Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 13
وَ یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ
وَيَضِيْقُ : اور تنگ ہوتا ہے صَدْرِيْ : میرا سینہ (دل) وَلَا يَنْطَلِقُ : اور نہیں چلتی لِسَانِيْ : میری زبان فَاَرْسِلْ : پس پیغام بھیج اِلٰى : طرف هٰرُوْنَ : ہارون
اور (یہ کہ) میرا دل تنگ ہوتا ہے اور میری زبان نہیں کھلتی ، پس ہارون کو بھی (میرے ساتھ نبی بنا کر) بھیج دے
اے میرے رب ! میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں بولتی : 13۔ یہ سینہ کی گھٹن اور زبان میں بولنے کی ہمت نہ ہونے کی شکایت کیوں پیدا ہوئی ؟ مفسرین نے بڑی بڑی عجیب توجیہات بیان کی ہیں اور اس کے لئے کہانیوں کے خوب طومار باندھے ہیں لیکن سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نبوت سے پہلے ایسے واقعات سے دو چار ہوچکے تھے کہ ان واقعات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ایک انسان پر ایسے عوارضات وارد ہو سکتے تھے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک سوچی سمجھی سکیم الہی کے تحت محلات فرعونی میں پرورش پائی تھی اور بڑے ہو کر جب آپ کو اپنی قوم اور اس پر ڈھائے گئے مظالم کا علم ہوا اور خود آنکھوں سے دیکھا تو برداشت نہ کرسکے اور اس سلسلہ میں ایک اتفاقی قتل بھی آپ سے منسوب ہوگیا فرعون نے آپ کو پکڑنے اور پیش کئے جانے کا حکم دیا تو اس کی خبر پا کر آپ مصر سے ہجرت کر کے مدین کی طرف نکل گئے وہاں ایک عرصہ گزارنے کے بعد جب واپس مصر آرہے تھے تو راستہ ہی میں نبوت کے لئے چن لئے گئے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے جب فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس جانے میں جھجھک محسوس کی کہ وہ لوگ تو مجھے دیکھتے ہی مجھ پر پل پڑیں گے اور مجھے سزا دینے کے لئے تگ ودو شروع کردیں گے ان خیالات کا آنا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر وہ حالت طاری ہونا شروع ہوگئی جس کا اوپر ذکر ہوا اور تفصیل اس کی سورة طہ میں مفصل گزر چکی ہے اور آگے سورة القصص میں بھی آئے گی ، لیکن آپ تفصیل چاہتے ہیں تو سورة طہ کا مطالعہ کریں لیکن مفسرین نے جو ” میرا سینہ تنگ ہوتا ہے اور میری زبان نہیں کھلتی “ کی تعبیر کی ہے وہ کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے اور اس کی وضاحت ہم پیچھے سورة طہ میں کرچکے ہیں وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نبوت کوئی سفارشی چیز نہیں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبی بنایا گیا ہو بلکہ حقیقت اس کی یہ ہے کہ جس کو نبی ورسول بنانا مقصود تھا اس کی نبوت و رسالت کی اپیل موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی کردی اور مشیت ایزدی کے فیصلوں میں یہ اتفاقات پیش آتے رہے ہیں ، مقصود اس کے اظہار سے صرف یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے ایک عرصہ غائب رہنے کے باوجود مصر کے حالات سے مکمل طور پر باخبر تھے اور اپنی قوم اور خاندان سے آپ کا رابطہ موجود تھا اور سمجھنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں موجود ہیں ، کلام الہی کا یہی معجزانہ رنگ ہے کہ وہ اس طرح بات کرتا ہے کہ سب کچھ کہہ بھی دیتا ہے اور کچھ کہتا بھی نظر نہیں آتا ۔
Top