Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 63
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا١ؕ قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا١ۚ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَجْعَلُوْا : تم نہ بنا لو دُعَآءَ : بلانا الرَّسُوْلِ : رسول کو بَيْنَكُمْ : اپنے درمیان كَدُعَآءِ : جیسے بلانا بَعْضِكُمْ : اپنے بعض (ایک) بَعْضًا : بعض (دوسرے) کو قَدْ يَعْلَمُ : تحقیق جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ يَتَسَلَّلُوْنَ : چپکے سے کھسک جاتے ہیں مِنْكُمْ : تم میں سے لِوَاذًا : نظر بچا کر فَلْيَحْذَرِ : پس چاہیے کہ وہ ڈریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُخَالِفُوْنَ : خلاف کرتے ہیں عَنْ اَمْرِهٖٓ : اس کے حکم سے اَنْ : کہ تُصِيْبَهُمْ : پہنچے ان پر فِتْنَةٌ : کوئی آفت اَوْ يُصِيْبَهُمْ : یا پہنچے ان کو عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
تم لوگ رسول کے بلانے کو ایسا نہ سمجھنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو ، بلاشبہ اللہ کو ان لوگوں کا علم ہے جو آنکھیں بچا کر نکل جاتے ہیں ، پس ان لوگوں کو جو آپ ﷺ کی حکم عدولی کر رہے ہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آجائے یا ان کو دردناک عذاب پہنچے
رسول اللہ ﷺ کا بلانا ایسا نہیں جیسا تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو : 106۔ مسلمانوں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بلانا تمہارے ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہیں کیونکہ ایکد وسرے کا بلانا ذاتی یا دنیوی ضروریات کے لئے ہوتا ہے اور رسول کا بلانا محض اللہ تعالیٰ کے لئے ہے ۔ زیر نظر آیت میں لفظ (دعآئ) استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی بلانے کے بھی ہیں اور دعا کرنے کے بھی اس لئے (دعآء الرسول) کے معنی رسول اللہ ﷺ کو بلانے کے بھی ہوسکتے ہیں اور دعا کرنے کے بھی اور اس طرح رسول کو پکارنے بھی اس لئے آیت کا مفہوم تین طریقہ سے بیان کیا جاسکتا ہے اور ہر طریقہ کا مفہوم مراد لیا جاسکتا ہے ۔ 1۔ ” رسول اللہ ﷺ کے بلانے کو عام آدمیوں کے بلانے کی طرح نہ سمجھو “ مطلب یہ ہے کہ تم کو رسول اللہ ﷺ بلائیں تو آپ ﷺ کے بلانے کو عام لوگوں کے بلانے کی طرح نہ سمجھو بلکہ فورا حاضر ہوجاؤ اگر تم نے دیر کی تو مستوجب سزا ٹھہرو گے اس لئے سنتے ہی حاضر ہوجاؤ اگرچہ تم کسی اہم کام میں مصروف ہو اور اسی طرح آپ ﷺ کے بلانے کو دل میں ذرا بھر بھی بھاری نہ سمجھو اور تنگی محسوس نہ کرو کہ ایسا کرنے ایمان کے جاتے رہنے کا خطرہ ہے ۔ 2۔ یہ بھی کہ ” رسول اللہ ﷺ کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو “ وہ تم سے خوش ہو کر تم کو دعا دیں تو تمہارے لئے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہو سکتا اور دنیوی نعمتوں میں سے کوئی نعمت بھی اس سے بڑی نہیں ہو سکتی اور اگر رسول اللہ ﷺ ناراض ہو کر کچھ فرما دیں تو تمہاری اس سے بڑھ کر کوئی بدنصیبی نہیں ہوسکتی کیونکہ دنیاو آخرت دونوں جگہ خسارہ کا باعث ہوگی ۔ 3۔ ” رسول اللہ ﷺ کو پکارنا عام آدمیوں کا ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہیں ہے “ مطلب یہ ہے کہ تم لوگ جس طرح ایک دوسرے کا نام لے کر ایک دوسرے کو پکارتے ہو اور ایک دوسرے کو زور زور سے پکارتے ہو آڑ کے پیچھے بھی بلاتے ہو اور بآواز بلند ذاتی نام سے پکارتے رہتے ہو اس طرح رسول اللہ ﷺ کو مت بلاؤ کیونکہ یہ نہایت بےادبی اور گستاخی کی بات ہے کہ تم آپ ﷺ کو ” یامحمد “ کہہ کر پکارو لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے ایک دوسرے کی ضد کے باعث ان باتوں میں سے کسی کی بھی حفاظت نہ کی اور آج اس سلسلہ میں جو کچھ کہا ‘ سنا جاتا ہے سب لوگ اس سے اچھی طرح واقف ہیں زیادہ وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ حقیقت میں ” دعاء الرسول “۔ سے مراد رسول اللہ ﷺ کا دین حق کی طرف دعوت دینا ہے اور اہم امور دین کے لئے بلانا اس سے مراد ہو سکتا ہے اور سیاق وسباق بھی اس معنی کو طلب کرتا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے جو دعوت دی تھی اس کا منشا یہی تھا کہ دین حق دنیا میں پھیلایا جائے اور لوگوں کو نیکی کی تعلیم دی جائے اور بری باتوں سے لوگوں کو روکا جائے لیکن افسوس کہ آج لوگ باجود مسلمان کہلانے کے آپ ﷺ کی دعوت کو ایک دوسرے کی دعوت کی طرح بھی قرار نہیں دیتے ایک دوسرے کو جس کام کی طرف بلاتے ہیں ادھر رخ کرنا آسان ہو رہا ہے مگر رسول اللہ ﷺ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور یہی وہ فتنہ ہے جو اس وقت دنیائے اسلام میں سارے فتنوں سے زیادہ بڑا ہے ، جس کے باعث مسلمان قوم من حیث القوم آج عذاب الیم میں مبتلا نظر آرہی ہے ۔ آنکھیں بچا کر نکل جانے والوں سے اللہ تعالیٰ غافل نہیں ہے : 107۔ (یتسللون) کی اصل س ل ل ہے اور سل کے معنی کسی چیز کو پیچھے سے کھینچ لینے کے ہیں اور نرمی کے ساتھ نکال لینے کے ہیں یا نرمی کے ساتھ نکل جانے کے اور اس طرح چھپ کر نکل جانے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے اور ” لواذا “ لاوزیلاوز سے ہے جس کے معنی ہیں کسی دوسری چیز کی آڑلی یعنی اس کے پیچھے چھپ گیا یا اس کے ذریعہ سے چھپ گیا اور مطلب یہ ہے کہ باتوں ہی باتوں میں ٹال مٹول کرکے دوسری طرف نکل گیا ، منافقین کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ باتوں ہی باتوں میں ٹال مٹول کرکے خاموشی کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور جو مطلب کی ہوتی ہے اس کو قبول کرتے ہیں اور دوسری بات پر کبھی دھیان ہی نہیں دیتے ، بات صاف ہوگئی کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب رسول انکو بلاتے ہے تو وہ لوگوں کو دکھاوے کے لئے پیش پیش رہتے ہیں اور خوب جی حضوری کرتے ہیں لیکن جب وہاں پہنچ کر ان کو دیکھا جاتا ہے تو وہ کہیں نظر نہیں آتے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ راستہ ہی سے کسی ایسے طریقہ سے نکل جاتے ہیں کہ لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ اس کو کہتے ہیں فلاں آنکھوں میں دھول ڈال کر نکل گیا ۔ ان لوگوں کو ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں عذاب الہی کی لپیٹ میں نہ آجائیں : 108۔ نبی کریم ﷺ کی حکم عدولی کرنے والوں کو ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آجائے یا انکو دردناک عذاب میں مبتلا نہ کردیا جائے ، یہ آفت کیا ہو سکتی اور عذاب کیسا ہو سکتا ہے ؟ منافق ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہیں جو بظاہر مسلمان مسلمان ہوچکے ہیں اور باطن ان کا اسلام کو قبول نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ وہ خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن خلاف ورزی کے لئے اپنی طرف سے پوری احتیاط بھی برتتے ہیں کہ ان کی خلاف ورزی کا عام علم نہ ہو اور ظاہر ہے کہ جیسا ان کا عمل ہے ویسا ہی نتیجہ نکلنا چاہئے ، اور اس طرح نکلے گا کہ ان پر ظالم بادشاہ اور حاکم مقرر کر دئیے جائیں گے اور فتنے کی یہی ایک صورت ان کے عمل کا صحیح نتیجہ ہوگا اور پھر آپس میں تفرقے ہوں گے اور خانہ جنگیاں شروع ہوجائیں گی پھر ایک قوم وملت کہلانے کے باوجود وہ لعنت الہی کے مستحق ہوں گے اور ان کا اخلاقی زوال ایک دنیا جانے گی اور ہوتے ہوتے وہ اپنا اعتبار واعتماد کھو بیٹھیں گے اور کوئی قوم بھی ان کو گھاس ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہوگی اگر آپ برا نہ مانیں تو اس وقت مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ تقریبا اسی طرح کی ہوچکی ہے اور افسوس یہ ہے کہ اس عذاب میں مبتلا ہونے کے باوجود آج ہم اس کو عذاب تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہی ہٹ دھرمی ہم کو ذلیل سے ذلیل تر کرتی چلی جا رہی ہے ۔
Top