا ہے رجمہ یرجمہ رجما رماہ بالحجارۃ ‘ ثم صار الرجم یستعمل فی القتل مطلقا واسم المفعول مرجوم وجمعہ مرجومون اور قرآن کریم میں نوح (علیہ السلام) کے ذکر میں بیان کیا گیا ہے کہ قوم کے لوگوں نے ان کو کہا (آیت) ” لئن لم تنتہ ینوح لتکونن من المرجومین “۔ (الشعراء 26 : 116) ” اے نوح ! اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا ۔ “ اس لئے کہ رجمہ یرجمہ رجما کے معنی طردہ او لعنہ کے بھی کئے گئے ہیں اور قرآن کریم نے جگہ جگہ شیطان کو رجیم ۔ الرجیم کہا ہے اور ایک جگہ الرجم بالغیب یعنی القذف بالظن کے معنوں میں بھی آیا جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” ویقولون خمسۃ سادسھم کلبھم رجما بالغیب “۔ (الکہف 18 : 22) ” جو کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا یہ سب بےتکی ہانکتے ہیں “ گویا آوارہ اور بےمقصد کلام کو بھی کہا جاتا ہے اب اس رجم سے کیا مراد ہے جو شادی شدہ مرد و عورت کے لئے قرار دیا گیا ہے ؟ احادیث کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد سنگسار کرنا ہے ۔ ہمارے مفسرین نے اس پر سوال اٹھایا ہے کہ شادی شدہ مرد وزن جس کو محصن بھی کہتے ہیں سنگسار کرنا کیوں ہے ؟ اور پھر اس فرضی سوال کا جواب اس طرح دیا ہے کہ بھوکا اگر چوری کرے تو اس قدر جرم نہیں جتنا وہ جو امیر ہونے کے باوجود کسی کھانے کی چیز کی چوری کرے ۔ ایسے ہی شادی کے بعد زنا کرنا بتاتا ہے کہ بداخلاقی اس شخص کے رگ وپے میں سرایت کرگئی ہے اس لئے اس نے اس کا ارتکاب کیا ہے لہذا اس کو کنواروں سے زیادہ سزا دینی درست ہے۔ لیکن ان سے اگر کوئی یہ پوچھ لے کہ ثیب ہر اس مرد و عورت ہی کو نہیں کہتے جس کے ہاں مرد ہے تو بیوی اور بیوی ہے تو مرد موجود ہو بلکہ ثیب یعنی شادہ شدہ کا الفظ ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جس نے شریعت نکاح کیا اور ازدواجی تعلق قائم کیا ہو اگر ارتکاب کے وقت وہ مجرد ہی کیوں نہ ہو خواہ اگر وہ مرد ہے تو اس کی بیوی مر گئی ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو اسی طرح اگر عورت ہے تو خواہ اس کا خاوند مر گیا اور خواہ اس نے اس کو طلاق دے دی ہو ۔ ظاہر ہے اس صورت میں جو بھوک اس کو ہوگی وہ اس کو کبھی نہیں ہوسکتی جس نے ابھی تک اس درخت اس درخت کو چکھا تک نہیں تو اس کے پاس اس کا کیا جواب ہوگا ؟ ہمارے خیال میں ان فرضی سوالوں جوابوں کی ضرورت نہیں بلکہ آپ ﷺ کے فیصلوں کے مطابق زانیہ اور زانی کی سزا سو سو کوڑے تو بہرحال ضروری ہے لیکن بعض اوقات کوڑوں کے ساتھ ایک سال تک علاقہ بدر کرنے ‘ جیل میں بھجوانے کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور بعض اوقات ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو کوڑے لگوانے کے بعد رجم کی ضرورت بھی پیش آتی ہے وہ پتھروں سے ہلاک کئے جائیں یا ان کو قتل کردیا جائے اور بعض اوقات صرف کوڑوں پر اکتفا کیا جاتا ہے اور بعض اوقات کوڑوں کی سزا کو اتنا ہلکا بھی کیا جاسکتا ہے جیسے تادیب کے لئے کسی کو کچھ لگا دیا جاتا ہے اور بعض اوقات حالات کے پیش نظر چشم پوشی بھی کی جاسکتی ہے گویا ان حدود میں بہت وسعت رکھی گئی ہے اور وقت کے حاکم اور قاضی کے لئے ضروری ہے کہ وہ حالات کو دیکھ کر اس وسعت سے کام لیتے ہوئے اس کی وضاحت بھی کرے اور سزا کا اعلان بھی تاکہ بات واضح ہوجائے ، اب ہم آپ ﷺ کے چند فیصلوں کا ذکر کریں گے تاکہ بات مزید واضح ہوجائے ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کے وقت کے واقعات اور ان کے فیصلے : 1۔ احادیث میں ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی خدمت میں چند یہودیوں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ان کے متعلق کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ پہلے تم یہ بتاؤ کے تورات میں اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ یہود نے کہا ہم ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ ہم ان کو رسوا کرتے ہیں اور ان کے درے بھی مارتے ہیں ۔ عبداللہ بن سلام ؓ وہاں موجود تھے جو تورات کے حافظ تھے انہوں نے یہود کی بات سن کر کہا تم جھوٹ بول رہے تورات میں تو سنگسار کرنے کا حکم بھی موجود ہے ۔ آپ ﷺ نے تورات لانے کا حکم دیا ‘ تورات لائی گئی اور یہودی اس کی ورق گردانی کرنے لگے اور جب آیہ رجم آئی تو اس میں سے ایک شخص نے آیت مذکورہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اس سے آگے اور پیچھے سے پڑھ کر سنانے لگا ۔ عبداللہ بن سلام نے اس پڑھنے والے کو کہا کہ ذرا اس جگہ سے اپنا ہاتھ اٹھاؤ جب قاری نے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹایا تو اس جگہ آیت رجم موجود تھی یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے ان دونوں یعنی یہودن اور یہودی کو رجم کی سزا دینے کا حکم صادر فرمایا اور اس طرح وہ دونوں آپ ﷺ کے اس حکم سے سنگسار کئے گئے ، امام بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں یہ روایت ان الفاظ میں پیش کی ہے : حدثنی عبداللہ بن دینار عن ابن عمر قال اتی رسول اللہ ﷺ یہودی ویہودیہ قد احدثا جمیعا فقال لھم ماتجدون فی کتابکم قالوا ان احبارنا احدثوا تحمیم الوجہ والتجبیہ قال عبداللہ بن سلام ارعھم یا رسول اللہ بالتوراتہ فاتی بھافوضع احدھم یدہ ایہ الرجم وجعل یقراما قبلھا وما بعدھا ارفع یدک فاذا یہ الرجم تحت یدہ فامر بھما رسول اللہ ﷺ فرجما قال ابن عمر فرجما عند البلاط۔ (صحیح بخاری باب الرجم فی البلاط ‘ کتاب المحاربین ج 2) یہ حدیث موطا امام مالک میں بھی ہے اور موطا کے الفاظ ہیں کہ یہود نے کہا تھا نفضحھم ویجلدون “۔ 2۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور زنا کا اقرار کیا ۔ آپ ﷺ نے کوڑا منگانے کا حکم دیا تو ایک شخص کوڑا لایا جس کا سرا بھی نہیں کٹا تھا اور وہ نیا کوڑا تھا ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ نے حکم دیا کہ اس سے نرم کوڑا لاؤ ۔ دوسرا کوڑا لایا گیا تو ٹوٹا ہوا تھا بہت زیادہ نرم تھا آپ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ اس کوڑے سے ذرا سخت کوڑا لاؤ پھر ایک کورا آپ ﷺ کے پاس لایا گیا جو سواری کے کام آتا تھا اور اس لئے نرم ہوچکا تھا ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ نے حکم دیا کہ اس سے اس کو مارو جب اس کو کوڑے لگے چکے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے لوگو ! اب تمہارے لئے وقت آچکا ہے کہ تم اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرو ۔ جس شخص سے ان ناپاک افعال کا ارتکاب ہوجائے تو اسے چاہئے کہ اللہ کی پردہ داری کے ساتھ پردہ رکھے کیونکہ جو شخص ہم پر اپنا چہرہ ظاہر کرے گا (اقرار جرم کرے گا) تو ہم کتاب اللہ کے موافق اس پر حد قائم کریں گے ۔ اس حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں : ۔ عن زید بن اسلم ان رجلا اعترف علی نفسہ بالزنا علی عہد رسول اللہ ﷺ فدعا لہ رسول اللہ ﷺ بسوط فاتی بسوط جدید لم تقطع ثمرتہ فقال دون ھذا فانی بسوط جدید لم تقطع ثمرتہ فقال دون ھذا فاتی بسوط مکسور فقال فوق ھذا فاتی بسوط قد رکب بہ فامربہ رسول اللہ ﷺ فجلد ثم قال ایھا الناس قد ان لکم ان تنتھوا عن حدود اللہ من اصاب من ھذہ القاذورات شیئا فلیستتر بستر اللہ فانہ من یبدلنا صفحتہ نقم علیہ کتاب اللہ (موطا امام مالک کتاب الحدود) 3۔ ایک حدیث میں ہے کہ خیبر میں جو یہودی آباد تھے ان میں ایک شادی شدہ جوڑے نے زنا کاری کا ارتکاب کیا ، تورات کے احکام کے مطابق ان کی سزا سنگساری تھی مگر یہود نے خواہشات نفس کی پیروی میں ان احکامات کو پس پشت ڈال رکھا تھا ، یہودیوں کا خیال تھا کہ شاید اسلامی شریعت موسوی شریعت کی نسبت نرم ہے اس لئے وہ یہ مقدمہ لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے ۔ ان آنے والوں کو یہود نے خاص کر کے یہ ہدایت کی تھی کہ اگر محمد ﷺ ہمارے مطلب کے موافق فیصلہ دیں تو قبول کرلیں ورنہ قبول نہ کریں گویا مطلب یہ ہوا کہ اگر وہ رجم کے علاوہ کوئی دوسرا فیصلہ دیں تو مان لینا ورنہ انکار کردینا ۔ جب وفد نبی اعظم وآخر ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا اے محمد ﷺ اگر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے مرتکب ہوں تو ان کے لئے کیا حکم ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں جو فیصلہ کروں تمہیں منظور ہوگا ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ! ہمیں آپ ﷺ کا فیصلہ منظور ہوگا ۔ اسی لمحے جبریل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ اس کا فیصلہ رجم ہے ۔ آپ ﷺ نے ان کے مقدمہ میں رجم کا فیصلہ دیا لیکن یہ سن کر یہودی بوکھلا گئے اور آپ ﷺ کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا آپ ﷺ نے جبریل (علیہ السلام) کے حکم سے ان یہودیوں کا کہا کیا آپ لوگ ابن صوریا کو ” حکم “ بنائیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ روئے زمین پر اس سے زیادہ کوئی بڑا عالم موجود نہیں ہے اور وہ جو کہے گا ہم منظور کریں گے ۔ آپ ﷺ نے ابن صوریا کو طلب کیا وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اس کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے ابن صوریا تورات میں اس فیصلہ کا کیا حکم تحریر ہے اور آپ ﷺ نیا سے تاکیدا کہا کہ آپ قسم کے مطابق صحیح بات کریں گے کہ تورات میں شادی شدہ زانیہ اور زانی کی سزا کیا ہے ؟ ابن صوریا نے کہا کہ اگر آپ مجھے قسم نہ دیتے اور مجھے یقین نہ ہوتا کہ اگر میں نے غلط بیانی کی تو اللہ کی کتاب مجھے جلا کر خاک کر دے گی تو کبھی اس کا حکم ظاہر نہ کرتا حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اشراف کے یہاں زنا کی کثرت ہوگئی تو ان کے مرتبہ کی وجہ سے ہم نے شرفاء کو اس سے مستثنی کرنا شروع کردیا ۔ حالانکہ تورات میں حکم تو یہی ہے کہ شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا جائے لیکن اس وقت ہم کسی غریب سے یہ فعل سرزد ہوجائے تو رجم کرنے کا حکم دیتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ سزا بالکل ہی متروک ہو کر رہ گئی ہے اور اس کی بجائے منہ کالا کرنا ‘ جوتے مارنا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا اور کوڑے مارنا ہی رہ گیا ہے ، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ” اے اللہ ! گواہ رہنا کہ میں نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا حالانکہ جن پر یہ حکم نازل ہوا وہ مردہ ہو کر رہ گئے ہیں ۔ پھر آپ ﷺ نے دونوں زانی اور زانیہ کو (رجم) سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔ “ عن نافع ان عبداللہ بن عمر اخبرہ ان رسول اللہ ﷺ اتی یھودی ویھودیۃ قد زنیا فانطلق رسول اللہ ﷺ حتی جاء یھود فقال ماتجدون فی التورہ علی من زنی قالو نسود وجودھھما ونجملھما ونخالف بین وجھومھما ویطاف بھما قال فاتوا بالتوراۃ ان کنتم صادقین فجاوابھا فقروھا حتی اذا مروا بایہ الرجم وضع الفتی الذی یقرایدہ علی ایۃ الرجم وقراما بین یدھا وما وراء ھا فقال لہ عبداللہ بن سلام وھو مع رسول اللہ ﷺ مرہ فلیرفع یدہ فرفعھا فاذا تحتھا ایۃ الرجم فامربھا رسول اللہ ﷺ فرجما قال عبداللہ بن عمر کنت فیمن رجمھما فلقد رایتہ یقیھا من الحجارۃ بنفسہ ۔ (صحیح مسلم ج 2 باب رجم الیھود اھل الذمہ فی الزنا ص 48 طبع مصر) 4۔ ایک حدیث میں ہے کہ بارگاہ رسالت میں دو شخص حاضر ہوئے اور اپنا مقدمہ نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا ، ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرمائیے اور آپ ﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں صورت حال کھول کر آپ ﷺ کے سامنے پیش کروں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیان کرو تو اس شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ! میرا بیٹا اس شخص کے ہاں ملازم تھا اس نے اس شخص کی بیوی سے زنا کا ارتکاب کیا ، بعض لوگوں کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر رجم کی حد جاری کی جائے گی میں نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کی خاطر اس کے فدیہ میں اس شخص کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دیں پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا ملے گی اور اس کو ایک سال کے لئے جلاوطن کیا جائے گا اور اس شخص کی بیوی پر رجم کی حد جاری ہوگی ۔ اس لئے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، دونوں کا بیان سن چکنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا لہذا اب فیصلہ سن لو ‘ وہ یہ ہے کہ اے شخص تیری بکریاں تجھے واپس کردی جائیں اور اس طرح تیری لونڈی بھی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور اسے ایک سال کے لئے جلاوطن بھی کیا جائے گا چناچہ اس کے لڑکے کو حضور ﷺ کے فیصلہ کے مطابق سزا دی گئی اور اس کے بعد آپ ﷺ نے ایک دوسرے شخص کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے انیس تم اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ اور اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے سنگسار کر دو ۔ اس شخص کی عورت نے انیس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کرلیا اس لئے اس کو نبی کریم ﷺ کے حکم کے مطابق رجم کردیا گیا (صحیح بخاری کتاب الحدود باب الاعتراف بالزنا جلد 2) اور (موطا امام مالک) اس حدیث کا متن درج ذیل ہے ملاحظہ فرمائیں : سمع ابا ہریرہ وزید بن خالد قالا کنا عند النبی ﷺ فقام رجل فقال انشدک اللہ الا قضیت بیننا کتاب اللہ فقام خصمہ وکان افقہ منہ فقال اقض بیننا ب کتاب اللہ واذن لی قال قل قال ان ابنی کان عسیفا علی ھذا فزنی بامراتہ فافتدیت منہ بمائۃ شاۃ و خادم ثم سالت رجالا من اھل العلم فاخبرونی ان علی بنی جلد مائہ وتغریب عام وعلی امرئہ الرجم فقال النبی ﷺ والذی نفسی بیدہ لا قضین بینکما ب کتاب اللہ جل ذکرہ المائۃ شاہ والخادم رد وعلی ابنک جلد مائۃ وتغریب عام واغدیا انیس علی امراۃ ھذا فان اعترفت فارجمھا ففعا علیھا فاعترفت فرجمھا (صحیح بخاری کتاب الحدود وموطا امام مالک) اور یہ الفاظ صحیح بخاری شریف کے ہیں ‘ موطا کے الفاظ درج نہیں کئے گئے ۔ 5۔ ایک حدیث میں ہے کہ ماعز بن مالک قبیلہ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس کی پرورش وتربیت حضرت ہزال نے کی تھی یہاں وہ ایک آزاد کردہ لونڈی سے زنا کا ارتکاب کر بیٹھا ہزال کو جب پتہ چلا تو اس نے ماعز کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خود بارگاہ رسالت میں جا کر اپنے جرم کا ارتکاب کرے ہو سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس کے لئے کوئی راہ معافی نکال لیں یا دعائے مغفرت فرمائیں ، ماعز مسجد نبوی میں نبی اعظم وآخر ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے پاک کردیں ‘ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوا ہے آپ ﷺ نے اس کی بات سن کر منہ دوسری طرف پھیرلیا اور فرمایا لوٹ جا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ اور توبہ کر ۔ اس پر بھی وہ وہاں سے نہ گیا اور سامنے آکر پھر وہی بات دہرائی ۔ آپ ﷺ نے اپنارخ پھر دوسری طرف کو پھیرلیا اس نے تیسری بار پھر وہی بات دہرائی لیکن نبی اعظم وآخر ﷺ نے اس بار بھی اس سے منہ پھیرلیا ، اسی طرح کرتے کرتے جب چار بار اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا تو نبی کریم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ شاید تو نے صرف بوس وکنار کیا ہوگا ‘ چھیڑ خانی کی ہوگی یا اس عورت پر نظر بد ڈالی ہوگی اس نے کیا یا رسول اللہ ﷺ نہیں میں نے فعل بد کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا تو نے اس سے ہم بستری کی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے اس سے مباشرت کی ہے ؟ ماعز نے کہا ہاں ! یارسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے پھر دریافت کیا کیا تو نے اس سے مجامعت کی ہے ؟ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اسی چیز میں غائب ہوگئی ؟ ماعز نے کہا ہاں ! اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا اس طرح جس طرح سلائی سرمہ دانی میں اور رسی کنوئیں میں چلی جاتی ہے ؟ ماعز نے کہا ہاں ! اللہ کے رسول بالکل اسی طرح ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا ماعز کیا تجھے علم بھی ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں ؟ ماعز نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ ہاں یا رسول اللہ ﷺ میں نے وہی کچھ اس سے ساتھ کیا ہے جو شوہر بیوی کے ساتھ کرتا ہے ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا کیا تو شادی شدہ ہے ؟ ماعز کہنے لگا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے شراب تو نہیں پی لی ؟ ماعز نے جواب دیا نہیں اللہ کے نبی ۔ اتنی ساری بحث کے بعد نبی اعظم وآخر ﷺ نے ایک آدمی کو اشارہ کیا تو اس نے اٹھ کر ماعز کا منہ سونگھا اور اس بات کی تصدیق کی کہ اس نے شراب نہیں پی پھر آپ ﷺ نے اس کے محلہ والوں سے اس کے ہوش و حواس کے متعلق دریافت کیا تاکہ پتہ چلے کہ کہیں یہ شخص دیوانہ تو نہیں ؟ محلہ والوں نے بتایا کہ ماعز کی عقل میں کوئی فتور نہیں اس نے جو کچھ کیا دیدہ دلیری سے کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے ہزال کو کہا کہ کاش تم نے اس کا پردہ رکھ لیا ہوتا تو شاید تمہارے حق میں بہتر ہوتا ۔ اب چونکہ ماعز نے چار بار بغیر کسی دباؤ کے اپنے جرم کا اقرار کرلیا اس لئے اب اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ، ماعز کو سنگسار کرنے کے لئے شہر سے باہر لے گئے جب اس پر پتھر برسنے لگے تو وہ بھاگا اور چلانے لگا اور کہنے لگا ! مجھے ایک بار رسول اللہ ﷺ کے پاس لے چلو ، مجھے میرے قبیلہ والوں نے دھوکا سے مروا دیا مجھے غلط تسلی دی کہ رسول اللہ ﷺ مجھے کبھی رجم نہیں کریں گے مگر لوگوں نے اس کو ہلاک کر ہی دیا ۔ اس صورتحال کی اطلاع جب نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کاش ! تم نے اسے چھوڑ دیا ہوتا یا میرے پاس لے آئے ہوتے تو شاید وہ سچے دل سے توبہ کرتا اور اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ۔ (صحیح بخاری ج 2 کتاب الحدود سنن ابی داؤد کتاب الحدود) اس حدیث کا متن بخاری میں اسی طرح ہے : ان ابا ہریرہ قال اتی رسول اللہ ﷺ رجل من الناس وھو فی المسجد فنادئہ یا رسول اللہ ﷺ انی زنیت یرید نفسہ فاعرض عنہ النبی ﷺ فتنحی لشق وجھہ الذی اعرض قبلہ فقال یا رسول اللہ ﷺ انی زینت فاعرض عنہ فجاء لشق وجہ النبی ﷺ الذی اعرض عنہ فلما شھد علی انفسہ اربع شھادات دعا النبی ﷺ فقال ابک جنون قال لا یا رسول اللہ فقال احصنت قال نعم یا رسول اللہ قال اذھبوا فارجموہ قال ابن شھاب اخبرنی من سمع جابرا قال فکنت فیمن رجمہ فرجمناہ بالمصلی فلما اذلقتہ الحجارۃ جمز حتی ادرکناہ بالحرۃ فرجمناہ ۔ (صحیح بخاری کتاب المحاربین) ابو داؤد کی عبارت اس طرح ہے : حدثنی یزید بن نعیم بن ھزال عن ابیہ قال کان ماعز بن مالک یتیما فی حجر ابی فاصاب جاریۃ من الحی فقال لہ ابی ائت رسول اللہ ﷺ فاخبرہ بما صنعت لعلہ یستغفرلک وانما یردی بذلک رجاء انیکون لہ مخرجا قال فاتاہ فقال یا رسول اللہ انی زنیت فاقم علی کتاب اللہ فاعرض عنہ فعاد فقال یا رسول اللہ انی زنیت فاقم لی کتاب اللہ حتی قالھا اربع مرات فقال النبی ﷺ انک قد قلتھا اربع مرات فبمن قال بنلانہ قال ھل ضاجع تھا قال نعم قال ھل ناشر تھا قال نعم قال ھل جامع تھا قال نعم قال فامربہ ان یرتبم فاخرج بہ الی الحرہ فلما رجم فوجد مس الحجارۃ فجزع فخرج یشتدفلقیہ عبداللہ بن انیس وقد عجز ا صحابہ فنزع لہ بوظیف بعیر فرماہ بہ فقتلہ ثم اتی النبی ﷺ فذکرلہ ذلک فقال ھلا ترکتموہ لعلہ ان یتوب اللہ علیہ ۔ (ابوداؤد کتاب الحدود ج 2) ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں : انہ سمع ابا ہریرہ یقول جاء الاسلمی الی انبی اللہ ﷺ فشھد علی نفسہ انہ اصاب امراہ حراما اربع مرات کل ذالک یعرض عنہ النبی ﷺ فاقبل فی الخامسہ فقال انک تھا قال نعم قال حتی غاب ذلک منک فی ذلک منھا قال نعم قال کما یغیب المرود فیالمکحلہ والرشاء فی البشر قال نعم قال ھل تدری مالزنا قال نعم اتیت منھا حراما ما یاتی الرجل من امراتہ حلالا قال وما ترید بھذا القول قالارید ان تطھرنی فامربہ فرجمع فسمع نبی اللہ ﷺ رجلین من اصحابہ یقول احدھما لصاحبہ انظر الی ھذا الذی ستر اللہ علیہ فلم تدعہ نفسہ حتی رجم رجم الکلب فسلت عناھا ثم سار ساعہ حتی مربجیفہ حمار شائل برجلہ فقال ابن فلاں وفلان فقال نحن زن یا رسول اللہ فقال انزلا فکلا من جیفہ ھذہ الحمار فقالا یا نبی اللہ من یا کل من ھذا قالفمانلتما من عرض اخیکما انفا اشد من اکل منہ والذی نفسی بیدہ انہ الان لفی انھارالجنہ ینغمس فیھا ۔ (ابوداؤد کتاب الحدود ج 2) مسلم شریف کی حدیث کا متن اس طرح ہے ۔ عن ابی ہریرہ انہ اتی رجل من المسلمین رسول اللہ ﷺ وھو فی المسجد فناداہ فقال یا رسول اللہ انی زنیت فاعرض عنہ متنحی تلقاء وجھہ فق اللہ یا رسول اللہ انی زنیت فاعرض عنہ فتنحی تلقاء وجھہ فقال لہ یا رسول اللہ انی زنیت فاعرض عنہ حتی ثنی ذلک علیہ اربع مرات فلما شھد علی نفسہ اربع شھادات دعاہ رسول اللہ ﷺ فقال ابک جنون قال لاقال فھل احصنت قال نعم فقال رسول اللہ ﷺ اذھبوا بہ فارجموہ قال ابن شھاب فاخبرنی من سمع جابر بن عبداللہ یقول فکنت فیمن رجمہ فرجمناہ بالمصلی فلما اذ لقتہ الحجارہ ھرب فادرکناہ بالحرہ فرجمناہ وراہ للیث ایضا (صحیح مسلم ج 2 باب من اعترف علی نفسہ بالزنا) 6۔ بنو غامدیہ کی ایک عورت بارگاہ رسالت میں آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ سے زنا سرزد ہوا ہے مجھے پاک فرمائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا واپس چلی جاؤ ۔ وہ عورت واپس چلی گئی لیکن دوسرے روز پھر نبی اعظم وآخر ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ غالبا آپ مجھے بھی اسی طرح واپس کرنا چاہتے ہیں جیسے آپ نے مالک کے بیٹے ماعز کو لوٹا دیا تھا ۔ یا رسول اللہ ﷺ میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے مجھے پاک فرمائیں بخدا میں حمل سے ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے عورت لوٹ جا وہ اسی وقت چلی گئی لیکن تیسرے روز پھر آگئی اور اپنی بات دہرائی ، آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت چلی جا اور جب وضع حمل ہوجائے تو پھر آنا ، وہ نبی کریم ﷺ کے حکم کے مطابق چلی گئی اور جب واپس آئی تو اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ اس کا نومولود بچہ بھی تھا اس نے آپ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ یہ میرا بچہ ہے میں نے اسے جنم دیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت چلی جاؤ اور بچے کو دودھ پلاؤ جب یہ اناج کھانے کے قابل ہوجائے تو پھر آجانا وہ چلی گئی اور کچھ مدت گزرنے کے بعد وہ آپ ﷺ کی خدمت میں پھر حاضر ہوئی بچہ بھی اس کے ساتھ تھا بچے کے ہاتھ میں کوئی کھانے کی چیز تھی جسے وہ کھا رہا تھا ۔ یہ دیکھ کر حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ بچے کو عورت سے لے لے اور اس کی کفالت کرے اس کے بعد نبی اعظم وآخر ﷺ نے حکم دیا کہ ایک گڑھا کھود کر اس میں گاڑ کر اس عورت کو سنگسار کیا جائے ، چناچہ آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اس عورت کے لئے ایک گڑھا کھودا گیا اور اس میں گاڑ کر سنگسار کردیا گیا ۔ سنگسار کرنے والوں میں خالد بن ولید بھی تھے انہوں نے بھی اس عورت کے پتھر مارا اس کے خون کے چھینٹے پڑے تو انہوں نے اس عورت کو گالی دی اس پر آپ ﷺ نے فرمایا خالد سوچ سمجھ کر بات کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس عورت نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایسی توبہ کوئی ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا محتصل بھی کر دے تو اس کی بخشش ہوجائے پھر آپ ﷺ کے حکم سے اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور اسے دفن کردیا گیا ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الحدود ج 2 ‘ صحیح مسلم کتاب الحدود) ابوداؤد کے الفاظ یہ ہیں : عن بشر بن المھاجر قال نا عبداللہ بن بریدہ عن ابیہ ان امراہ یعنی من غامد اتت النبی ﷺ فقالت انی قد فجرت فقال ارجعی فرجعت فلما ان کان الغداتتہ فقالت لعلک ان ترددنی کما رددت ماعز بن مالک فو اللہ انی لحبلی فقال لھا ارجعی فرجعت فلما کان الغداتتہ فقال لاھا ارجعی حتی تلدی فرجعت فلما ولدت اتتہ بالصبی فقالت ھذا ولدتہ فقال ارجعی فارضعیہ حتی تفطمیہ فجاءت بہ وقد فطمتہ وفی یدہ شی یاکلہ فامر بالصبی فدفع الی رجل من المسلمین فامر بھا فجفرلھا فامربھا فرجمت وکان خالد فیمن یرجمھا فرجمھا بحجر فوقعت قطرہ من دمھا علی دجنتہ فسبھا فقال لہ النبی ﷺ مھلا یا خالد فوالذی نفسی بیدہ لقد تابت توبہ لوتابھا صاحب مکس لغفرلہ وامر بھا فصلی علیھا فدفنت ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الحدود) صحیح مسلم کتاب الحدود کے الفاظ اس طرح ہیں : ثنا عبداللہ بن بریدہ عن ابیہ ان ماعز ابن مالک الاسلمی اتی رسول اللہ ﷺ فقال یا رسول انی قد زنیت فردہ الثانیہ فارسل رسول اللہ ﷺ الی قومہ فقال اتعلمون بعقلہ باسا تنکرون منہ شیئا فقالوا ما نعلمہ الا وفی العقل من صالحینا فیما نری فاتاہ الثالثہ فارسلی الیھم ایضا فسال عنہ ایضا فاخبروہ انہ لاباس بہ ولا بعقلہ فلما کان الرابعہ حفرلہ حفرہ ثم امر بہ فرجم فجاءت الغامدئہ فقالت یا رسول اللہ انی قد زنیت فطھرنی وانہ ردھا فلما کان الغد قالت یا رسول اللہ لم تردنی لعلک ان تردنی کما رددت ماعزا فو اللہ انی لحبلی قال امالا فاذھبنی فارضعیہ حتی تغطیمہ فلما فطمتہ اتتہ بالصبی فی یدہ کسرہ خبز فقالت ھذا یانبی اللہ قد فطمتہ وقد اکل الطعام فدفع الصبی الی رجل من المسلمین ثم امر بھا فحفرلھا الی صدرھا وامرالناس فرجموھا فیقبل خالد بن الولید بحجر فرمی راسھا فتنضع الدم علی وجہ خالد فسبھا فسمع نبی اللہ ﷺ سبہ ایاھا فقالمھلا یا خالد فوالذی بیدہ لقد تابت توبہ لوتابھا صاحب مکس لغفرلہ ثم امر بھا فصلی علیھا ودفنت ۔ 7۔ ایک حدیث میں ہے کہ چند آدمی ایک عورت کو نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں لائے جس سے زنا سرزد ہوا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کون ہے جس نے اس عورت سے زنا کیا ہے ؟ حاضرین نے عرض کی یہ فعل بد اس معذور واپاہج شخص نے کیا ہے جس کا چمڑا بھی ہڈیوں سے الگ ہوا جاتا ہے اور اس کی حالت ایسی ہے کہ اگر اس کو آپ ﷺ کے پاس لایا جائے تو وہ اپنی بیماری اور لاغری کے باعث اس طرح ہوچکا ہے کہ اس کی ہڈیاں اور گوشت الگ الگ ہوجائیں ۔ مختصر یہ کہ وہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچا ہے تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کو کھجور کی ایک ایسی ٹہنی لے کر مارو جس کی سو کے قریب شاخیں ہوں تو آپ ﷺ کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الحدود ج 2) ابو دادؤ کے الفاظ درج ذیل ہیں۔ اخبرہ بعض اصحاب رسول اللہ ﷺ من الانصار انہ اشتکی رجل منھم حتی اضنی فعاد جلدہ علی عظم فدخلت علیہ جاریہ ببعضھم فھشلھا فوقع فلما دخل علیہ رجال قومہ یعود دونہ اخبرھم بذلک فقال استفتر الی رسول اللہ ﷺ وقالوا ما راینا باحد من الناس من الضر مثل الذی ھو بہ لرحمک الیک تتفسخت عظامہ ما ھو الا جلد علی عظم فامر رسول اللہ ﷺ ان یاخذوالہ مائہ شمراخ فیضربوہ بھاضربہ واھدہ (سنن ابی داؤد کتاب الحدود ج 2) 8۔ حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اعظم وآخر ﷺ کی مجلس میں حاضر تھا جبکہ ایک شخص وہاں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جو قابل حد ہے مگر نبی کریم ﷺ اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہوئے اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص پھر آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جو قابل حد ہے آپ ﷺ کتاب اللہ کے مطابق مجھ پر حد جاری فرمائیں اس کی بات آپ ﷺ نے سنی اور فرمایا کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز ادا نہیں کی ، اس نے کہا رسول اللہ ﷺ میں نے نماز ادا کی ہے آپ ﷺ نے فرمایا بس جاؤ اللہ تعالیٰ نے تیرے گناہ کو معاف کردیا ہے یا آپ ﷺ نے فرمایا تیری حد معاف کردی ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب المحاربین ) حدیث کا متن اس طرح ہے : عن انس بن مالک قال کنت عند النبی ﷺ فجاءہ رجل فقال یا رسول اللہ الی اصبت حدا فاقمہ علی قال ولم یسالہ عنہ وقال حضرت الصلوہ فصلی مع النبی ﷺ فلما قضی النبی ﷺ الصلوۃ قام الیہ الرجل فقال یا رسول اللہ ﷺ اصبت حدافاقم فی کتاب اللہ قال الیس قد صلیت معنا قال نعم قال فان اللہ قد غفرلک ذنبک اوقال حدک (صحیح بخاری کتاب المحاربین ) ان احادیث کو حرف حرف کر کے پڑھو اور ذرا گہرائی میں جا کر غور کرو بات آپ پر انشاء اللہ واضح ہوجائے گی ۔ رجم کی سزا نبی کریم ﷺ نے سورة النور سے پہلے فرمائی یا بعد میں ؟ یہ سوال بھی اپنے اندر بہت حکمت رکھتا ہے اور یہ وہ حکمت ہے جس کا ہز ذی شعور کو تجسس ہونا ضروری ہے ۔ اور پھر یہ تجسس آج کل ہی نہیں خود صدر اول کے لوگوں میں پایا گیا ہے چناچہ حدیث میں ہے کہ : سالت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ ھل رجم رسول اللہ ﷺ قال نعم قلت قبل سورة النور ام بعد قال لا ادری (صحیح بخاری باب رجم المحضین ج 2) ” میں نے عبداللہ بن اوفی ؓ سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے رجم کیا ہے ، انہوں نے کہا ہاں ! میں نے پوچھا کیا سورة النور کے اترنے کے بعد یا پہلے تو انہوں نے کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں ہے ۔ “ رجم کی سزا کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا ؟ یہود کے واقعہ سے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ۔ یہود کے اس قضیہ کا فیصلہ کیسے ہوا ؟ یہود کی اپنی تسلیم شدہ کتاب اللہ یعنی تورات کے مطابق ۔ ازیں بعد جو فیصلے کئے گئے ان سب کی نوعیتیں مختلف تھیں جن سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ حدود میں بہت وسعت رکھی گئی ہے زنا کے مرتکبین کے لئے سو کوڑے اصل اور لازم وضروری سزا ہے لیکن حالات کے پیش نظر اس کے ساتھ ایک سال کی مدت تک علاقہ بدر کرنے کی سزا یا جیل میں رکھنے کی سزا بھی دی جاسکتی ہے اور برائی کے ساتھ ساتھ برائی کی اشاعت روکنا مقصود اصل ہے اس لئے اگر ضرورت پڑے تو زنا کے بعض مرتکبین کو رجم یعنی قتل بھی کیا جاسکتا ہے اور رجم کو جہاں جہاں بھی کتاب اللہ میں ہونے کی وضاحت احادیث میں کئی گئی ہے وہاں کتاب اللہ سے مراد تورات ہے نہ کہ قرآن کریم ۔ اس کی تفصیل سورة المائدہ کی آیت 43 میں کی جا چکی ہے ، سورة المائدہ کی تفسیر عروۃ الوثقی کی تیسری جلد میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ کتب احادیث میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں فی نفسہ ان واقعات پر نظر ڈالتے ہوئے ان کے مضمون پر غور وفکر کیا جاسکتا ہے راویوں کی بحث کو اٹھا کر خواہ مخواہ کے شکوک و شبہات پیدا کرنا کسی حال میں بھی مناسب نہیں کیونکہ واقعات خود بول بول کر کہہ رہے ہیں کہ اس سلسلہ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ روایت بالمعنی ہیں اور راویان احادیث نے ہر جگہ اپنی تفہیمات کے مطابق بیان دیا ہے من وعن رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ذکر نہیں کیے گئے اور بلاشبہ ایسا ہی ہونا ممکن بھی تھا ، مندرجہ بالا روایات کا تجزیہ کرنے سے بہت کچھ معلوم ہو سکتا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ جن لوگوں کو یہ سزا دی گئی وہ کیسے انسان تھے اور یہ بھی کہ اگر ایسے لوگوں کو اس طرح کی سزا نہ دی جائے تو ان کا تو جو ہوا سو ہوا وہ معاشرہ میں برائی کی اشاعت کا باعث بھی بنتے ہیں اور حدود اللہ کے مذاق کا باعث بھی اس لئے ان کو سخت سزا دینا ضروری ہوتا ہے اور اس کی مثالیں ہر قانون میں موجود ہیں کہ مخصوص مجرموں کے لئے مخصوص سزائیں ہوتی ہیں تاکہ جرائم کا قلع قمع ہوسکے ، گزشتہ واقعات کو آرام کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ ان میں سے ایک ایک واقعہ ایسا ہے کہ اگر انکو وہ سزا نہ دی جاتی تو یہ لوگ پورے معاشرہ میں ہل چل مچا دیتے ، ایک جرم کرنا اور دوسرا خود ہی اس کی اشاعت شروع کردینا اور پھر باوجود منع کرنے کے اس پر اصرار کرنا کیا ہے ؟ اگر ان کو چھوڑ دیا جاتا تو یہ لوگ خواہ اپنی سادگی کے باعث یا دوسروں کے اکسانے پر اسلامہ معاشرہ کے اندر برائی کی اشاعت کا یقینا باعث ہوتے اس لئے انکو یہی سزا دیئے جانا ضروری سمجھا گیا ۔ مختصر یہ کہ زانی محصن کو سنگسار کرنے کا ذکر قرآن کریم میں صراحۃ مذکور نہیں اس لئے کہ اسلام نے مسائل نکاح میں بہت زیادہ سہولتیں اور آسانیاں پیدا کردی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ حالت احصان میں ارتکاب زنا شاذ ونادر ہی وقوع میں آئے اس لئے ایک نادر الوقوع امر کے لئے کوئی حکم صراحت کے ساتھ صادر کرنا اصول تشریح کے خلاف ہے زانی کا لفظ اگر مطلق بولا جائے تو زنا کے عام مفہوم سے صرف غیر محصن ہی مراد ہوگا واضعان آئین وقوانین شاذونادر مسائل کا حکم اکثر صریحا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی خاص قانون بناتے ہیں اصول قانون واقف اور ماہرین فن خود بخود قواعد عامہ سے اس کا حکم استنباط کرلیتے ہیں ، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ محاورات عرب میں کتاب مکتوب یعنی اللہ کا حکم بھی مستعمل ہے ہر جگہ کتاب اللہ سے قرآن کریم ہی مراد نہیں ہوتا جیسا کہ قرآن کریم میں نکاح کے احکام بیان کر کے ارشاد فرمایا (کتب اللہ علیکم) (النسائ : 4 : 24) ” یہ اللہ کا حکم ہے جو تم پر نازل کیا جاتا ہے ۔ “ صلوۃ موقت کے متعلق ارشاد الہی اس طرح ہے کہ (آیت) ” ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا “۔ (النسائ 4 : 103) مسلمانوں پر صلوۃ بقید وقت میں فرض کی گئی ہے ۔ اور روزے کے متعلق ارشاد فرمایا : (آیت) ” یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم “۔ (البقرہ : 2 : 183) ” اے ایمان والوں ! جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا تم پر بھی فرض کیا گیا ۔ “ اکثر لوگ اس فرق کو مدنظر نہیں رکھتے اس لئے انہیں سخت مغالط میں ہوتا ہے حدیث میں جو ان الرجم من کتاب اللہ آیا ہے تو انہیں یہ وہم گزرتا ہے کہ یہ حکم بصراحت قرآن کریم میں موجود ہے حالانکہ یہاں کتاب کا لفظ دوسرے مفہوم میں بیان ہوا یعنی سنگسار کرنا بھی اللہ کا حکم ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس جگہ کتاب اللہ سے تورات مراد ہو کیونکہ وہ بھی بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کی نازل کردہ کتاب ہے اگرچہ یہود نے اس میں تحریف کردی ہے بہرحال اس فرق کو پیش نظر نہ رکھنے کے باعث احادیث میں جو کتاب اللہ کا لفظ آیا ہے اس سے قرآن کریم سمجھ لیا ہے اور اس طرح الشیخ والشیخہ اذا زنیا کے الفاظ کو قرآن کریم کی ایک آیت تسلیم کرکے یہ دعوی کردیا کہ یہ قرآن کریم کی آیت تھی جو منسوخ التلاوہ ہے مگر اس کا حکم ابھی تک باقی ہے اس بات کو حضرت عمر فاروق ؓ کے خطبہ سے مضبوط پکا کردیا گیا جسے بخاری (رح) نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے وہ خطبہ حسب ذیل ہے : ایھا الناس فان اللہ تعالیٰ بعث محمدا ﷺ وانز علی الکتب فکان فیھا انزل علیہ آیہ الرجم فقرانا ھاود عینا ھ اورجم رسول اللہ ﷺ ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل واللہ ما نجد ایہ الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضہ انزلھا اللہ والرجم فی کتاب اللہ حق علی من زانی اذا احصن من الرجال والنساء اذا قامت البینہ اوکان الحبل او الاعتراف (بخاری کتاب المحاربین) ” لوگو ! اللہ نے اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کو بھیجا ‘ اس پر کتاب نازل کی اور اس میں آیت رجم نازل کی ‘ جسے ہم نے پڑھا اور یاد رکھا اور وہ آیت وہی ہے جو سورة المائدہ کی 44 ویں آیت ہے ، اس کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اور ہم سب نے رجم کیا ‘ مجھے ڈر ہے کہ زمانہ دراز کے بعد لوگ یہ کہنے لگ جائیں گے کہ آیت رجم کتاب اللہ میں موجود نہیں ہے اور اس طرح اس فریضہ الہی کے ترک سے گنہگار بن جائیں ۔ پس تم یاد رکھو کہ رجم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جب شادی شدہ مرد اور عورت زنا کے مرتکب ہوں اور شہادت ‘ حمل یا اقرار جرم سے ثابت ہوجائے تو رجم ضروری ہے ۔ “ پھر جب اس کے ساتھ اس روایت کو بھی ملا دیا جائے جسے نسائی نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمر فاروق ؓ نے دوران خطبہ فرمایا لولا ان یقول قائل اویتکلم متکلم ان عمر زادنی کتاب اللہ مالیس فیہ لا ثب تھا کمانزلت ” اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے کتاب الہی میں زیادتی کی ہے تو میں ضرور اس کو ویسے ہی اس میں نقل کردیتا ۔ “ غور طلب بات اور احادیث کا صحیح مفہوم : بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ اگر مسلمانوں کو یہ بات معلوم ہوتی کہ یہ قرآن کریم کا حکم ہے تو حضرت عمر فاروق ؓ اس کو قرآن کریم میں درج کرنے سے ذرا بھی تامل نہ کرتے اور اس بات میں آپ کسی کی بھی پروانہ کرتے بلکہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ہی نہ ملتا کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے قرآن کریم میں زیادتی کی ہے اس سے صاف صاف جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ حکم قرآن کریم میں نہ تھا بلکہ اس جگہ کتاب اللہ سے مراد یا توراۃ ہی ہے جیسا کہ پیچھے عرض کیا گیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کا مطلب اس پر زور دینے سے یہ تھا کہ یہ حکم بھی ان احکام کی طرح تھا جو قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں یعنی اس کی تاکید اس طرح کی گئی ہے باوجود اس کے کہ وہ صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں نہیں ہیں تاہم اس کے حکم خداوندی ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے جیسے بہت سی اور چیزیں اور باتیں بھی موجود ہیں جو صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں موجود نہیں ہیں بلکہ جو کچھ کہا جاتا ہے وہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی تاکید کے طور پر کہا جاتا ہے جیسا کہ سیدنا علی ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ جلد تھاب کتاب اللہ ورجم تھا بسنت رسول اللہ ﷺ ” کہ کوڑے تو کتاب اللہ کے تحت لگائے جاتے ہیں جو بکر وثیب سب کے لئے ہی لیکن رجم کا حکم احادیث میں ہے جس سے ضرورت کے وقت کام لیا جائے گا ۔ “ جیسا کہ خود نبی کریم ﷺ کے وقت میں لیا گیا اور خلفاء راشدین کے مبارک دور میں بھی بدستور لیا جاتا رہا اور اب بھی مقننہ اسلامی اس سے کام لے سکتی ہے کیونکہ یہ حالات کے جائزہ کے بعد ہوگا جو حکومت وقت کے اختیار میں ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام بخاری (رح) نے اس بات کو کتاب المحاربین میں بیان فرما کر اشارہ کردیا ہے ۔ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ سنگسار کرنا قرآن کریم میں صریحا مذکور نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کا اس پر کوڑے مارنے کی طرح عقیدہ تھا بلکہ اس کو وہ ایک استنباط شدہ حکم خیال کرتے تھے جو اس وقت بھی ضرورت کے مطابق کیا گیا اور اب بھی ضرورت کے مطابق کیا جائے گا اس کی صورت پتھر مار مار کر ہلاک کرنا بھی ضروری نہیں بلکہ اس سے اصل غرض اس کی یعنی زنا کی برائی سے لوگوں کو بچانا ہے کہ جس کا انجام قتل یا سنگسار ہو سکتا ہے ، اس لئے کہ بلاریب ملک میں جس قدر خرابیاں رونما ہوتی ہیں ان کے رفع وانسداد کے لئے ضرورت ہے کہ راعی ورعایا باہم اشتراک عمل سے کام لیں اور دونوں متحد سعی و کوشش کریں ، اگر حکومت مصروف کار ہو اور رعایا ساتھ نہ دے یا رعایا کسی اصلاح کی طالب ہو اور حکومت نہ چاہے تو ناکامی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ، اس لئے قرآن کریم نے ایک طرف حاکم کو اس بےحیائی کے روکنے کا حکم دیا ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کو یہ فرض بتادیا کہ ایسے موقع پر انہیں کیا کرنا چاہئے ۔ بدکار مرد ہی کسی بدکار عورت یا مشرکہ سے نکاح پسند کرسکتا ہے : 6۔ زانی یا زانیہ کے متعلق قوم کے لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے ؟ قرآن کریم کی یہ آیت اس بات کا حکم دے رہی ہے کہ قوم کا فرض ہے کہ وہ زانی مرد اور عورت کو اپنی سوسائٹی سے گرا دے ان کی سیرت اور اخلاق پر اعتماد نہ کرے ایسا آدمی جو اس معاملہ میں مصروف ہو وہ سزا کی زد میں آیا ہو یا نہ آیا ہو جب وہ کسی شریف مسلمان لڑکی کی تلاش میں ہوتا کہ اس سے نکاح کرے تو کوئی مسلمان اپنی لڑکی کو اس کے نکاح میں نہ دے خواہ وہ کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو اور اس کی یہی سزا ہے کہ وہ اپنے ہی جیسی بدکار اور سزا یافتہ عورت سے نکاح کرے ، نسائی شریف میں ہے کہ ایک صحابی نے ام مزول ایک پیشہ ور عورت سے نکاح کا ارادہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی اور ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان تین آدمیوں سے بات تک نہ کرے گا ” العاق لوالدیہ والمراۃ المترجلہ المتشبہہ بالرجال الدیوث (مسند احمد) 1۔ وہ شخص جو اپنے ماں باپ کا عاق ہو۔ 2۔ وہ عورت جو مردوں کے ساتھ مشابہت کرے ۔ اور 3۔ دیوث یعنی وہ شخص جو اپنی بیوی کو غیروں کے ساتھ دیکھے اور برداشت کرے ۔ یہی سلوک زانیہ عورت سے بھی ہونا چاہئے کہ وہ کسی شریف گھرانے میں داخل ہونے کے قابل نہیں ہے خواہ وہ کتنی ہی حسین و جمیل کیوں نہ ہو سچے مسلمانوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے ، شریعت اسلام کبھی اس چیز کو جائز قرار نہیں دے سکتی کہ ایسی بےحیا عورت کے ساتھ کوئی شریف مسلمان نکاح کرے ، یہی دستور العمل ہے اور ہر مسلمان کو اس کی پابندی کرنی چاہئے ، پاکدامن مرد کا نکاح زانیہ عورت سے نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے اس طرح ایک شریف اور پاکباز عورت کا نکاح زانیہ عورت سے نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے اس طرح ایک شریف اور پاکباز عورت کا نکاح زانی مرد سے خالص توبہ کے بغیر نہیں ہو سکتا اور اس کی دلیل قرآن کریم میں یہی آیت ہے کہ (آیت) ” حرم ذلک علی المؤمنین) اس سخت کا منشا یہ ہے کہ جب قوم بھی ایسے بداخلاقوں کا بائیکاٹ کر دے گی تو وہ ضرور اس سے متاثر ہوں گے اور عجب نہیں کہ اس فعل بد سے بالکل الگ ہوجائیں توبہ کے بعد یہ تمام رکاوٹیں اٹھ جائیں گی اور وہ آزادانہ ہر ایک سے نکاح کرسکیں گے لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی ان باتوں پر بالکل نظر نہ رہی اور بدقسمتی سے آج دونوں طرف ایک ہی بات ہے کہ مال ومتاع ہو اور روپے پیسے کی ریل پیل ہو ۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ایسا کیوں ہے کہ زانی اور مشرک کو ایک جیسا سمجھا گیا ہے اور صاف صاف لفظوں میں بیان ہوا ہے کہ کوئی زانی مرد ہی کسی زانیہ عورت یا مشرکہ سے شادی کرسکتا ہے زانیہ کی بات تو سمجھ میں آگئی لیکن اس کے ساتھ مشرکہ کا ذکر کیوں ؟ اس لئے کہ جس طرح زنا اخلاقی نجاست ہے بالکل اسی طرح شرک عقیدہ کی نجاست ہے زانی مرد اخلاقی کمزوری کے باعث ایک عورت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ادھر ادھر تلاش میں رہتا ہے اور مشرک عورت ہو یا مرد وہ بھی اپنے ایک مالکل حقیقی پر اعتقاد نہیں رکھتا بلکہ ادھر ادھر غیروں پر بھی نظر رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے ساتھ وہ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرائے یعنی وہ کام اور وہ تعلق جو صرف بندہ اور اللہ کے درمیان ہے وہ کسی غیر اللہ کے ساتھ سمجھ لے تو یہی شرک ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے آج اس شرک کو سمجھنے سے بھی انکار کردیا ہے اور اس سے بچنے کو بھی کوئی کوشش نہیں کرتا ، علمائے کرام کی اکثریت نے لوگوں کے ذہن میں یہ بات پیوست کردی ہے کہ مشرک صرف بت پوجنے والوں کو کہا جاتا ہے اس لئے باقی سارے لوگ یعنی قبر پرست ‘ پیر پرست ‘ خواہش پرست اس کی زد میں نہیں آتے حالانکہ اسلام کی زبان میں بت پرست اور قبر پرست میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہی حال خواہش پرست کا ہے اور یہی پیر پرست کا ۔ قرآن کریم نے اس معاملہ کا سارا ابہام خود بخود ختم کر کے رکھ دیا : 7۔ زیر نظر آیت کے آخر میں یہ الفاظ ” یہ بات مومنوں پر حرام کردی گئی ہے “ حکم کی مزید وضاحت کر رہے ہیں کہ مشرکین کا تعلق اسلامی معاشرہ سے بالکل نہیں ہے تاکہ معاشرہ کے اندر ایمانی حس بیدار ہوجائے لیکن افسوس کہ آج یہ حس مکمل طور بےحس ہوچکی ہے اور مال و دولت اور خاندانی تقسیم نے اس کو بالکل ختم کر کے رکھ دیا ہے حالانکہ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومنہ لونڈی آزاد مشرکہ عورت سے بہتر ہے خواہ وہ حسب ونسب کے لحاظ سے اور شکل و صورت کے لحاظ سے کتنی ہی اچھی اور بھلی کیوں نہ معلوم ہو ‘ کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ شرک کو بیاہ کر گھر لانے سے تم بھی شرک کی لعنت میں لت پت ہوجاؤ گے اس لئے اس سے بچنا نہایت ضروری ہے ، اس کی وضاحت سورة البقرہ کی آیت 241 میں کردی گئی ہے وہیں سے ملاحظہ کرلیں ۔
Top