Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 114
وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ
وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں بِطَارِدِ : ہانکنے والا (دور کرنے والا) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور میں ایمان لانے والوں کو اپنے سے دور کرنے والا نہیں
نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تو ان ایمان لانے والوں کو دھتکار نہیں سکتا : 114۔ نوح (علیہ السلام) نے قوم کے وڈیروں کو صاف صاف کہہ دیا کہ جو شرط تم لوگ لگاتے ہو مجھے تو وہ کسی حال بھی قبول نہیں اور میں ان کو اپنی مجلس سے اٹھا کر تم کو نہیں بٹھاسکتا ۔ میں نے جو کچھ پیش کیا ہے اپنی طرف سے نہیں پیش کیا بلکہ یہ پیغام خداوندی ہے جو ان کو پہنچایا ہے اور جب انہوں نے اس کو قبول کرلیا ہے تو میں ان کو دھتکار دوں کہ بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نہیں ۔ مجھے اللہ نے یہ حکم نہیں دیا کہ جو میرے پاس آتے ہیں میں ان کی ذات ‘ برادری ‘ حسب نسب اور پیشہ پوچھوں اور اگر وہ آپ لوگوں کی نگاہ میں رذیل وکمین ہوں تو انکو واپس کرکے اس انتظار میں رہوں کہ یہ سارے شریف لوگ جو بدکردار بھی ہیں اور بداخلاق بھی چونکہ وہ مالدار ہیں اور دنیوی عزت وجاہ کے مالک ہیں لہذا ان کا انتظار کروں کہ وہ کب میری مجلس میں تشریف لاتے ہیں تاکہ میں اٹھ کر ان کا استقبال کرسکوں ۔ اگر تم اس انتظار میں ہو تو یہ انتظار کبھی بھی پورا نہیں ہوگا اور یقینا اس انتظار میں مرو گے ، اس کی تفصیل سورة الانعام کی آیت 52 میں دیکھیں جو عروۃ الوثقی کی تیسری جلد میں ملے گی ۔
Top